کلدیپ جی بھی چلے گئے

رنجشوں کے بیج بونے کے بجائے محبتوں کے چراغ روشن کرنے کی جستجو کی ہے۔


Muqtida Mansoor August 30, 2018
[email protected]

برصغیر وہ بد نصیب خطہ ہے، جوگزشتہ سات دہائیوں سے دو ملکوں کی حکمران اشرافیہ کی ضد ، انا اور ہٹ دھرمی کے باعث زخم زخم ہے ۔کہتے ہیں وقت گذرنے کے ساتھ ہر زخم مندمل ہو جاتا ہے، مگر یہاں معاملہ الٹ ہے۔ دونوں جانب کے مقتدر حلقے ان زخموں کو مسلسل کریدکر انھیں مندمل نہیں ہونے دے رہے ، بلکہ ا پنے مفادات کی خاطرعوام کے ذہنوں میںبسی کدورتیں کو مزید گہرا کرکے بد ترین نفرتوں میں تبدیل کرنے پر تلے رہتے ہیں ۔

اگردونوںجانب کی مقتدر اشرافیہ عقیدے ،کمیونل قوم پرستی اور مختلف تنازعات کو بنیاد بناتے ہوئے نفرتوں کو بڑھاوا دینے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیںجانے دے رہی، تو دونوں ممالک میںایسے متوشش شہریوں ، امن دوست اہل دانش اورسیاسی وسماجی کارکنوں کی بہت بڑی تعداد بھی موجود ہے، جو پر امن بقائے باہمی پر یقین رکھتی ہے اور خطے کے تمام معاملات و مسائل کو مذاکرات کے لیے ذریعہ پر امن طریقے سے حل کیے جانے کی خواہاں ہے، اگرکچھ حلقے نفرتوں کی دیواروں کو بلند سے بلند ترکرنے میں مصروف عمل ہیں، توکچھ حلقے ان دیواروں میں کھڑکیاں اور روشن دان بنانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں، تاکہ رنجشوں اورکدورتوں کوکم کرنے کی کچھ تو سبیل ہو سکے۔

سرحد کے دونوں جانب امن نواز اور انسانیت دوست حلقوں میں ایسی جرأت مند اور بے باک ہستیاںہر دور میں موجود رہی ہیں ، جو حکمرانوں کی جانب سے عقیدے اورکمیونل حب الوطنی کے نام پر بھڑکائی آگ کی پرواہ کیے بغیر امن،یگانگت اور رواداری کا پیغام پھیلانے کی کوششوں میں مصروف چلی آرہی ہیں ۔ جنونیت کے اس نقار خانے میں ان کی آوازیں بھلے طوطی کی آواز ہی سہی، مگر ذہنوں کو جھنجھوڑنے کا باعث ضرور بن رہی ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے نفرتوں کی آگ کو بھڑکانے کے بجائے، اسے بجھانے کی کوشش کی ہے ۔

رنجشوں کے بیج بونے کے بجائے محبتوں کے چراغ روشن کرنے کی جستجو کی ہے۔ دلیل کی بنیاد پر مکالمے کو فروغ دینے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کی ہیں۔ امن وآشتی کے قیام کے لیے سرگرم انھی شخصیات میں ایک قد آور اور نمایاں نام آنجہانی کلدیپ نیرکا ہے، جو ستر برس تک قیام امن کے لیے کاوشیں کرتے ہوئے 23اگست 2018کو امن نواز دوستوں کو سوگوار چھوڑکر اگلے جہانوں کی طرف بڑھ گئے۔

95 برس کی عمر میں اس جہاںِ فانی کو خدا حافظ کہنے والے کلدیپ جی تقسیم ہند کے وقت 24 برس کے تعلیم یافتہ نوجوان تھے۔ سیالکوٹ میں جنم لینے اور لاہور سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے والے کلدیپ جی تقسیم کے بعد بھی پاکستان میں رہنے کے خواہشمند تھے، مگر حالات جس انداز میں خونریزی کا شکار ہورہے تھے،اس میں ان کے لیے اپنی جنم بھومی میں رکنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگیا تھا۔ یوں نوجوان کلدیپ کو بھی ناچار دہلی کی راہ اختیار کرنا پڑی ۔ سیالکوٹ سے دہلی جاتے ہوئے پورے راستے میںبے گوروکفن پڑی لاشوں اور اِدھر سے اُدھراور اُدھرسے اِدھر آتے جاتے لٹے پٹے بے یارومددگار قافلوں کو دیکھنے کے بعد اس نوجوان وکیل نے مصمم ارادہ کرلیا کہ وہ اس دھرتی پر پھیلائے گئے وحشت اور نفرت کے زہرکا تریاق بنے گا۔

اسی روز انھوں نے اپنی منزل کا تعین کرلیا اور وکالت کو خیرآباد کہہ کر صحافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا۔صحافت کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں اپنے من کی بات کہنے کے کئی طریقے ہوتے ہیں ۔ حالات کتنے ہی نامساعد کیوں نہ ہوجائیں، قلم پابہ زنجیرکیوں نہ کر دیا گیا ہو، ایک صحافی پھر بھی اپنا مدعا کسی نہ کسی طور پر قارئین تک پہنچا ہی دیتا ہے۔ اپنے صحافتی سفرکا آغاز انھوں نے اردو صحافت سے کیا ، مگربھارت میںاردو صحافت کا حلقہ محدود سے محدود تر ہوتا جارہاتھا ۔اس لیے انگریزی صحافت کے ذریعے اپنی بات آگے بڑھانے کی راہ اختیارکی، لیکن کسی بھی مرحلے پر اردو صحافت کو خیر آباد نہیں کہا۔

ایک مرتبہ ان سے پوچھا کہ آپ اردو اور ہندی میں سے کس زبان میں زیادہ بہتر انداز میں اظہارکرلیتے ہیں۔کہنے لگے'' میاں ہم اردو فارسی پڑھے ہوئے لوگ ہیں، ہمیں ہندی مشکل ہی سے ہضم ہوتی ہے۔ میرے کئی مضامین انگریزی سے ترجمہ کرکے ہندی اخبارات میں شایع ہوتے ہیں، مگر میرا انھیں دیکھنے کو بھی دل نہیں چاہتا۔ مگر ایکسپریس سمیت کئی اردو اخبارات کا باریک بینی سے مطالعہ کرتا ہوں۔''

انھی خیالات کا اظہار سابق بھارتی وزیر اعظم ایل کے گجرال نے دہلی میں ہونے والی ایک ملاقات میں کیا تھا۔ ان کا کہناتھا کہ '' بھائی لکھنا تو درکنار مجھے ہندی پڑھنے میں بھی خاصی دقت ہوتی ہے۔ میں اردو کا آدمی ہوں۔ اردو میں اپنے خیالات زیادہ بہتر انداز میں پیش کرسکتا ہوں۔ اس لیے وزارت عظمیٰ سے علیحدگی کے بعد حیدرآباد(دکن) کے اردواخبارسیاست میں اظہاریے لکھ کر اپنے خیالات عوام الناس تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ انتہائی پسندہندوؤں کو میرا طرز عمل ایک آنکھ نہیں بھاتا، مگر میں اپنی افتاد طبع سے مجبور ہوں۔''

کلدیپ جی سے میری پہلی ملاقات معروف سیاسی دانشور بی ایم کٹی اور پائلرکے ڈائریکٹر کرامت علی کے توسط سے بیسویں صدی کی آخری دہائی کے دوران ہوئی۔ ان دنوں پاکستان اور بھارت کے سیاسی وسماجی کارکنوں، اہل علم ودانش، قلمکاروں اور متوشش شہریوں نے خطے میں امن، بھائی چارے اور یگانگت کا ماحول پیدا کرنے کے لیے پاکستان انڈیا پیپلزفورم برائے امن وجمہوریت (PIPFPD)کے نام سے تنظیم قائم کی تھی۔ جس کے سالانہ اجلاس ایک سال پاکستان اوردوسرے سال بھارت میں ہوا کرتے تھے۔اس سلسلے کی ایک کانفرنس میںشرکت کے لیے دہلی جانا ہوا ، تو وہاں ان سے ملاقات ہوئی۔ اس کے بعدوہ جب بھی پاکستان آتے یا ہمارا بھارت جانا ہوتا، آنجہانی دیدی نرملادیش پانڈے اور دوسرے کلدیپ جی سے ملاقات لازمی ہوا کرتی تھی۔

کئی برس پہلے پائلرکی دعوت پر جب ان کی قیادت میں مختلف مکتبہ فکرکے کوئی درجن بھرمندوبین کراچی آئے، تو یہاں کئی سیمینار اورکانفرنسوں کا اہتمام کیا گیا۔ ڈاکٹر ریاض احمد شیخ نے شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (SZABIST)میں پروفیسر سکندر مہدی نے ایک دوسرے تعلیمی ادارے میں سیمینارکا اہتمام کیا۔ان کی خواہش پر ایم کیوایم کے مرکز90 پر بھی لے جایا گیا۔ ہرکانفرنس ، سیمیناراور نشست میں ان کا یہی کہنا تھاکہ خطے کے عوام کی ترقی کے لیے پرامن بقائے باہمی ضروری ہے، جب کہ پرامن بقائے باہمی کے لیے تنازعات کا مذاکرات کے ذریعے حل کیاجانا ضروری ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تناؤ مصنوعی ہے،جس کے ختم ہو جانے کی صورت میں وہاں برہمن راج اور یہاں سیکیورٹی اسٹیٹ کا تصور دم توڑ جائے گا۔اسی لیے دونوں طرف کی حکمران اشرافیہ اسے قائم رکھنا چاہتی ہے۔

وہ لوگ جنہوں نے نامساعد حالات کے باوجود خطے میںپریم کی جوت جگاکر لوگوں کو قریب لانے کی جستجو کی، یکے بعد دیگرے اس دنیا سے رخصت ہوتے جا رہے ہیں۔ امن وآشتی کے لیے اٹھنے والی ایک بے باک وبلند آہنگ آواز بھی چند روز ہوئے ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔کلدیپ کے انتقال کے بعد اس خطے میں امن وآشتی کا خواب ریزہ ریزہ ہوتانظر آرہاہے، کیونکہ وہ قوتیں، جو امن وآشتی ، محبت و یگانگت کی داعی رہی ہیں، اس وقت خاصی حدتک منتشر اور بکھری ہوئی ہیں۔جس کی وجہ سے سرحد کے دونوں جانب صرف Hawks ہی منڈلاتے نظر آرہے ہیں۔ مگروقت ایک سا نہیں رہتا۔ Doves جو آج نحیف وناتواں ہیں ، توقع ہے کہ ایک روز اپنے امن مشن میں کامیاب ہوجائیں گے، جب ایسا ہوگا، توکلدیپ جی کی آتما کوابدی شانتی مل جائے گی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں