پاکستان کا بدلتا ہوا منظر نامہ
پاکستان بدلے نہ بدلے مستقبل کے حکمرانوں کو اپنا آپ، اپنی سوچ اور طرز عمل بدلنا ہو گا۔
پاکستان بدلے نہ بدلے مستقبل کے حکمرانوں کو اپنا آپ، اپنی سوچ اور طرز عمل بدلنا ہو گا۔ وہ دن گزر گئے جب حکومتیں وقتی جذبات کے تحت چلائی جاتی تھیں۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ ہم سب کو بدلنا ہو گا۔ حکمرانوں کو، ان کے حریفوں کو اور سب سے بڑھ کر عوام کو، ویسے اس کے سوا کوئی چارہ کار بھی نہیں ہے۔
انتخابی نتائج کے بعد دھاندلی کا شور مچانے والے جوش و خروش کو بڑھانے کے بجائے ہوش کا دامن تھام رہے ہیں کیونکہ منظم دھاندلی ممکن نہیں تھی۔ استثناء کراچی کو حاصل ہے جہاں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نا اہلی اور ناکامی نے بعض مقامات پر انتخابی عمل کو مشکوک بنا دیا ہے۔
لاہور کے حلقہ این اے 125 میں دھاندلی کا ہنگامہ آہستہ آہستہ دم توڑ رہا ہے اور احتجاجی دھرنے کا رخ اسلام آباد کے ہائیڈ پارک ''ڈی چوک'' کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ امکان غالب یہ ہے کہ سڑکوں پر دھرنوں، جلسے اور جلوسوں کے بجائے اگلا معرکہ عدالتوں میں لڑا جائے گا اور ہمارے وکلا بھائیوں کے وارے نیارے ہو رہے ہیں۔
اس کالم نگار کو گزشتہ روز اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب جناب زاہد اختر خان نے استفسار پر بتایا کہ این اے 125 میں کسی قسم کی دھاندلی نہیں ہوئی' ہمیں خوشدلی سے نتائج کو تسلیم کرنا چاہیے۔ زاہد اختر خان تحریک انصاف لاہور کے بانی صدر اور جناب عمران خان سے جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کی زندگی وہ روایتی انداز میں گزار رہے تھے، دن جم خانہ میں گپ شپ اور سر شام بے تکلف دوستوں کی طویل بیٹھک' زندگی لگے بندھے معمول پر رواں دواں تھی جو ہماری اشرافیہ کا معمول ہے۔
وہ تو برا ہوا پرویز مشرف کا جس نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو برطرف کیا اور زاہد اختر خان غیر متوقع طور پر اپنی جنت نظیر زندگانی کو خیرباد کہہ کر میدان عمل میں آ گئے۔
پھر برف جیسے ٹھنڈے ٹھار بزرگ نے شعلہ جوالا کا روپ دھار لیا، شدت جذبات کا یہ عالم تھا کہ چیف جسٹس کی بحالی کے لیے دونوں لانگ مارچ جوگرز پہن کر کیے، پھر عمران خان سے بھولی بسری محبت کی چنگاریاں دہک اٹھیں اور جناب زاہد اختر خان عام کارکن کی حیثیت سے دوبارہ متحرک ہو گئے۔ میں ان کے جذبات سے آگاہ تھا اس لیے ڈرتے ڈرتے این اے 125 کی دھاندلی کے بارے میں پوچھا تھا۔ زاہد اختر خان کا کہنا تھا کہ لاہور ڈیفنس میں 5 پولنگ اسٹیشن بنائے گئے تھے جن میں تحریک انصاف بھاری اکثریت سے جیت گئی تھی۔ لیکن این اے 125 میں کل 2 سو پولنگ اسٹیشن تھے جن پر ووٹروں کی اکثریت نے خواجہ سعد رفیق کو پسند کیا۔ لالک جان چوک لاہور میں دھرنا دینے والوں کی دنیا ڈیفنس سے شروع ہو کر ڈیفنس میں ہی ختم ہو جاتی ہے۔ انھیں این اے 125 کی وسعتوں کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔ انھوں نے چونکہ ڈیفنس کے پولنگ اسٹیشنوں پر اپنے حامیوں کی طویل قطاریں دیکھی تھیں' اس لیے وہ تلخ حقائق قبول کرنے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ نہیں ہیں۔
رہے خواجہ سعد رفیق وہ تو بالکل بدلے ہوئے پختہ کار رہنما بن چکے ہیں۔ انھوں نے دھاندلی کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے نشان انگوٹھے کی شناخت سمیت تمام متبادل ذرایع استعمال کرنے پر خوش دلی سے آمادگی ظاہر کر دی ہے۔
اب ایسے تمام عناصر جن کی توقعات کے برعکس انتخابی نتائج نے انھیں حقائق کی کڑی دھوپ میں لاکھڑا کیا ہے مختلف امیدواروں کی انفرادی بے ضابطگیوں کو منظم دھاندلی قرار دینے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں جس کے لیے انھیں بہت زیادہ پذیرائی کے بجائے سرد مہری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تبدیلی کے نعرے تو سب لگا رہے تھے لیکن تبدیلی کو حقیقت کے روپ میں ڈھالنے کے لیے سب سے پہلے نعرہ بازوں کو اپنا آپ بدلنا ہو گا۔ اس کے بعد بیوروکریسی کے انتظامی ڈھانچے کو چھیڑے بغیر دھیرے دھیرے بڑے دھیرج سے اصلاح احوال کی کوشش کرنا ہو گی۔
ناروا اور اچانک تبادلوں کے بارے میں عدالت عظمیٰ رہنما خطوط مرتب کر چکی ہے جس کے تحت اب یہ لٹکتی تلوار ہٹے گی تو بیوروکریسی دباؤ سے آزاد ہو جائے گی۔ اسی طرح نجی شعبے کی اچھی روایات کو اپنانا ہو گا۔ نئے قوانین کے بجائے موجودہ قوانین کو ان کی حقیقی روح کے مطابق مؤثر طریقے سے نافذ کیا جائے جب کہ خواتین کو ترقی کے اس سفر میں اپنے شانہ بشانہ شامل کرنا ہو گا۔
جناب نواز شریف اور عمران خان کو مسائل کے حل کے لیے خاص طور پر نوجوان ارکان اسمبلی سے تحریری تجاویز لینا ہو گی۔
بتدریج طریقے سے مثبت ارتقائی تبدیلی بڑا صبر آزما عمل ہے اور ہمیں یہی صبر طلب مرحلہ درپیش ہے۔ حرف آخر یہ کہ ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ بند پڑے ہیں اور ساری قوم لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھگت رہی ہے۔ ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے اداروں سے حکومت نے 11 روپے یونٹ پر بجلی خریدنے کا معاہدہ کیا تھا لیکن انھوں نے انتظامی اخراجات میں اضافے کا بہانہ کر کے نرخوں میں اضافے کا مطالبہ کر دیا اب بجلی کی پیداوار بند ہے۔ فوری طور پر ان بند پلانٹس کو چلوانے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔