وہ سو دن
ابھی تک خاندانی سیاست اور شخصی سیاست کرنے والوں کو یقین نہیں آیا کہ وہ ہار چکے ہیں۔
غلطی سے انسان کو سیکھنا چاہیے اور آیندہ غلطیوں سے پرہیزکرنا چاہیے، یہ ایک عام اصول ہے زندگی کا اور دنیا بھر میں لوگ اسے مانتے اور اس پر عمل کرتے ہیں، سوائے امریکا کے ٹرمپ اور پاکستان کے ٹرمپ کارڈز کے یہ ٹرمپ کارڈ کیا اور کون ہیں آپ خود تجزیہ کرلیں گے ۔ اس کے لیے گزشتہ سال اور اس سال کے کیلنڈر اور واقعات کو دیکھ لیجیے اور سمجھ لیجیے کہ سب کچھ صاف اور واضح ہے۔
پاکستان کے عوام نے جن کو اپنے مفادات کے تحت آبادی کے شماریات کے کچھ لوگوں کے مطابق فراڈ کے تحت، پاکستان میں اپنی پسند کے آبادی کے حلقے بنانے کے باوجود اور ہر ریاستی ہتھکنڈا استعمال کرنے کے باوجود خصوصاً سندھ اور پنجاب میں اور یہ سمجھ کر کہ ''بندوبست'' کرلیا ہے، نگراں کیا کرسکیں گے اور شادا بھٹی شادا ہوجائے گا عوام نے اس سارے بندوبست کا منہ توڑ جواب دیا، کون جیتا زیر بحث نہیں کون ہارا یہ قابل غور ہے۔
لیاری اور لاہور نے کس سے منہ موڑا اور کہہ کر موڑا کہ لیاری میں سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے کے ساتھ پہلے ہی ردعمل دے دیا تھا۔ لاہور کہہ رہا تھا کہ چند سڑکوں، پلوں، میٹرو، نیلی پیلی بس سروس سے افلاس، بھوک ختم نہیں ہوگی کھانے کو روٹی پینے کو پانی ہوگا تو میٹرو میں چڑھے گا بندہ، حساب کتاب شروع ہے اور ہوگا عوام نے فیصلہ دے دیا ہے کہ جنھوں نے ہمیں لوٹا ہے ان سے حساب لو۔
زندگی میں جس نے ایک روپیہ نہ کمایا ہو وہ مزدور کا دکھ کیا جانے، پاکستان کی قومی اسمبلی کو برطانوی پارلیمنٹ سمجھ کر انگریزی کا مظاہرہ کرنے اور منتخب ہونے والے پر طنزکے تیر چلا کر اور کچھ نہیں تو سندھ میں ہی خوشحالی لاکر دکھا دو کہ جہاں آج پھر وہی فرسودہ حکومت ہے جو اس سے پہلے بھی ناکام رہی اور صرف ''صاحب'' کے اشاروں پر چلتی رہی اور اب بھی چلے گی مگر ''صاحب'' خود مشکل میں ہے اور خود کہہ رہا تھا ''اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔''
ہارنے والوں کو اس بار عوام نے شکست دی ہے جس پارٹی کے چیئرمین انگریز اور انگریزی دان لگتے ہیں اس کو چاہیے تھا نہ کہ جب کوئی چار حلقے کھولنے کی بات کر رہا تھا تو اس مطالبے کی حمایت کرتے کہ وہ اپوزیشن میں تھے مگر وہ حکومت اور حواریوں کے ساتھ کھڑے رہے اپنا مفاد عزیز تھا۔ آج وہ ان کے سر پر ہیں اور حواریان نابود عوام کے ہاتھوں۔ کچھ بھی کرلیں اور کتنا بھی شور کرلیں جن کو عوام نے شکست دی وہ جیت نہیں سکتے فاروق ستارکی زبان پر دل کی بات آہی گئی کہ بانی کے بغیر الیکشن سے ایم کیو ایم کو نقصان ہوا۔ پہلے ان سے لاتعلقی اور اب ضرورت یہ وجہ تھی کہ لوگ آپ کو بھی چھوڑ گئے تھے۔ اب آپ بالواسطہ کہہ رہے ہیں عوام کے ہاتھوں ہارنے کے بعد کہ ''مجھے کیوں نکالا'' پتا چل گیا کیوں نکالا۔
ابھی تک خاندانی سیاست اور شخصی سیاست کرنے والوں کو یقین نہیں آیا کہ وہ ہار چکے ہیں۔ انگریزی کے شوقین وہ بھی غریب عوام کے ساتھ کی پارٹی اب سندھ کی پارٹی رہ گئی ہے، پنجاب کے ''بت خانے'' بند ہوگئے۔ زرداری صاحب کی دوسری اننگ کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی، اسمبلی نہ جاتے تو شاید عزت بچی رہتی اب تو سیاسی بازار ہے اور ساتھ کون ہیں دیکھ لیں سڑکوں پر گھسیٹنے والے ان کو جو بار بار دعویٰ کرچکے تھے، پیٹ اپنا فل تھا ناجائز دولت سے اور آپ کا پھاڑنے کی بات کرتے تھے۔ بہت بری اپوزیشن کی تھی پانچ سال بے جان، ہاں میں ہاں ملانے والی اپوزیشن اور اب اس سے بھی بدتر ہونے والا ہے کیونکہ احتساب کا شکنجہ سب کے سر پر ہے۔
نہایت افسوس ہوا جب انگریزی میں 100 دن کے وژن کا مذاق اڑایا گیا، اس سے آپ کی سیاسی نابالغی کا اندازہ ہوا۔ کچھ سامنے ہے نہیں عوام کے لیے وژن ہے جو اناؤنس ہونا تھا اور آپ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر عوام کے بارے میں لائے جانے والے وژن کو بوٹوں کے تلے رکھ رہے تھے۔ یہ بے نظیر کا انداز نہیں تھا۔ یہ آصف زرداری کی تربیت تھی۔
اسمبلی میں سب جگہ سے نئے لوگ آئے ہیں اب ریاستی و روایتی سیاست کا جنازہ پڑھ دینا چاہیے اور اصل جمہوریت کو پروان چڑھانا چاہیے ''جمہوری ڈکٹیٹروں'' کا خاتمہ ہونا چاہیے غیر جمہوری ڈکٹیٹروں کے ساتھ۔ ایک اڈیالہ میں ایئرکنڈیشنڈ کے مزے لوٹ رہا ہے یہاں بھی عوام کے ٹیکس کا پیسہ، اے سی کا بل کون دے گا؟
اب جیلوں میں تمام مجرموں کو سہولتیں دے دینی چاہئیں جن میں A.C اور گھر کا کھانا اور پمز اور بڑے اسپتالوں میں فری علاج کی سہولتیں شامل ہونی چاہئیں جو ''مجھے کیوں نکالا'' خاندان کو حاصل ہیں، ووٹ کو عزت ملی ہے تو یہ ناراض ہیں کتنی تہذیب یافتہ پارٹی ہے یہ تو اسمبلی میں پتا چل گیا۔ یہ قوم کو جیب میں رکھنا چاہتے ہیں، پتا نہیں ایک لیگی رہنما نے کیا کام شروع کیا ہے پہلے تو وہ شیروانی کے بٹنوں کا حساب کتاب کیا کرتے تھے اور مجھے کیوں نکالا کی شیروانی جھاڑتے رہتے تھے۔
100 دن کہہ کر کسی نے کوئی گناہ نہیں کیا، تین تین باریاں لے کر آپ نے کیا کیا اپنی جیبیں بھریں، کنسٹرکشن آئیکون کراچی میں زمین لے کر لاہور میں ''ہاؤس'' تحفے میں دیتے ہیں۔ انگریزوں کا ایک طریقہ ہے مفادات حاصل کرنے کا وہ یہ ہے کہ It is not an art to be corrupt, the art is to make others corrupt یعنی بے ایمان ہونا ہنر نہیں ہے، ہنر یہ ہے کہ دوسروں کو بے ایمان بنایا جائے۔
اس طریقہ کار پر اب تک پاکستان میں حکومت ہوتی رہی ہے سازشی غلام محمد سے اب تک، تاریخ میں صرف ایک بار پاکستان آئی ایم ایف سے آزاد ہوا وہ بھی ایک آرمی ڈکٹیٹر کے دور میں شوکت عزیز کے ہاتھوں، سیاسی حکومتوں نے بال بال قرض میں باندھ دیا جس میں انگریزی کے شوقین کی پارٹی کا بھی بڑا حصہ ہے، وہ ابا جان کے دور کا کارنامہ ہے جو ساتھ تشریف رکھتے اور آپ کے سیاسی اتالیق ہیں۔
اگر عوام سے ووٹ لینے ہیں تو سندھ کی فکر کریں لوٹ مار بند کریں، کمیشن کھاتے ختم کریں، زمین پر کام نظر آنا چاہیے صرف فیتے نہ کاٹیں جس کی پوری پارٹی شوقین ہے کام بھی چیک کریں، وزیروں پر نظر رکھیں ''موڈ'' میں رہنے والوں کو سدھاریں یہ لندن نہیں ہے پاکستان ہے کراچی ہے جو اب دنیا کا ساتواں بدترین شہر ہے۔ آپ کی پارٹی کی وجہ سے جو ہمیشہ سندھ پر قابض رہی ہے جو نالائق پروموٹ کرتی ہے ہر شعبے میں۔ بلدیات ہی دیکھ لیں، محکمہ صحت، لائیو اسٹاک، کوئی شعبہ دیکھ لیں لوٹ کھسوٹ اور عوام دشمنی کا کاروبار عام ہے۔
آپ دوسرے کے 100 دن کے پروگرام کے جواب میں ایک 365 دن کا پروگرام ہی دکھادیں جو واقعی عوامی اور کرپشن سے پاک ہو۔ کرکے دیکھ لیں، مگر جو بھی کریں ابا جی سے پوچھ لیں ان کا اس کاروبار سے ریٹائرمنٹ کا کوئی ارادہ نہیں لگتا اور ہاں ایک بات اور ابا جی کی ہدایات پر عمل کرنے والے اڈیالہ میں ہیں۔