کراچی غیر قانونی ترقیاں لینے والے 1600 پولیس اہلکاروں کی تنزلی

غیرقانونی ترقی پانیوالے درجن سے زائد اہلکار تاحال تھانے دار،مبینہ رشوت خورآفس سپرنٹنڈنٹ بھی برقرار


Muhammad Yaseen May 22, 2013
غیر قانونی کام سے انکارکرنے والا آفس کلرک بحال نہ ہو سکا،اکرم لاہوری سمیت خطرناک دہشتگردوں کوپکڑنے والے بھی ترقیوں کے منتظر۔ فوٹو: فائل

سابق ایڈیشنل آئی جی کراچی اختر حسین گورچانی اور غلام شبیر شیخ کے دور میں غیر قانونی طور پر ترقیاں پانے والے1600سے زائد اہلکاروں کی تنزلی کردی گئی۔

یہ فیصلہ ایڈیشنل آئی جی کراچی اقبال محمود، ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر ثنا اﷲ عباسی ، ڈی آئی جی اسپیشل برانچ شاہد حیات،ایڈیشنل آئی جی سندھ غلام قادرتھیبو سمیت6رکنی تحقیقاتی کمیٹی نے کیا، اہلکاروں کو مبینہ طور پرڈیڑھ سے5 لاکھ روپے تک رشوت لینے والے آفس سپرٹنڈنٹ تاحال اپنے عہدے پر کام کر رہے ہیں، غیرقانونی کام سے انکار کرنے والے آفس کلرک موسیٰ کو معطل کیا گیا تھا جسے تاحال بحال نہیں کیا گیا ، غیر قانونی طور پر ترقی پانے والے ایک درجن سے زائد اہلکار تا حال تھانے دارہیں، ڈیڑھ سو سے زائد افراد کے قاتل اکرم لاہوری سمیت دیگر خطرناک دہشت گردوں کو پکڑنے والے ترقیوں کے حقدار اہلکار تا حال ترقی کے منتظر ہیں۔

1600سو سے زائد پولیس ملازمین کی تنزلی کافیصلہ آئی جی سندھ شاہد ندیم بلوچ کی ہدایت پر6 رکنی کمیٹی نے مکمل تحقیقات کے بعدکیا، تنزلی پانے والے بیشتر پولیس ملازمین کی لسٹیں تیار کرکے ان کے متعلقہ ڈی آئی جی آفس کو بھیج دی گئی ہیں جبکہ دیگرکی لسٹیں تیار کی جا رہی ہیں جو آئندہ چند روز میں ان کے متعلقہ ڈی آئی جی آفس میں بھیج دی جائیں گی،غیرقانونی طور پرترقیاں پانے والے سب انسپکٹر معید ایس ایچ او پیر آباد ، سب انسپکٹر تنویر مراد ایس ایچ او اورنگی ٹاؤن، سب انسپکٹر امان اﷲ مروت ایس ایچ او سکھن،سب انسپکٹر انظرعالم ایس ایچ او سپر مارکیٹ ، سب انسپکٹر عابد تنولی ایس ایچ او بغدادی سب انسپکٹر ناصر محمود ایس ایچ او اتحاد ٹاؤن سب انسپکٹر بشیر حسین وٹو ایس ایچ او پاکستان بازار، سب انسپکٹر شبیر حسین ایس ایچ اوقائد آباد سمیت ایک درجن سے زائد پولیس اہلکاروں جن کی تنزلی کرکے کانسٹیبل اورہیڈ کانسٹیبل بنا دیا گیا ہے وہ تاحال ایس ایچ اوز کے عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔



واضح رہے تقریباً ڈیڑھ سال قبل سپریم کورٹ کے حکم پر ڈی ایس پی سے ہیڈ کانسٹیبل کے عہدے تک شولڈر پرموشن حاصل کرنے والے پولیس ملازمین کی اس وقت کے آئی جی سندھ مشتاق شاہ نے تنزلی کی تھی، تاہم شولڈر پرموشن حاصل کرنے والے ایس پیز کے عہدوں پر کام کرنے والے پولیس ملازمین کی تنزلی نہیں کی گئی تھی بعد ازاں محکمہ پولیس کی طرف سے عدالت میں ایک درخواست دی گئی تھی کہ تنزل کیے جانے والے متعدد پولیس ملازمین ایسے بھی ہیں جنھوں نے 150 سے زائد افراد کے قتل میں ملوث ملزم اکرم لاہوری سمیت کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے خطرناک ملزمان کو اپنی جانوں پرکھیل کر گرفتار کیا اور ملزمان تاحال جیلوں میں قید ہیں جس پر عدالت نے کہا تھا کہ ایسے پولیس افسران کو ان کے بھرتی ہونے سے اب تک کے حساب سے ترقیاں پانے والے بیج سے ملا دیا جائے جس پر اس وقت کی ایڈیشنل آئی اختر حسین گورچانی نے اپنے آفس سپرٹنڈنٹ قائم سومرو اور شیٹ کلرک سراج کی مبینہ ملی بھگت سے اثر رسوخ استعمال کرنے والے 1147 کانسٹیبل اور اے ایس آئی سے مبینہ طور پر 50 ہزار روپے سے 5 لاکھ روپے لے کر انھیں ترقیاں دے دی تھیں۔

جبکہ عدالت نے جن پولیس ملازمین کو ترقیاں دینے کو کہا تھا انھیں ان کے عہدوں پر بحال نہیں کیا گیا تھا اور وہ پولیس ملازمین تاحال ترقیوں کے لیے تربیت حاصل کر رہے ہیں، ایڈیشنل آئی جی غلام شبیر شیخ کے ریٹائر ہونے کے بعد غیر قانونی طور پر ترقیوں کا بھانڈا پھوٹنے کے بعد آئی جی سندھ کی ہدایت پرڈی آئی جی ثنا اﷲ عباسی نے چھاپہ مارکرتمام دستاویزات اپنے قبضے میں لے لیے تھے جبکہ آفس سپرٹنڈنٹ قائم سومرو کو بھی اپنے پاس روک لیا تھا تاہم اعلیٰ حکام کی سفارش پرانھیں چھوڑ دیا گیا تھا جس کے اگلے روز وہ عمرہ کرنے چلے گئے تھے اور جب وہاں سے واپس آئے تو دوبارہ اپنے عہدے پر برجمان ہو گئے جبکہ ان کے ساتھ کام کرنے والا شیٹ کلرک ایکس پاکستان چھٹیاں منظور کرانے کے بعد اپنے گھر بیٹھ گیا جبکہ غیرقانونی کام میں ساتھ نہ دینے والے کلرک موسی کو معطل کر دیا گیا تھا جسے تا حال بحال نہیں کیاگیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔