اٹلی کا پل یورپی یونین پر آگرا

دنیا کے دیگر ممالک کی طرف نظریں اٹھتی ہیں تو تنگ دامنی کا قومی احساس زیادہ قوی ہوجاتا ہے۔


فرحین شیخ August 25, 2018

مجھے پاکستانی معاشرے کی ایک چیز ہمیشہ سے تکلیف دیتی ہے کہ کتنا ہی بڑا کوئی حادثہ کیوں نہ بیت جائے، اس کے اثرات یہاں کبھی دور رس نہیں ہوتے، آج تک کوئی بڑا واقعہ کسی چھوٹی تبدیلی کا بھی باعث نہ بن سکا،کوئی قومی سانحہ ایسا نہیں گزرا جس نے خارجہ پالیسی کو ایک نئی سمت عطا کی ہو۔

زیادہ دورکی بات رہنے دیجیے، ماضی بعید کو بے شک عذاب جان کر حافظے سے محوکردیجیے اور صرف اس نئی صدی کے سینے پر سجے اٹھارہ سال کا ہی شمارکرلیں توکون سا ایسا المیہ ہے جو ہماری زمین پر جنما نہیں، لیکن افسوس کسی واقعے کی بنیاد پر پاکستانی معاشرے میں نئی روح پھونکی نہ جاسکی۔ بڑے بڑے شہروں کی چھوٹی چھوٹی باتیں گردان کر سب کچھ ہی نظراندازکیا جاتا رہا۔ کتنی ہی فیکٹریاں جلیں، مزدور راکھ ہوئے، وکیل کوئلہ بنے، ناقص تعمیرات کی وجہ سے عمارتیں ہلیں تو پُل گرے، غیروں کی جنگ میں شریک کار بن کر اپنا چمن آپ اجاڑا گیا، اپنے نشیمن پر خود بجلیاں گرائی گئیں، لیکن مجال ہے جو ہم نے کوئی سبق سیکھنا ضروری سمجھا ہو۔

دنیا کے دیگر ممالک کی طرف نظریں اٹھتی ہیں تو تنگ دامنی کا قومی احساس زیادہ قوی ہوجاتا ہے۔ اٹلی ہی کی مثال لیجیے۔ رواں ماہ اٹلی میں وہ پُل زمین بوس ہوگیا جو اسے فرانس سے ملاتا تھا۔ پل گرنے سے بے شمار ہلاکتیں ہوئیں۔ اب تک اس مقام پر ہنگامی حالت نافذ ہے اور حکومتی سطح پر اس حادثے کا سوگ منایا جا رہا ہے۔ اس اندوہناک حادثے نے اٹلی اور یورپی یونین کے درمیان خلیج مزید بڑھا دی۔ اٹلی عرصۂ دراز سے یورپی یونین کی تجارتی اور مہاجرین کی حامی پالیسیوں سے نالاں ہے۔

وہ یورو سے جان چھڑانے کے لیے بھی بے تاب ہے۔ حال ہی میں یہاں ایک سروے کروایا گیا جس میں اطالویوں سے پوچھا کہ اگر بریگزٹ کی طرز پرکوئی ریفرنڈم ہو توکیا عوام اس کے حق میں جائیں گے؟ اٹلی کے عوام نے اس سروے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اکثریت اس کی حامی نکلی۔ سالوں سے یورپی یونین اور اٹلی کے درمیان ایک خاموش کشمکش چل رہی تھی۔ مغربی شہر جینوا میں زمین سے پینتالیس میٹر بلند پل کا دو سو میٹر حصہ الگ ہوکر گرا ہی تھا کہ خاموشی کے قفل ٹوٹے، اندیشوں کو زبان ملی اور نوبت توتکار تک جا پہنچی۔

اس حادثے کی ابھی ابتدائی تحقیقات بھی نہیں ہوئی تھیں کہ اٹلی میں حکومتی ارکان نے اس کی ذمے داری یورپی یونین پر ڈال دی ۔ برملا کہا جانے لگا کہ یورپی یونین کی تجارتی پالیسیوں اوراصولوں کی وجہ سے اٹلی کے پاس اسپتالوں، اسکولوں، سڑکوں، پلوں اور دیگر انفرا اسٹرکچرکی دیکھ بھال کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ یورپی یونین، جو برطانیہ کے انخلا اور امریکا اور روس کی قربتوں سے پہلے ہی پریشانی کا شکار ہے، اپنے ہی دوستوں کی طرف سے آنے والے تیروں کو برداشت نہ کرسکی اور چیخ پڑی۔ برسلز نے گزشتہ کئی سال کا پول کھول دیا اور بتایا کہ اٹلی یورپی یونین کی پالیسیوں سے مستفید ہونے والا سب سے بڑاا یورپی ملک ہے۔

کئی بلین ڈالر ہر سال اٹلی انفرا اسٹرکچر کی بحالی کے نام پر لیتا ہے اور فلاں فلاں وقت میں اتنے اتنے فنڈ بھی اٹلی کو فراہم کیے جاتے گئے ہیں، لیکن اٹلی میں عوام کی آواز بھی حکومت کے ساتھ مل گئی اور یورپی یونین کے خلاف ڈھول زور زور سے پیٹ کر باقی کے سوئے ہوئے اطالویوں کو بھی جگایا جانے لگا۔ پل کے ملبے میں اٹلی کے کچھ بدقسمت عوام اور اس حادثے کے غُل میں یورپی یونین کی آواز دب کر رہ گئی ۔ اٹلی کی نئی حکومت نے پل گرنے کی اس واقعے کو خوب استعمال کیا اور کچھ ہی دنوں کے شور نے دنیا کو باورکروا دیا کہ اٹلی یورپی یونین کا حصہ بن کر آگے کا مزید سفر طے نہیں کرسکتا۔ اٹلی کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں اگر برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہوسکتا ہے تو ہم یورو سے جان کیوں نہیں چھڑا سکتے؟

یورپی یونین اٹھائیس یورپی ممالک کا اقتصادی اتحاد ہے۔ اپنے قیام کے بعد بہت جلد اس نے اپنی اہمیت پوری دنیا میں تسلیم کروائی۔ حتٰی کہ اسے ایک ابھرتی ہوئی سپر پاورکہا جانے گا۔2010ء وہ سال تھا جب بہت سے عالمی مسائل یورپی یونین کی مثالی ہم آہنگی میں دراڑیں ڈالنے میں کامیاب ہوگئے، جن میں سرفہرست مشرقِ وسطی سے مہاجرین کا آنے والا سیلاب اور یورو زونز ممالک میں قرضوں کا بحران تھا۔ یہی صورت حال جب زیادہ بگڑی تو برطانیہ نے راستہ الگ کرنے میں عافیت جانی۔ 2019ء تک برطانوی انخلا کا تمام عمل مکمل کرلیا جائے گا۔ اٹلی پورے یورپ کے مقابلے میں مہاجرین کے بحران سے متاثر ہونے والا سب سے بڑا ملک ہے۔

ترکی اور یورپی یونین کے مابین ہونے والے معاہدے کے بعد سمندرکے راستے اٹلی میں پناگزینوں کی آمد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ یوں اٹلی میں یہ احساس تیزی سے توانا ہو رہا ہے کہ مہاجرین کے ایشو پر یورپی یونین کی بنائی جانے والی پالیسیاں غیرمنصفانہ ہیں۔ اٹلی کے حالیہ انتخابات میں بھی مہاجرین کا مسئلہ کلیدی اہمیت کا حامل رہا۔ یہ مہاجرین اگر ایک طرف خود بے یارومددگار اورکھلے آسمان تلے پڑے ہیں تو دوسری جانب مقامی باشندوں میں شدید بے چینی پیدا کرنے کی بھی وجہ بنے ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے یہاں مہاجرین اکثر مقامی لوگوں کے حملوں کی زد میں بھی آتے رہتے ہیں۔ اس معاملے پر اٹلی اور یورپی یونین ایک عرصے سے اختلافات کا شکار ہیں ۔ اسی لیے پل گرنے کے واقعے کو یورپی یونین کے خلاف استعمال کرکے اٹلی نے اپنے ارادوں سے آگاہ کردیا ہے۔

اٹلی میں پل گرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ گزشتہ پانچ سال میں دس پل زمین بوس ہوچکے ہیں۔ سیکڑوں پل اپنی مدت پوری کرچکے ہیں۔ پلوں کے حادثات کی یوں تو بے شمار ظاہری وجوہات ہیں، جن میں سب سے اہم اٹلی کی تعمیراتی کمپنیوں پر مافیا راج ہے۔ مافیا والے بڑے بڑے پروجیکٹس میں ناقص معیارکا کنکریٹ استعمال کرکے اپنی دکان بڑھاتے ہیں۔ پھر اٹلی کی گزشتہ حکومتوں نے کبھی انفرا اسٹرکچر کی دیکھ بھال کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا ۔ ماہرین پچاس سال پرانے جینوا پل کے گرنے کا بھی خدشہ ظاہر کر رہے تھے، لیکن اٹلی کی حکومت نے اسے دیوانے کی بڑ سمجھ کرکان نہ دھرے۔ ان سب داخلی عوامل کو نظرانداز کرکے انگلیاں یورپی یونین کی تجارتی پالیسیوں کی طرف اٹھانا یورپی یونین سے بے زاری کا اظہار نہیں تو اور کیا ہے؟

دنیا صرف آگے ہی نہیں بڑھ رہی بلکہ تیزی سے تبدیل بھی ہو رہی ہے۔ شطرنج کی نئی بساط بچھ رہی ہے۔ آیندہ سالوں میں کھلاڑی بھی نئے ہوں گے اور اتحادی بھی۔ دوستوں اور دشمنوں کی فہرستیں نئے سرے سے مرتب کی جا رہی ہیں۔ امریکا اپنی بقا کے لیے روس کو ناگزیر سمجھ رہا ہے تو یورپی یونین اس خطرے کی آہٹ محسوس کرتے ہوئے چین کے بازوؤں میں جھولنے کو بے چین ہے۔

نیٹوممالک الگ امریکا سے ناراض اور اپنے مستقبل کی طرف سے پریشان ہیں ۔ امریکا اور روس کو ٹف ٹائم دینے کے لیے یورپی ممالک کا اپنا اتحاد بہت ضروری ہے۔ پل گرنے کے بعد یورپی یونین کے خلاف اٹلی سے اٹھنے والی آوازوں کو امریکی میڈیا میں بہت اُجاگر کیا جا رہا ہے۔ وقت کس کی طرف کروٹ لے گا اس کا فیصلہ وقت پر چھوڑ تے ہیں، لیکن ایک بات طے ہے کہ اٹلی میں گرنے والے پل کے نیچے یورپی یونین دب گئی ہے۔ بریگزٹ کے بعد اب ایک ہلکا سا بھی جھٹکا یورپی یونین برداشت نہیں کرسکے گی۔ اٹلی اگر مستقبل میں بریگزٹ جیسا کوئی قدم اٹھتا ہے تو ان مہاجرین کا کوئی پرسان حال نہ ہوگا جنھیں اٹلی نے صرف یورپی یونین کی پالیسیوں کے باعث اب تک برداشت کیا ہوا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں