کھاد کی قیمتوں میں 200 سے 800 روپے تک اضافہ

یوریا کی بوری 1400 سے بڑھ کر1600روپے،ڈی اے پی کھاد کی قیمت2700 سے3500 روپے تک پہنچ گئی


حسیب حنیف August 26, 2018
کسانوں کا حکومت سے زرعی شعبے کی لاگت کم،کھادوں کو ریگولیٹ کرنے کیلیے حکمت عملی بنانے کا مطالبہ۔ فوٹو: فائل

عام مارکیٹ میں گزشتہ دو ماہ کے دوران کھادوں کی قیمت میں 200 روپے سے 800روپے تک اضافہ کر دیا گیا جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے ملک میں کھادوں کی درآمدات، برآمدات، معیار اور فروخت کرنے کیلیے مجوزہ ریگولیٹری اتھارٹی قائم نہ ہو سکی۔

ذرائع کے مطابق متعلقہ اداروں کی جانب سے چیک اینڈ بیلنس کے فقدان کے باعث عام مارکیٹ میں گزشتہ دو ماہ کے دوران کھادوں کی قیمت میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور گزشتہ دو ماہ کے دوران کھادوں کی قیمت میں 200 روپے سے 800 روپے تک اضافہ واقع ہوا ہے۔

یوریا کی بوری جو کہ دو ماہ قبل عام مارکیٹ میں تقریبا 1400روپے میں دستیاب تھی اس کی قیمت میں دو ماہ کے اندر 200روپے تک اضافے کے ساتھ یوریا کی فی بوری قیمت 1600روپے ہو گئی ہے۔ اسی طرح ڈی اے پی کھاد کی قیمت بھی گزشتہ دو ماہ کے دوران 2700 روپے سے 3500 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اس طرح عام مارکیٹ میں گزشتہ دو ماہ کے دوران ڈی اے پی کھاد کی قیمت میں بھی 800 روپے تک اضافہ واقع ہوا ہے۔

کھادوں کی قیمت میں اس طرح اضافے کے باعث کاشت کاروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے کھاد کی مد میں سبسڈی بھی دی جاتی ہے، تاہم خیبر پختونخوا کو گزشتہ سال بھی کھاد کی سبسڈی پر چند تحفظات تھے۔

ذرائع کے مطابق اس وقت بھی فرٹیلائزر کمپنیوں کے سبسڈی کی مد میں حکومت کی جانب اربوں روپے سے واجب الادا ہیں۔ دوسری جانب وفاقی حکومت کی جانب سے ملک میں کھاد کی در آمدات، برآمدات، معیار اور فروخت کو ریگولیٹ کر نے کیلیے ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے کی تجویز پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

حکومت کی جانب سے ملک بھر میں کھادوں کیلیے ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کیلیے وفاقی وزارت صنعت وپیداوار کے ماتحت ادارے نیشنل فرٹیلائزر کارپوریشن آف پاکستان نے کام شروع کیا تھا جس کا مقصد ملک میں کھاد کی فروحت برآمدات اور درآمدات کو کنٹرول کرنا ہے۔

یاد رہے کہ ملک میں کھاد کی پیداوار نجی شعبے میں آنے کے بعد سے اب تک وفاقی سطح پر کھاد کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کوئی موثر ادارہ نہیں ہے جبکہ آئے روز ملک کے مختلف علاقوںمیں کاشت کاروں کی جانب سے کھاد زائد قیمت یا غیر معیاری ہونے کی شکایات بھی سننے میں آتی ہیں یہی وجہ ہے کہ حکومت کی جانب سے اس شعبے کو ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تاکہ ملک میں کاشت کاروں کو کھاد کے سلسلے میں درپیش مسائل پر قابو پایا جا سکے، تاہم اس سلسلے میں تاحال کھاد کوریگولیٹ کرنے کیلیے ریگولیٹری باڈی کے قیام پر کوئی پیش ر فت سامنے نہیں آسکی ہے۔

اس سلسلے میں ایکسپریس نے سندھ کے ایک کاشت کا ر حبیب احمد سے بات کی تو انہوں نے کہاکہ عام مارکیٹ میں کھاد کی قیمت از خود بڑھائی اور کم کی جاتی ہے، اس کو ریگولیٹ کرنے کیلیے حکومت کی جانب سے کوئی موثر حکمت عملی تیار کی جانی چاہیے تاکہ کاشت کا روںکو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

پنجاب کے علاقے رحیم یار خان کے کاشتکار اشفاق احمد نے کہاکہ کھادوں کی قیمت عام مارکیٹ میں ازخود ہی طے کرلی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو کردار ادا کرتے ہوئے کسانوں کو ریلیف دینا چاہیے۔ زرعی سیکٹر ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم نئی حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ زرعی سیکٹر کی ان پٹ کاسٹ کو کم کریں اور کھادوں کو ریگولیٹ کرنے کیلیے حکمت عملی بنائیں تاکہ کاشت کاروںکو ان مشکلات سے نکالا جا سکے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں