جب تک اُردُو غالب رہی
ہمیں لکھنے کی داد کی اب ضرورت نہیں رہی کہ شائد نئے حکمرانوں کیلیے بھی ہماری زبان ’یارمن ترکی ومن ترکی نمی دانم‘ ہی ہے۔
ہم دیسی لوگ یعنی اردو لکھنے والے ایک مدت تک بڑے مزے میں رہے کئی برسوں تک ہم اپنی تحریروں کی وقعت اور سرکار پر ان کی اثر انگیزی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
ادھر لکھا اور اگر اس میں جان ہوئی اور دلیل بھی تو دوسرے دن حکومت کی طرف سے اس کا جواب آگیا ۔ بہت پیچھے جائیں یعنی اپنی اخبار نویسی کے شروع کے زمانے کی بات کریں تو جس محکمے کے بارے میں جو کچھ لکھ دیا اس کی طرف سے سرکاری طور پر جواب موصول ہوا ۔اگر ہماری غلطی ہوئی تو اس کا اعتراف کرنا پڑا اور اگر ایسا نہیں ہوا تو محکمے کو اپنی اصلاح کرنی پڑی اور اس سے لکھنے والے کو اور اس کے ذریعے عوام کو مطلع کیا گیا ۔
حکومتی محکمہ تعلقات عامہ کسی اخباری شکایت کو بے کار نہیں جانے دیتا تھا اور حکومت کا موقف فوراً سامنے آجاتا تھا لیکن جب سے ذاتی حیثیت میں ترجمان مقرر کرنے کا رواج ہوا تب سے حکومتی محکمہ تعلقات عامہ کی افادیت وہ نہیں رہی جو کہ ماضی میں ہوتی تھی، اخبار نویس اور تعلقات عامہ کا خوبصورت ساتھ برقرار تھا۔
حکمران خواہ زیادہ تر حوالے انگریزی اخباروں کا ہی دیا کرتے تھے تا کہ ان کی تعلیمی استعداد کا علم ہوتا رہے لیکن پڑھتے وہ اردو اخبار ات ہی تھے ۔ افسوس کہ میں نام نہیں لے سکتا ورنہ بات میں اور مزا پیدا ہو جاتا کہ صاحب پڑھ تو اردو اخبار رہے ہوتے ہیں مگر جب فوٹو گرافر آتا ہے تو فوراًانگریزی اخبار اٹھا لیتے ہیں ۔
حکمرانوں میں جب تک سیاستدان رہتے ہیں ان کا چونکہ واسطہ عوام کے ساتھ رہتا ہے اس لیے وہ عوام کے اخبارات یعنی اردو اخبارات پڑھتے ہیں اور بڑے غور کے ساتھ کیونکہ ان کی سیاست ابھی بھی اخبارات کی تحریروں کی دھن پر چلتی ہے۔
ٹی وی وغیر ہ پرتو وہ بس چلتے چلتے نظر ڈال لیتے ہیں یا اگر کبھی فرصت ہو تو بیٹھ کر کوئی پروگرام دیکھ لیا یا پھر تیسری صورت میںٹی وی کے اینکرز حضرات سے ملاقات کر لی اور دنیا جہان کی معلومات کا خزانہ جمع کر لیا کہ ان سے زیادہ باخبر معاشرے میں کوئی اور نہیں ہوتا اور وہ جسے چاہیں اپنے پروگرام کی زینت بنا لیں یا پھر اس کی گوشمالی کر لیں۔
میں ایک بار سابق وزیر اعظم چوہدری محمد علی کا انٹرویو کرنے لاہور میں ان کے گھر گیا۔ ان دنوں وہ اپنے ایک صاحبزادے کے ہاں مقیم تھے جو واپڈا میں افسر تھے۔ دوران گفتگو انھوں نے بتایا کہ میرا بیٹا چونکہ صرف انگریزی اخبار منگواتا ہے اس لیے میں آپ کا اخبار نہیں پڑھتا ۔مجھے حیرانی ہوئی کیونکہ ان دنوں ایک سیاستدان کے لیے اردو اخبار پڑھنا لازم تھا۔ میں نے جب اپنے ایڈیٹر کو یہ بات بتائی تو انھوں نے چوہدری صاحب کا انٹرویو روک دیا اور ان سے سخت احتجاج کیا۔
میاں ممتاز احمد خان دولتانہ تو اخبار کی اہم تحریریں گویا حفظ کر لیتے تھے اور جب بھی ملاقات ہوتی تھی تو تعریف یا گلہ ضرور کیا کرتے ۔ یہی حال دوسرے سیاستدانوں کا تھا ۔ بڑے بڑے انگریز مزاج لوگ سیاست میں آئے مگر عوامی اردواخبارات کے محتاج ہو گئے ۔
ایوب خان پکے فوجی تھے سب سے بڑے فوجی سینڈ ہرسٹ برطانیہ کے تربیت یافتہ اور انگریز افسر وں کے ساتھ فوجی زندگی گزارنے والا مگر شروع میں ٹھہر ٹھہر کر اور پھر روانی کے ساتھ اردو پڑھنے لگے۔ انھیںاردو کے دو بڑے ادیبوں قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر کی مدد بھی حاصل تھی ۔ ایوب خان عوام کے ساتھ اردو میں سوال و جواب کی ایک محفل باقاعدہ سجایا کرتے تھے ۔ اسی نسبت سے حبیب جالبؔ کا ایک قطعہ یاد آگیا ہے۔
صدر عالی جناب کیا کہنے
یہ سوال و جواب کیا کہنے
کیا سکھایا ہے کیا پڑھایا ہے
قدرت اللہ شہاب کیا کہنے
یہ بھی مشہور ہے کہ آخری دنوں میں ایوب خان کو ایک اردو اخبار جعلی چھاپ کر پیش کیا جاتا تھا۔ فی الوقت عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انگریز مزاج ایوب خان بھی اردو سے مانوس ہو گئے تھے ۔ ان کے بعد یحیٰ خان آگئے، وہ اردو کیا فارسی بھی بولتے تھے۔ مصروف تو وہ کئی دوسرے کاموں میں رہے لیکن اردو کی طرف سے انھیں کبھی الجھن نہ رہی۔ پھر بھٹو صاحب آگئے ۔
اردو پڑھنے سے بالکل معذور مگر انھوں نے پہلے رومن رسم الخط میں اردو پڑھنی شروع کی اور پھر اردو تعلیم حاصل کی اور یہ ذہین آدمی بڑی ثقیل اردو بھی پڑھنے لگا اور اقتدار منتقل کرو قسم کے جملے بھی بولنے لگا۔ ان کے بعد ضیاء الحق آگئے ۔ایک پکے فوجی مگر اردو کے زبردست قسم کے قاری ۔ وہ اپنے بقول ہر روز کئی اردو اخبارات گھول کر پیا کرتے تھے۔ ہر کالم نویس کوپڑھتے تھے۔ ان دنوں کالم نویسوں کا آج کا ہجوم نہیں ہوتا تھا ۔وہ کالموں کے بین السطور معانی بھی سمجھتے تھے اور ہر کالم نویس کے خیالات سے واقف تھے۔
سرکار دربار میں یہ اردو صحافت کی موج کا زمانہ تھا ۔ ان کے بعد بینظیر آئیں تو ان کو اردو نہ آنے کی کوئی پروا نہیں تھی۔ بعد میں میاں صاحب پڑھنے پڑھانے سے انکاری تھے۔ ان دونوں کا زمانہ جوں توں کر کے گزر گیا مگر دونوں کوعلم ہوتا تھا کہ کون کیا لکھتا ہے اور ان کے خلاف ہے یا حق میں ۔ اس کا ان دونوں نے معقول انتظام کیے رکھاتھا۔
مشرف اور زرداری کی حکومتوں میں اردو کے ساتھ ٹی وی نے سر اٹھایا اور قوم کو اپنا اسیر بنا لیا مگر کسی بھی بات سے جلد اکتا جانے والی قوم کا اب یہ عالم ہے کہ وہ سیاسی پروگراموں کی بھر مار سے تنگ ہے اور ٹی وی پر ڈرامے یا مزاحیہ پروگرام تلاش کرتی ہے۔ لیکن ٹی وی کی وجہ سے ہمارے کئی دوستوں کا خوب بھلا ہوا اور صحافی امیر ہو گئے۔
اب عمران خان کا زمانہ ہے۔ نئی حکومت اور نیا پاکستان کے نعرے ہیں۔ ہمارے نئے وزیرا عظم کو حلف کے دوران ثقیل الفاظ بولنے میں مشکل پیش آئی۔ شائد انھوں نے تیاری نہیں کی تھی۔ کیونکہ سنا ہے کہ وہ فی البدیہہ بولنے کے ماہر ہیں یا پھر وہ اپنی جدو جہد کا ثمر پا کر نروس ہو گئے ۔
ہمارے نئے وزیر اعظم بھی اگر ایک دو قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر جیسے دانشوروں کو اپنے ساتھ رکھ لیں تو وہ ان کی بہترین ر ہنمائی کریں گے اور ان کے ایسے مداح ہماری صفوں میں موجود ہیں ۔ بہر حال ہمارا کام اردو لکھنا ہے ہم لکھتے رہیں گے قوم کا مزاج اردو اخبارات بناتے ہیں ۔ ہمیں لکھنے کی داد کی اب ضرورت نہیں رہی کہ شائد نئے حکمرانوں کے لیے بھی ہماری زبان 'یارمن ترکی ومن ترکی نمی دانم' ہی ہے۔