خود آرام سے رہنے کی ترکیب
اگرآپ سپاہی نہیں بن سکتے تو جنگ بھی نہیں کر سکتے، اگر آپ ایک لکھاری ہیں تو بینک کاکام نہیں کر سکتے۔
ISLAMABAD:
تاریخ سے بڑا استادکوئی نہیں ہے۔ زندگی کے تمام مسائل، مشکلات کا حل اس میں موجود ہے۔ دنیا بھر کے تمام خوشحال، ترقی یافتہ اورکامیاب ممالک نے اپنے تمام مسائل اور مشکلات اور پریشانیوں کا حل اس میں ہی سے ڈھونڈ نکالا ہے۔ تاریخ کہتی ہے کہ آسانیاں اگر تقسیم نہ کی جائیں تو مشکلات جمع ہو جاتی ہیں۔
1831ء میں یعنی پہلے ریفارمز کے پاس ہونے سے ذرا پہلے جیرمی بنیتھم نے جو انگلستان کا رہنے والا تھا اور نظام قانون سازی کا بہت بڑا عالم اور عملی سیاسیات کے میدان میں اپنے زمانے کا سب سے بڑا مصلح تھا، اس نے اپنے ایک دوست کو خط میں لکھا ''خود آرام سے رہنے کی ترکیب یہ ہے کہ دوسروں کی زندگی کو پر مسرت بنایا جائے، دوسرں کی زندگی کو پر مسرت بنانے کی ترکیب یہ ہے کہ ان سے محبت ظاہرکی جائے اور ان سے محبت ظاہرکر نے کی ترکیب یہ ہے کہ ان سے فی الوقت محبت کی جائے۔'' اس کے علاوہ دنیا بھرمیں خود آرام سے رہنے کی دوسری کوئی اور ترکیب کا وجود ہے ہی نہیں۔ اگر آپ خود آرام سے رہنا چاہتے ہیں تو اپنے اردگرد کے لوگوں کی زندگی میں آسانیاں تقسیم کیجیے۔ان سے حقیقی محبت کیجیے ایسا کرنے سے ہی آپ خودآرام سے رہ سکتے ہیں۔
سنسکرت کا ایک لفظ دھرما ہے اس کے معنیٰ ہیں مدد کرنا۔ یہ ایک فطری اصول ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر کے انسان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ذاتی حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ دھرما کا فرض ادا کرنے کے لیے ہم زندگی گزارتے ہیں اگرآپ سپاہی نہیں بن سکتے تو جنگ بھی نہیں کر سکتے، اگر آپ ایک لکھاری ہیں تو بینک کاکام نہیں کر سکتے۔ یعنی جو فرض آپ نے ایک دفعہ اپنے ذمے لے لیا تو پھرکائناتی قوتیں اس فرض کو ادا کرنے کے لیے آپ کی مدد گار بن جائیں گی۔ اس طرح آپ دوسرے فرائض سے آزاد ہو جائیں گے۔
آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس میں ہزاروں وہ انسان جنہوں نے اپنی زندگیوں میں دوسرے انسانوں اور انسانیت کی خدمت کی اور ان کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ آج بھی زندہ ہیں آج بھی ان کا ذکر انتہائی عزت و احترام کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ان میں کی اکثریت نہ تو دولت سے مالا مال تھی نہ ہی وہ بادشاہ تھے نہ ہی کبھی وہ حکمرانی کے عہدوں پرفائض رہے، بلکہ ان کی اکثریت نے تو اپنی زندگی مفلسی اور فاقوں میں بسر کی لیکن آج ان کا رتبہ و مرتبہ وحیثیت بادشاہوں سے زیادہ ہے۔
دوسری طرف آپ کو تاریخ میں ہزاروں بادشاہ، حکمران اور رئیس وکبیر انسان ملیں گے جنہوں نے اپنی زندگی انتہائی عیش و عشرت سے گزاری لیکن آج ان کا ذکر عبرت بن چکا ہے جن کا انجام پڑھ کر لوگ خوف سے کانپ جاتے ہیں۔ تاریخ میں آپ کو ایسے لوگ بھی بغیر ڈھونڈے مل جائیں گے، جو سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے اورسونے کے ڈھیر پر انھوں نے اپنی آخری سانسیں لیں لیکن آج تاریخ کے علاوہ ان کا نام ونشان تک مٹ چکا ہے، ڈھونڈنے سے بھی ان کا نام تک لینے والا کوئی نہیں ہے ایسا کیوں ہوتا ہے۔ آئیں ! اس پر بات کرتے ہیں۔ سنسکرت کا ہی ایک اور لفظ ادھر ما ہے جو پہلے لفظ دھر ما کے الٹ ہے یعنی کوئی فرض بھی ادا نہ کرنا اور کائناتی اصولوں کی مخالفت کرنا ۔ اس سے انسان خود بھی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے اور دنیا کو بھی مصیبت میں مبتلا کرتا ہے۔ اس طرح زندگی بھر وہ عذاب میں مبتلا رہتا ہے اور آخرت کے عذاب کا الگ منتظر رہتا ہے۔
مصنفہ چن نگ چو نے 1992ء میں ایک کتاب Thick Face Black Heart لکھی ۔ چو نے ایشیائی لوگوں کو Thick Face کا نام دیا ہے موٹے چہرے کا دوسرا مطلب ہے کہ تنقید سے بچا جائے کسی پر تنقید نہ کی جائے ۔
اس طرح لوگ آپ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جب کہ چو نے Black Heart کا لفظ ان لوگوں کے لیے استعمال کیا ہے جو لوگ جذبہ ترحم سے خالی ہیں، چو کا کہنا ہے اگر ایک باس اپنے ملازمین کے ساتھ ہمدردی نہیں رکھتا اور اس کا دل جذبہ رحم سے خالی ہے گو پھر وہ اپنے کاروبارکو تباہ ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لے گا، جب آپ اپنے ہدف حاصل نہیں کر رہے ہوتے تو اس کا مطلب ہے آپ میں جذبہ رحم کی کمی واقع ہو گئی ہے ،کیونکہ کامیابی اور جذبہ رحم کے درمیان ایک خاص تعلق ہے۔ جذبہ رحم کے بغیرکامیابی کا حصول ناممکن ہوتا ہے ، کالے دل کے لوگ اگر دوسروں کے ساتھ سختی کرتے ہیں تو خود بھی مشکلات سے گزرتے ہیں۔ جب تک وہ دوسروں کے ساتھ نیکی نہ کریں گے، انھیں بہتر نتائج حاصل نہیں ہونگے۔ بدکردار اور برے لوگوں کی ناکامیاں ان کے کردارکی وجہ سے ہوتی ہیں۔
دیکھتے ہیں کہ ہمارے آنے والے حکمران تاریخ سے سبق حاصل کر کے اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں یا پہلوں کی طرح سیکھے بغیر ہی آغازکر کے بیچ میں یا آخر میں تاریخ میں پڑے کراہ رہے ہوں گے۔