نئے پاکستان کا نیا کرکٹ بورڈ

احسان مانی توقعات پر پورا اتر سکیں گے؟


Mian Asghar Saleemi August 26, 2018
احسان مانی توقعات پر پورا اتر سکیں گے؟۔ فوٹو:فائل

کہتے ہیں کہ کھانے کے دوران ایک نواب نے بینگن کی تعریف کر دی، مصاحب یہ موقع ہاتھ سے کیسے جانے دیتا، بولا کہ حضور بینگن واقعی لذیز ہیں، اللہ نے اسے سبزیوں کا بادشاہ بنایا ہے، دیکھیں، اس کے سر پر تاج بھی ہے، نواب بہت خوش ہوا اور زیادہ شوق سے بینگن کھانے لگا۔

ملازم نے مزید تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جناب بینگن کی کیا بات ہے، باہر سے چمکتا ہے اور کاٹیں تو اندر سے ہیرے جواہرات اور موتیوں کی لڑیاں نکلتی ہیں۔نواب صاحب نے جوش میں آ کر مزید بینگن کھا لئے اور بدہضمی کا شکار ہو گیا۔ صبح انہوں نے اسی مصاحب کو طلب کیا جس نے بینگن کی تعریفیں کر کے نواب کو اس مصیبت تک پہنچایا تھا۔ ملازم بولا کہ جناب بینگن بھی کوئی کھانے کی چیز ہے، رنگ کا کالا اور خدا جانے کس بات پر غرورکرتا ہے اور اللہ نے بطور سزا اس کے سر پر کیل بھی ٹھونک رکھی ہے۔

نواب نے حیران ہو کر مصاحب سے پوچھا کہ رات کو تو تم بینگن کی تعریفیں کر رہے تھے، اب اسے برا بھلا کہہ رہے ہو۔ مصاحب نے ہاتھ جوڑ کر عرض کی کہ حضور میں آپ کا ملازم ہوں بینگن کا نہیں۔

نواب صاحب کے مصاحب کی طرح مختلف ملکی محکموںکی طرح پاکستان کرکٹ بورڈ میں بھی ایسے خوش آمدیوں اور درباریوں کی کمی نہیں جو صرف اور صرف اپنے فائدے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ یہ ارباب اختیار کو خوش کرنے کے لئے ان کے ہر فیصلے پر واری واری جاتے ہیں، واہ واہ ماشاء اللہ چشم بددور،کیا خم ہے، کیا چال ہے، کیا دانش ہے، کیا پینترا بدلا ہے، کیا ذہانت ہے،کیا دبدبہ ہے،کیا پیادہ چلا ہے حالانکہ شیخ سعدی نے ایسے لوگوں سے دور رہنے ہی کا مشورہ دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ خبردار کسی مفاد پرست سے اپنی تعریف نہ سننا وہ کنگال تجھ سے نفع کا امیدوار ہے، اگر تو کسی دن اس کی حاجت پوری نہ کر سکا تو تجھ میں سو عیب نکالے گا۔ پی سی بی میں بھی سالہا سال سے موجود مخصوص خوشامدی ٹولے کی وجہ سے پاکستان کرکٹ مسائل کی آماجگاہ بن چکی ہے۔

پاکستان میں دوسرے شعبوں کی طرح سپورٹس میں بھی اعلیٰ حکومتی شخصیات سے ذاتی تعلقات، رشتہ داریاں اورپرانی جان پہچان کی وجہ سے سپورٹس تنظیموں کے عہدوں پر براجمان ہونا ہماری روایت کا حصہ بن گئی ہے، نئی حکومت آتی ہے تو بڑے بڑوں کے منہ سے رال ٹپکنا شروع ہو جاتی ہے اور اگر عہدہ چیئرمین پی سی بی کا ہو تو ہر ایک کے منہ میں پانی آنا لازمی سی بات ہے۔ایسا کیوں نہ ہو ، وزیر اعظم، صدر، وزیر خارجہ،وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات، چیف جسٹس سپریم کورٹ اور آرمی چیف کے بعد یہ پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم عہدہ ہوتا ہے چیئرمین پی سی بی بولتاہے تو اس کی ہر بات ٹی وی چینلز کی بریکنگ نیوز بنتی ہے اور اخبارات کی شہہ سرخیوں میں جگہ پاتی ہے ۔دبئی ، انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، ملائشیا، ویسٹ انڈیز سمیت دنیا بھر کے دورے اس کے شیڈول کا حصہ ہوتے ہیں۔

چیئرمین پی سی بی انٹرنیشنل ٹور پر ہوتا ہے تو اسے سربراہان مملکت کے برابر پروٹوکول ملتا ہے، سیون سٹار ہوٹلوں میں ٹھہرایا جاتا ہے، دنیا کی مہنگی ترین گاڑیوں میں گھمایا جاتا ہے، سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے اور تو اور چیئرمین اپنے عزیز رشتہ دار، دوست احباب یاکسی بھی ایرے غیرے نتھو خیرے کو لاکھوں روپے کی ماہانہ ملازمت دینے کااختیار بھی رکھتا ہے، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کھیلوں کی ایک تنظیم کے ایک اعلی عہدیدار کی فیکٹری ملازمین کی تنخواہیں اس کی فیڈریشن سے جاتی رہیں اور اس کے بیوی بچے اسی فیڈریشن کی گاڑیاں بھی استعمال کرتے ہیں، یہی حال دوسری متعددکھیلوں کی فیڈریشنزکا بھی ہے جن کے ملازم اپنے افسران کے گھروں میں کام کرتے ہیں۔

نجم سیٹھی کے مستعفی ہونے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کی سربراہی کا ہما اس بار احسان مانی کے سر بیٹھا ہے،گو وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر دنیا بھر میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا چکے ہیں، تاہم پی سی بی کے معاملات کو احسن طریقے سے چلانا ان کے لئے بھی کسی بڑے چیلنج سے کم اس لئے بھی نہیں ہوگا کہ اس وقت پاکستان کرکٹ تباہی و بربادی کے اس دہانے پر پہنچ چکی ہے کہ ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

پاکستان سپر لیگ کے تینوں ایڈیشنز میں پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا، نائلہ بھٹی، عثمان واہلہ کو اہلیت اور قابلیت سے بڑھ کر اہم ذمہ داریاؓں سونپی گئیں،کئے اہم معاہدے بغیر ٹینڈرز کے کئے گئے، بورڈ میں اپنے عزیز رشتہ داروں کو پرکشش معاوضوں پر ملازمتیں دی گئیں، اس وقت عالم یہ ہے کہ پی سی بی میں ملازمین کی تعداد 900 سے بھی تجاوز کر چکی ہے، اپنی سادگی اور درویشی کے حوالے سے مشہور سابق چیئرمین شہریارخاں راگ الاپتے رہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کوئی ''ایمپلائمنٹ ایکسچینج'' نہیں لیکن وہ بھی اپنے دور میں چند ہزار روپے تنخواہ لینے والے چھوٹے ملازمین کو نکال کر لاکھوں روپے ماہانہ معاوضوں پر بھرتیاں کرتے رہے، سوچنے اور سمجھنے والی بات یہ ہے کہ جب پاکستان میں تسلسل کے ساتھ انٹرنیشنل کرکٹ ہو رہی ہے اور نہ ہی آئی سی سی پاکستان کو کسی میگا ایونٹ کی میزبانی دینے کے لئے تیار ہے تو پی سی بی میں ملازمین کی اتنی بڑی فوج پالنے کی آخر کیا ضرورت ہے۔

ہمسایہ ملک بھارت، آسٹریلیا سمیت دنیا بھر کے دوسرے ممالک مختصر ملازمین کے ساتھ بورڈ معاملات کو احسن طریقے سے چلا سکتے ہیں تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے، ڈومیسٹک کرکٹ کا بالکل بیڑہ غرق کر دیا گیا ہے، پاکستان کرکٹ ٹیم میں چند ایک کو چھوڑ کر ایک بھی کھلاڑی ایسا نہیں جس کا موازنہ ماضی کے عظیم حنیف محمد، ظہیرعباس، جاوید میانداد، انضمام الحق اورمحمد یوسف، عمران خان، وسیم اکرم، مدثر نذر، عبدالرزاق، شعیب اختر، وقار یونس، عبدالقادر اور شاہد آفریدی سے کیا جا سکے۔ بورڈ میں براجمان سب اچھا ہے کہ راگ الاپنے والوں نے شرفاء کے کھیل کا ستیاناس کر کے رکھ دیا ہے۔

کھلاڑیوں کی ترجیحات ملک کی بجائے ذاتی مفادات بن چکے ہیں، المختصر سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے ملازمین نے اپنی جیبیں تو بھر لی ہیں لیکن کرکٹ بورڈ کے ہرے بھرے درخت کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے، ایسے میں یہ کہنے میں کوئی شرمندگی نہیں کہ جب باڑ ہی فصل کو کھانے لگے، جب چوکیدار ہی چور بن جائے، پولیس ڈاکو بن جائے، جج ناانصافی کرنے لگے، فوج اپنے ہی شہروں کو فتح کرنے لگے، قانون ساز قانون توڑنے لگیں، سیاستدان سیاست کو کاروبار بنانے لگیں۔

میڈیا کے لوگ پلاٹوں اور بین الاقوامی دوروں کے لئے اپنے ضمیر کو بیچنے لگیں، گلہ بان خود ہی بکریاں ذبح کرنے لگے اور عوام ملک کو لوٹنے اور برباد کرنے لگیں تو اس ملک اور اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔پاکستانی کرکٹ بورڈ کا بھی اس وقت کوئی والی وارث نہیں ہے، اس ملک کے دوسرے اداروں کی طرح پی سی بی بھی اللہ کے سہارے ہی چل رہا ہے لیکن یہ سلسلہ کب تک اور آخر کب تک چلے گا۔

جناب احسان مانی صاحب ، آپ کی نیت پر کسی کو کوئی شک نہیں، وزیر اعظم عمران خان نے آپ کو چیئرمین پی سی بی نامزد کیا ہے تو ابھی سے امید کی کرنیں نظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔ جناب چیئرمین،یہ تلخ حقیقت اور کڑوا سچ ہے کہ کمزوری دنیا کا سب سے بڑا جرم ہوتا ہے، اس کائنات میں اس دنیا میں صرف اور صرف وہ جاندار زندہ رہتے ہیں جن کے پنچے، دانت، اور کھال مضبوط ہوتی ہے یا پھر وہ دوسرے درندوں سے تیز بھاگ سکتے ہیں، یہ اصول انسانوں اور قوموں پربھی لاگو ہوتا ہے۔

ہم اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری عاجزی، ہماری کمزوری اور ہماری خوش فہمی ہمیں بچا لے گی تو یہ محض ہماری خام خیالی ہے۔اچھے اور برے ساتھیوں میں تمیز کر کے نئے عزم، نئی ہمت، نئے ارادے کے ساتھ اٹھیں، شکست کو سر پر سوار نہ ہونے دیں بلکہ اسے پیروں تلے کچل دیں۔ بلاشبہ آپ مالیاتی امور کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ انتظامی امور میں بھی یکساں اہلیت رکھتے ہیں، شائقین کرکٹ امید کرتے ہیں کہ آپ اپنے وسیع تجربے اور خداداد صلاحیتوں کی بدولت پاکستانی کرکٹ کو عروج اور بلندیوں تک پہنچانے کے لئے دن رات ایک کر دیں گے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں