لاجواب کتاب
قرآنی احکام کے علاوہ اسوۂ حسنہ سے بھی حقوق العباد پر عمل کرنے سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔
سید نذیر احمد بخاری بڑے کمال کے آدمی ہیں۔ ان کا صحافتی کیریئر پچاس سال کے طویل عرصے پر محیط ہے۔ بقول شاعر: یہ نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں۔
انھوں نے اپنے صحافتی سفر کا آغاز روزنامہ ''کوہستان'' لاہور سے بطور ''سب ایڈیٹر'' کیا، جس کے ساتھ وہ 1962 سے 1965 تک وابستہ رہے۔ 1966 میں انھوں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور ریڈیو پاکستان کے شعبہ نیوز میں شمولیت اختیار کرلی اور 35 سال تک مسلسل بہترین خدمات انجام دینے کے بعد اس شعبے کے اعلیٰ ترین منصب ڈائریکٹر آف نیوز کے عہدے سے پورے اعزاز کے ساتھ ریٹائر ہوئے۔ اس کے علاوہ انھوں نے 1976 سے 1980 تک وائس آف جرمنی میں بھی سینئر ایڈیٹر کے طور پر بہترین خدمات انجام دیں۔
نذیر بخاری کی خدمات سے پی ٹی وی نے بھی فائدہ اٹھایا، جہاں انھوں نے 2000 سے جنوری 2011 تک بطور جوائٹ چیف ایڈیٹر کام کیا۔ اس کے بعد انھوں نے الیکٹرونک میڈیا سے دوبارہ پرنٹ میڈیا کا رخ کیا اور 2012 سے 2014 تک انگریزی ماہنامہ "Quaid's Concept" میں بطور ایڈیٹر خدمات انجام دیں۔ ٹک کر نہ بیٹھنے والے انتہائی متحرک اور فعال شخصیت کے حامل بخاری نے 2015 تا 2017 سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کو بھی میڈیا ایڈوائزر کی حیثیت سے اپنی خدمات سے نوازا، اس کے بعد سے تاحال وہ لکھنے پڑھنے میں مصروف ہیں۔ جس کا تازہ ترین ثبوت ان کی لاجواب کتاب ''اسلام میں حقوق العباد اور بندگی کے تقاضے'' کی صورت میں حال ہی میں سامنے آیا ہے۔
نذیر بخاری کا تعلیمی پس منظر بھی بڑا وسیع اور شاندار ہے۔ وہ ڈبل ایم اے ہیں، انھوں نے پنجاب یونی ورسٹی سے پہلے پولیٹیکل سائنس اور اس کے بعد صحافت (Mass Communication) میں ایم اے پاس کیا۔ بی اے آنر انھوں نے اسلامک اسٹڈیز میں کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے ہی انھوں نے فاضل اردو بھی پاس کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے لندن کی کیمبرج یونیورسٹی سے proficiency in Englishکا ٹیسٹ بھی پاس کیا۔ بخاری صاحب کا تعلق چونکہ ایک مذہبی گھرانے سے ہے، اس لیے دین اسلام سے دلچسپی ان کے خمیر میں شامل ہے۔ اسلام کے نظریاتی اور عملی پیغام کے مطالعے کا شوق انھیں شروع ہی سے تھا، جس نے انھیں یہ کتاب لکھنے کی طرف مائل کیا۔ بخاری صاحب انسانی حقوق کے حوالے سے مساوات کے ہمیشہ سے قائل رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اسلام اس فلسفہ کا سب سے بڑا داعی اور حامی ہے۔
بخاری ایک جہاں دیدہ شخص ہیں اور ان کا تجربہ اور مشاہدہ بھی بہت وسیع ہے۔ یورپ کے چار سالہ قیام سے انھوں نے بہت کچھ سیکھا اور حاصل کیا۔ مختلف مزاج اور عقیدوں کے حامل لوگوں سے ربط و ضبط نے ان کے مشاہدے میں بڑا زبردست اضافہ بھی کیا جو اس کتاب کی تصنیف و تالیف میں بڑا معاون ثابت ہوا۔ انھوں نے دیکھا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں انسانوں کے درمیان عدم مساوات کی صورتحال کم و بیش ایک جیسی ہے، انھیں اس بات کا شدید احساس ہے کہ اسلام کے پیروکار ہونے کے باوجود مسلمان بھی حقوق العباد کی روح سے نہ صرف نا آشنا بلکہ عموماً گریزاں ہی نظر آتے ہیں۔ اسی افسوسناک صورتحال نے ان کے دل میں یہ جذبہ جگایا کہ اسلام نے حقوق العباد کا جو مثالی منشور پیش کیا ہے اسے تفصیل اور دلیل کے ساتھ پیش کیا جائے تاکہ اہل اسلام کو ان حقوق کی ادائی کی جانب راغب اور متوجہ کیا جائے۔
اسلام محض ایک دین ہی نہیں بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ حقوق اﷲ کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اسلام میں حقوق العباد کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ ان حقوق کی ادائی پر فقہائے کرام نے اتنا زیادہ زور دیا ہے کہ انھیں حقوق اﷲ پر مقدم قرار دیا گیا ہے۔ حقوق العباد اس وقت تک معاف نہیں ہوںگے جب تک صاحب حقوق خود معاف نہ کر دے۔ قرآن و سنت میں بیان کیے گئے حقوق العباد کا دائرہ بڑا وسیع ہے اس میں والدین، اولاد، میاں بیوی، رشتے دار اور پڑوسی تک شامل ہیں۔ صرف پڑوسی کے حقوق کے بارے میں اس قدر تاکید کی گئی کہ صحابہ کرام یہ سوچنے لگے کہ پڑوسی کو کہیں وراثت میں حصہ دار نہ قرار دے دیا جائے۔
قرآنی احکام کے علاوہ اسوۂ حسنہ سے بھی حقوق العباد پر عمل کرنے سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ احادیث مبارکہ میں مسلمانوں کو حقوق العباد کی ادائی کی سخت ہدایت اور تلقین کی گئی ہے۔ حضور اکرمؐؐ نے مشکل سے مشکل حالات میں بھی حقوق العباد ادا کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ کتاب مذکورہ میں سارا زور اس بات پر ہے کہ حقوق العباد اسلامی تعلیمات کا مرکزی موضوع ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ قرآن پاک میں 22 سے زیادہ بنیادی حقوق کا ذکر موجود ہے جو قانونی حیثیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان حقوق العباد کے واجبہ ہونے کے بارے میں پوری طرح متفق ہیں۔
مذکورہ کتاب اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں میں سے ایک اہم اور گراں قدر اضافہ ہے۔ فاضل مصنف نے اس کتاب میں نہ صرف حقوق العباد کو نہایت تفصیل کو نہایت تفصیلات کے ساتھ بیان کیا ہے بلکہ جزئیات کا بھی پورا خیال کیا ہے۔ مصنف نے اس کتاب کو تحریر کرنے میں بڑی عرق ریزی کی ہے، جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس میں قرآن پاک کی تقریباً 850 اور احادیث نبویؐ کے کوئی 750 حوالے دیے گئے ہیں جو سب کے سب مستند ہیں۔ اس کاوش نے کتاب کی اہمیت و افادیت کو چار چاند لگادیے ہیں۔ عام قاری کے علاوہ یہ کتاب محققین کے لیے بھی بہت کارآمد ثابت ہوگی۔ اس کتاب کی ایک اور نمایاں خوبی یہ ہے کہ مصنف نے حقوق العباد کے بارے میں اپنی ذاتی رائے دینے سے سخت گریز کیا ہے اور ہر بات دلائل اور مستند حوالوں کے ساتھ کی ہے۔ مصنف نے اس بات پر خاص طور پر زور دیا ہے کہ ہر مسلمان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ حقوق العباد کی ادائیگی کو ہر صورت میں یقینی بنائے اور ذرا سی بھی کوتاہی نہ ہونے دے۔
نذیر بخاری کہتے ہیںکہ ''یہ کتاب لکھنے کا مقصد اپنی فہم کے مطابق حقوق العباد کا تذکرہ اور ان کے پس پردہ منشائے الٰہی، حقوق العباد کے وسیع تر مفہوم اور ان کی لازمی ادائیگی کے لیے متعلقہ لوازمات پر روشنی ڈالنا ہے، اس پرخلوص کوشش کا محرک اس حقیقت کی اشاعت بھی ہے کہ اسلام کے تجویز کردہ بنیادی انسانی حقوق گنے چنے نہیں بلکہ ہو بہت وسیع اور گہرے اثرات لیے ہوئے ان کا دائرہ زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہے''۔
بخاری کا کہنا ہے کہ ''کتاب کا دوسرا اہم مقصد یہ بتانا ہے کہ حقوق العباد پر عمل کرنے والے اہل ایمان سے اسلام کیا تقاضا کرتا ہے'' مزید وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ''ہر مقام پر قرآن اور حدیث کے حوالے دے کر یہ بات سامنے لائی گئی ہے کہ دین اسلام کے جملہ تقاضوں کو پورا کرنے والے صالح، اہل ایمان ہی حقوق العباد کی ادائی کے تقاضے پورے کرنے کے اہل ہوںگے''۔
متعدد عنوانات اور 456 صفحات پر مشتمل یہ ضخیم کتاب ہر ممکنہ زاویے اور پہلو سے حقوق العباد کے انتہائی اہم اور وسیع موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ کتاب مصنف کے زورِ قلم سے زیادہ اﷲ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم کا نتیجہ ہے۔ رب کریم جس پر بھی مہربان ہوتا ہے اس سے بڑے سے بڑا کام لے لیا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ رب کریم سید نذیر بخاری کی مخلصانہ کاوش کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور اس کے صلے میں انھیں اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین