سرکاری اداروں کے نئے اوقات اور کارکردگی
پہلا اہم ترین معاملہ یہ ہے کہ تمام سرکاری اداروں میں بھرتیاں میرٹ پر کی جائیں
حال ہی میں نئی حکومت کی جانب سے پہلے ہفتہ کی چھٹی ختم کرنے پر غور کیا گیا پھر سرکاری اداروں کے اوقات کار تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ سرکاری اداروں میں شام تک ملازمین کو کام کرنا ہوگا۔ سرکاری اداروں کی کارکردگی بڑھانے کے لیے یہ ایک اچھی پیش رفت کہی جا سکتی ہے، تاہم راقم کی نظر میںبہت سے معاملات ایسے ہیں کہ جن پر توجہ دینا ''گڈ گورننس'' کے لیے بے حد ضروری ہے۔ آج کے کالم میں کچھ تجاویز پیش کی جارہی ہیں، اس امید کے ساتھ کہ نئی حکومت ان کو مدنظر رکھ کر اچھے طریقے سے منصوبہ بندی کرسکے۔
پہلا اہم ترین معاملہ یہ ہے کہ تمام سرکاری اداروں میں بھرتیاں میرٹ پر کی جائیں، قابل اور ایماندار لوگوں کی ملک میں کوئی کمی نہیں ہے، یہ ہماری انتہائی غیر اخلاقی بات ہے کہ مختلف جماعتیں اقتدار میں آکر اپنی ہی پارٹی کے کارکنوں اور ہم خیال لوگوں کو سرکاری ملازمتوں میں لے آتی ہیں، مگر اتنا بھی خیال نہیں رکھتیں کہ جن افراد کو ملازمتیں دی جارہی ہیں وہ اپنے عہدے کے مطابق قابلیت اور اہلیت بھی رکھتے ہیں یا نہیں؟ حالانکہ ہر پارٹی اور اس کے ہم خیال لوگوں کی ایسی بڑی تعداد بے روزگار ہوتی ہے جو قابل بھی ہوتے ہیں اور ایماندار بھی۔
دوسرا اہم ترین معاملہ سرکاری اداروں میں کام کرنے والی مزدور اور ملازمین کی یونین یا ایسوسی ایشن وغیرہ کے عہدیداروں کا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ عہدیدار خود کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں اور ان کی کرپشن کے علاوہ غلط قسم کی سرگرمیوں سے ادارے خسارے میں چلے جاتے ہیں، یہ عہدیدار خود ہی کرپشن کو فروغ دیتے ہیں، اپنے چاپلوس قسم کے خوشامدی لوگوں کو فائدے پہنچاتے ہیں، جبکہ محنتی اور ایماندار ملازمین کی ترقی میں بھی یہی لوگ رکاوٹ کا باعث ہوتے ہیں، کیونکہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ اگر ادارے میں محنتی اور ایماندار ملازمین ترقیاں پاکر بڑے عہدوں پر آگئے تو پھر ان کی من مانیاں نہیں چل سکیں گی۔
یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ بعض سیاسی جماعتوں کی ذیلی تنظیمیں سرکاری اداروں میں لوٹ مار اور کرپشن کے سنگین الزامات رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری ادارے انتہائی بدحال ہوچکے ہیں۔ چنانچہ سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے بہت ضروری ہے کہ ان اداروں میں کام کرنے والی مختلف یونینز کے عہدیداروں کی جانچ پڑتال کی جائے، ان کے اثاثے چیک کیے جائیں کہ کس کس کے پاس ان کی تنخواہوں کے اعتبار سے زائد اثاثے موجود ہیں۔ یہ کام نہایت ضروری ہے، کیونکہ جب تک اقربا پروری اور کرپشن کرنے والے ان عہدیداروں کو گرفت میں نہیں لیا جائے گا اور اداروں سے کرپشن اور اقربا پروری ختم نہیں ہوگی تب تک ادارے کسی بھی قسم کے مالیاتی بحران سے باہر نہیں نکل سکتے اور نہ ہی اداروں کی کارکردگی بہتر ہوسکتی ہے۔
پاکستان اسٹیل ملز اس وقت سب سے زیادہ خسارے والا ادارہ ہے، یہاں کے اکثر ملازمین کا خیال ہے کہ اس کی تباہی میں جہاں سابقہ حکومتوں کی خراب منصوبہ بندیوں کا ہاتھ ہے وہیں اس ادارے کی منتخب ہونے والی یونینز کا بھی ہاتھ ہے، اربوں روپے کی پیداوار دینے والا یہ ادارہ اب اربوں روپے کے خسارے کا شکار ہوچکا ہے۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ کسی بھی سرکاری ادارے کی منتخب یونین کے عہدیداروں کا بھی کڑا احتساب ہو، ان سے بھی پوچھا جائے کہ انھوں نے اپنے اثاثے اور دولت کے ڈھیر کہاں سے اور کیسے حاصل کیے ہیں؟
سرکاری اداروں میں کام کرنے والے محنتی اور ایماندار لوگوں کے ساتھ ناانصافی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ بات عام ہے کہ اب سرکاری ادارے میں جو کام نہیں کرتا اسے کوئی 'چھوتا' نہیں ہے اور جو محنت سے کام کرتا ہے اسے کوئی 'چھوڑتا' نہیں، دوسروں کے حصے کا بھی اسے ہی کام کرنا پڑتا ہے، جبکہ دوسری طرف ترقیاں محنت سے کام کرنے والوں کو نہیں بلکہ کام چوروں ہی کو سفارش کی بنیاد پر مل جاتی ہیں۔
یہ عمل ان لوگوں کی دل آزادی کی باعث بنتا ہے جو محنت اور لگن سے ادارے کے لیے دن و رات کام کرتے ہیں۔ اس عمل سے تمام ملازمین میں بددلی پھیلتی ہے اور رفتہ رفتہ دوسرے ملازمین بھی کام سے دل چرانے لگتے ہیں، جس سے ادارے کی کارکردگی مزید خراب ہوجاتی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو تمام سرکاری ملازمین کو فوری انصاف کے ایک میکنزم کی ضرورت ہے۔ جب سرکاری اداروں میں محنت سے کام کرنے والوں کو ترقیاں ملیں گی تو تمام ہی ملازمین زیادہ محنت کریں گے اور ایمانداری سے کام کریں گے تاکہ انھیں بھی اس کا صلہ ملے۔ یوں اگر غور کریں تو
1۔ سرکاری ملازمین کی بھرتیوں میں میرٹ
2۔ سرکاری اداروں میں ترقیوں اور انصاف کے میکنزم کے قیام
3۔ سرکاری اداروں کی منتخب یونین کے عہدیداروں کا کڑا احتساب
یہ سب ہی مل کر سرکاری اداروں کی کارکردگی کو بہتر بناسکتے ہیں، ورنہ صرف کام کے اوقات کار طے کرنے اور سرکاری اعلامیہ جاری کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اگر نئی حکومت واقعی میں سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانا چاہتی ہے تو مندرجہ بالا اقدامات کے علاوہ ایک اور سب سے اہم کام کرنا ہوگا اور وہ ہے سرکاری اداروں کے سربراہوں کا درست انتخاب کرکے انھیں اداروں کی بہتری کے لیے کام کرنے کا آزادانہ ماحول فراہم کرنا، ایک ایسا ماحول جس میں ملک کا وزیراعظم بھی میرٹ کے خلاف کوئی سفارش نہ کرے۔
موجودہ حکومت کا احتساب کا بھی ایک بڑا نعرہ ہے، جو ایک اچھی بات ہے۔ لیکن احتساب کا ایک اچھا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ تمام سرکاری اداروں کے سربراہوں اور پھر ان کے بعد تمام بڑے شعبہ جات کے نگرانوں کے اثاثوں کی چھان بین کی جائے اور یہ جائزہ لیا جائے کہ آج سے دس پندرہ برس قبل ان کے اثاثے کیا تھے اور اب کیا ہیں؟ اگر ادا کیے گئے انکم ٹیکس، ظاہر کی گئی آمدن اور اثاثوں میں عدم توازن پایا جائے تو انھیں ان کے عہدوں سے برطرف کرکے تحقیقات کی جائے اور جرم ثابت ہونے پر کڑی اور فوری سزا دی جائے۔
کسی بھی محکمے میں کرپشن کا سراغ لگانے کا یہ بہترین طریقہ ہے، اگر تمام محکموں کے سربراہوں سے اس طرح جانچ پڑتال کی جائے تو معاملات بہت حد تک درست ہوسکتے ہیں۔ جب تک سرکاری محکموں سے کرپشن ختم نہیں کی جاتی اور وہاں کے ملازمین کو ترقیوں کے معاملے میں انصاف مہیا نہیں کیا جاتا، ان کی کارکردگی کبھی بھی بہتر نہیں ہوسکتی، خواہ ہفتے میں کتنے ہی دن اور کتنے ہی گھنٹے کام کریں۔