صدارتی انتخاب بلوچستان کے اراکین پارلیمنٹ کی اہمیت بڑھ گئی

توقع ہے کہ اگلے مرحلے میں ان اتحادی جماعتوں کو بھی اکاموڈیٹ کیا جائے گا۔


رضا الرحمٰن August 29, 2018
توقع ہے کہ اگلے مرحلے میں ان اتحادی جماعتوں کو بھی اکاموڈیٹ کیا جائے گا۔ فوٹو: فائل

ملکی سیاست میں بلوچستان فوکس ہوگیا ہے۔ وزیراعظم کے انتخاب کے دوران جس طرح سے بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے ووٹوں کی اہمیت بڑھ گئی تھی اسی طرح اب صدارتی انتخاب میں بھی بلوچستان کے ارکان پارلیمنٹ کے ووٹوں کا وزن بڑھ گیا ہے۔

بلوچستان اسمبلی جو کہ 65 ارکان پر مشتمل ہے اس وقت دو حلقوں کے نتائج روکنے ایک حلقے میں الیکشن ملتوی ہونے اور سردار اختر جان مینگل کے قومی اسمبلی جانے سے خالی ہونے والی نشست سمیت خواتین کی مخصوص نشستوں میں سے ایک پر الیکشن باقی رہ جانے کے باعث اب60 ارکان پر محیط ہے۔ یعنی صدارتی انتخاب میں بلوچستان اسمبلی کے60 ارکان اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔

پی ٹی آئی اپنے اُمیدوار عارف علوی کیلئے بلوچستان سے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کیلئے رابطے کررہی ہے کیونکہ بلوچستان اسمبلی کے ایک رکن کا ووٹ ایک ووٹ شمار ہوگا اس لئے اس ووٹ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اپوزیشن جماعتیں بھی بلوچستان اسمبلی کے ارکان سے رابطے کررہی ہیں۔ پی ٹی آئی نے اپنے صوبائی صدر اور بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کو خصوصی ٹاسک بھی سونپ دیا ہے۔ سردار یار محمد رند نے وزیراعظم عمران خان سے اسلام آباد میں ملاقات کی اور اُن سے صدارتی انتخاب کے حوالے سے صلاح مشورہ کیا۔

سردار یار محمد رند کو وزیراعظم عمران خان نے بلوچستان سے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا ٹاسک دیا۔ سردار یار محمد رند کے قریبی ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے سردار یار محمد رند پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے وہ اُس پر پورا اُتریں گے۔ سردار یار محمد رند نے فوری طور پر بلوچستان کے بعض ارکان پارلیمنٹ سے رابطے کئے جنہوں نے اُنہیں اپنی مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ان قریبی ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان اسمبلی کے60 ارکان میں سے46 سے48 ووٹ پی ٹی آئی کے صدارتی اُمیدوار عارف علوی کو ملنے کا قوی امکان ہے جو کہ یقینا ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کریں گے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان اسمبلی سے پی ٹی آئی کے اُمیدوار کو بھاری اکثریت حاصل ہو جائے گی کیونکہ بی اے پی اُس کی اتحادی جماعتوں سمیت اپوزیشن جماعت بی این پی مینگل بھی پی ٹی آئی کے اُمیدوار کی حمایت کرے گی؟۔ ان جماعتوں نے پہلے ہی وزارت عظمیٰ کے انتخاب میں پی ٹی آئی کے اُمیدوار عمران خان کی حمایت کی تھی۔

سیاسی مبصرین کے مطابق قومی اسمبلی میں بی این پی مینگل کے سردار اختر جان مینگل اور آزاد رکن اسمبلی محمد اسلم بھوتانی کے آنے سے صوبے کی بارعب آواز سنائی دینے لگی ہے۔ وزارت عظمیٰ کے انتخاب کے روز قومی اسمبلی میں سردار اختر جان مینگل کی تقریر کو عوام میں بڑی پذیرائی ملی، اسی طرح اسلم بھوتانی نے بھی سی پیک کے معاملے کو جس طرح سے اسمبلی فلور پر اُٹھایا ہے گوادر کے عوام کو بھی یہ محسوس ہوا ہے کہ کسی نے اُن کے حقوق کی آواز قومی سطح پر بلند کی ہے۔ اب شاید انہیں اُن کا حق مل جائے یا اُسے تسلیم کرلیا جائے؟

دوسری جانب بلوچستان میں جام کمال کیلئے اپنا''کمال'' دکھانے کا وقت آن پہنچا ہے۔ وزیراعلیٰ جام کمال نے اپنی ٹیم یعنی کابینہ تشکیل دیتے ہوئے پہلے مرحلے میں دس وزراء اور ایک مشیر کو شامل کیا ہے جس میں ان کی اتحادی جماعتوں تحریک انصاف اور اے این پی کے حصے میں بھی ایک ایک وزارت آئی ہے۔ باقی آٹھ وزراء اور ایک مشیر کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کی دیگر تین اتحادی جماعتیں بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی،ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی کو پہلے مرحلے میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔

توقع ہے کہ اگلے مرحلے میں ان اتحادی جماعتوں کو بھی اکاموڈیٹ کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں دس وزراء پر مشتمل کابینہ تشکیل دی گئی ہے جبکہ آئین کے تحت اب چار وزارتیں اور4 مشیروں کا کوٹہ باقی ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال وزارتوں کی تقسیم کے حوالے سے کافی دبائو میں نظر آتے ہیں کیونکہ جہاں اُنہیں آزاد اراکین جنہوں نے انکی جماعت میں شمولیت اختیار کی ہے ان سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا سامنا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔