جام کمال نے بلوچستان کے مسائل حل کرنے کیلئے کمر کس لی

وزیراعلیٰ جام کمال کو اب تیسرے مرحلے میں وزارتوں کی تقسیم پر بھی ایک کٹھن مرحلے سے گزرنا ہوگا۔


رضا الرحمٰن August 22, 2018
وزیراعلیٰ جام کمال کو اب تیسرے مرحلے میں وزارتوں کی تقسیم پر بھی ایک کٹھن مرحلے سے گزرنا ہوگا۔ فوٹو: فائل

جام کمال بلوچستان کے17 ویں وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے انہوں نے اپنے عہدے کا حلف اُٹھالیا ہے۔ بلوچستان اسمبلی کے59 ارکان میں سے 39 ارکان نے ان کے حق میں ووٹ دیا جبکہ ان کے مد مقابل بی این پی مینگل اور ایم ایم اے کے مشترکہ اُمیدوار یونس زہری کے حق میں20 ووٹ آئے۔

جام کمال کے وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد انتقال اقتدار کا دوسرا مرحلہ مکمل ہوگیا اس سے قبل میر عبدالقدوس بزنجو بھی 39 ووٹ لے کر اسپیکر بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ تحریک انصاف کے سردار بابر خان موسیٰ خیل36 ووٹ لے کر ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے۔ بلوچستان اسمبلی میں اس وقت 65 کے ایوان میں60 ارکان ہیں دو حلقوں کے نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوئے جبکہ خاتون کی ایک مخصوص نشست پر انتخاب ہونا باقی ہے ۔

اسی طرح الیکشن سے قبل مستونگ کے حلقے میں افسوسناک واقعے کے بعد انتخاب روک دیا گیا تھا جبکہ بی این پی مینگل کے سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی کی نشست کو فوقیت دی جس کی وجہ سے ایک سیٹ ان کی بھی ابھی خالی ہے اس طرح65 کے ایوان میں 60 اراکین نے اس تمام جمہوری پراسیس میں حصہ لیا۔ وزارت اعلیٰ کے انتخاب کے روز (ن) لیگ کے نواب ثناء اﷲ زہری نے بھی اپنے عہدے کا بھی حلف لیا اور اُنہوں نے اپنا ووٹ وزارت اعلیٰ کیلئے جام کمال کے حق میں استعمال کیا۔ اس وقت بلوچستان اسمبلی میں عددی اعتبار سے بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو سبقت حاصل ہے جبکہ اپوزیشن بنچوں پر بی این پی مینگل، ایم ایم اے، پشتونخوامیپ اور (ن) لیگ کے اراکین بیٹھے ہیں۔

اپوزیشن بنچوں کی تعداد عددی اعتبار سے21 ہے (ن) لیگ کے واحد رکن اسمبلی نواب ثناء اﷲ زہری نے ابھی فیصلہ نہیں کیا کہ وہ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھیں گے یا آزاد بنچوں پر۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں اس مرتبہ اپوزیشن بھی ایک مضبوط حیثیت کے طور پر سامنے آرہی ہے اور توقع یہی کی جارہی ہے کہ جام کمال کی مخلوط حکومت کو آگے چل کر ایک ٹف اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا۔

وزیراعلیٰ جام کمال کو اب تیسرے مرحلے میں وزارتوں کی تقسیم پر بھی ایک کٹھن مرحلے سے گزرنا ہوگا کیونکہ بلوچستان عوامی پارٹی میں اکثریت کی یہ کوشش ہے کہ انہیں کابینہ میں شامل کیا جائے جبکہ فارمولے کے تحت جام کمال کو اپنی اتحادی جماعتوں تحریک انصاف، اے این پی، بی ایم پی عوامی ، ہزارہ ڈیموکریٹک اور جے ڈبلیو پی کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔

نو منتخب وزیراعلیٰ جام کمال نے اپنے انتخاب کے بعد بلوچستان اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ صوبے میں بلا امتیاز احتساب کریں گے اور سو دن میں تبدیلی لائیں گے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مصنوعی وعدوں کا دور گزرگیا عوام عملی کام دیکھنا چاہتے ہیں، ہمارا ایک نکاتی ایجنڈا بلوچستان کے مسائل کا حل ہے جس کیلئے ہم سب ملکر جدوجہد کریں گے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم صوبے میں سیاسی اور معاشی طور پر تبدیلی لائیں گے پاکستان کی ترقی بلوچستان سے وابستہ ہے اور یہ ممکن نہیں کہ بلوچستان کو نظر انداز کیا جائے، یہ وقت بلوچستان میں کام کرنے کا ہے آج اگر تمام سیاسی جماعتوں نے ملکر کام نہیں کیا تو 2023ء کے انتخابات میں عوام ووٹ نہیں دیں گے،ان کا کہنا تھاکہ گورننس کو بہتر بنانا ہماری ترجیح ہے ٹرانسپیرنسی اور احتساب کی اہلیت رکھنے والا نظام ہو تو پھر ہم صوبے کو ترقی دے سکیں گے۔ کوئٹہ کو پانی کی فراہمی کیلئے چھ یا سات ڈیم بنانے کی اشد ضرورت ہے، بلوچستان اسمبلی میں قانون سازی کے عمل کو بہتر بنایا جائے گا۔ جام کمال کا یہ بھی کہنا تھا کہ سی پیک کیلئے صوبے میں ایک الگ سیکشن ہونا چاہیے تھا جو سی پیک کے حوالے سے کام کرتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نو منتخب وزیر اعلیٰ جام کمال کی پہلی تقریر اور پراعتماد عزم اس بات کی دلیل ہے کہ وہ صوبے اور صوبے کے عوام کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں جس کیلئے انہیں ایک بہتر اور ایسی ٹیم کی ضرورت ہے جو انہیں روایتی حکومتی سربراہ کے ٹریک پر چلانے کے بجائے عوامی اور انکی سوچ کے مطابق چلائے اور ماضی کے وزراء اعلیٰ کے برعکس انہیں کھل کر کام کرنے کیلئے چھوڑا جائے تاکہ صوبے میں کوئی تبدیلی دکھائی دے۔

ان سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ نو منتخب وزیراعلیٰ جام کمال کو یہاں دیگر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے وہاں انہیں بے لگام بیورو کریسی کا بھی قبلہ درست کرنا ہوگا اور اسے سیاسی وابستگیوں سے دور رکھنا ہوگا تاکہ ان کے مثبت اقدامات اور بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے کئے گئے اقدامات میں ماضی کی طرح روڑے نہ اٹکائے جاسکیں۔

دوسری جانب بی این پی عوامی میں بھی اختلافات اُبھر کر سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے بلوچستان اسمبلی میں دو اراکین ہیں سید احسان شاہ اور میر اسد بلوچ ۔ بی این پی عوامی نے شروع میں ہی بلوچستان عوامی پارٹی کے جام کمال کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور اس تمام سلسلے میں سید احسان شاہ آگے آگے دکھائی دے رہے تھے۔ تاہم گذشتہ دنوں بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کی سینٹرل کمیٹی کا اجلاس کوئٹہ میں منعقد ہوا جس کی صدارت پارٹی کے مرکزی صدر میر اسرار اﷲ زہری نے کی۔

اس سینٹرل کمیٹی کے اجلاس میں سید احسان شاہ اور ان کے بعض ساتھیوں نے شرکت نہیں کی جس سے پارٹی کے اندر اختلافات ظاہر ہوگئے۔ بعد ازاں پارٹی کے مرکزی صدر میر اسرار زہری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے سینٹرل کمیٹی کے فیصلوں سے آگاہ کیا اور سید احسان شاہ سمیت سینٹرل کمیٹی کے چھ اراکین کو شوکاز نوٹس جاری کئے گئے جبکہ پارٹی نے اسد بلوچ کو بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر اور پارٹی کیلئے وزارت کیلئے نامزد کیا ۔

جس کے بعد یہ اختلافات مزید شدت اختیار کر گئے اور سید احسان شاہ نے جو کہ پارٹی کے سینئر نائب صدر بھی ہیں نے اپنے حامی سینٹرل کمیٹی کے اراکین کا الگ اجلاس بلا لیا جس میں بعض اہم فیصلے کئے گئے اور ان فیصلوں سے سید احسان شاہ نے پریس کانفرنس کے دوران آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ جن ممبران نے اقلیتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی تھی مرکزی کابینہ ان شرکاء کو نوٹس جاری کر رہی ہے اور جواب تسلی بخش نہ ملنے پر ان کی رکنیت ختم کردی جائے گی۔

ان کا یہ دعویٰ تھا کہ ان کے پاس اکثریت ہے سینٹرل کمیٹی کے41 میں سے30 ارکان ان کے ساتھ ہیں ۔ اور ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جنوری کے دوسرے ہفتے میں پارٹی کا مرکزی کونسل سیشن بلایا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ اس اجلاس میں پارٹی نے بی اے پی کی مخلوط حکومت کی مکمل سپورٹ کا اعلان کرتے ہوئے مجھے پارلیمانی لیڈر مقرر کیا ہے اور اس اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ پارٹی کے اندر جو غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں اس کا فیصلہ اب بڑے فورم یعنی قومی کونسل سیشن کے اجلاس میں ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں