انسانی وجود کی عجوبہ کاریاں
دوسرے جسموں کی طرح انسانی جسم سے بھی ریڈی ایشن یا تابکاری کا سلسلہ برابر جاری رہتا ہے۔
طب یونانی نے انسانی مزاج کو چار درجوں میں تقسیم کیا ہے، سوداوی، صفراوی، دموی (خون) اور بلغمی۔ مشہور روسی نفسیات دان پاؤلاف نے اس نظریے کی تائید عملی تجربات سے کی ہے۔
جو لوگ غیرمعمولی طور پر حساس یا سخت سوداوی مزاج کے مالک ہوتے ہیں، ان میں قدرتی طور پر معمول (Mediom ship) بن جانے کی صلاحیت ہوتی، ایسے لوگ سانس اور ارتکاز توجہ کی مشقیں شروع کرتے ہی مہینوں اور برسوں کا راستہ دنوں اور مہینوں میں کرلیتے ہیں، جب کہ حقیقت پسند، ٹھوس مزاج، مضبوط اعصاب اور اپنے پر قابو رکھنے والے افراد سالہا سال کی محنت و ریاضت کے بعد اس مقام پر پہنچتے ہیں۔
یہ فقط طبی سچائی ہی نہیں ہے، عملی سچائی بھی ہے کہ آدمی کے مشاہدات اور تجربات پر اس کی طبیعت اور مزاجی بناوٹ کا بڑا گہرا اثر پڑتا ہے، سوداوی مزاج رکھنے والے خواب صفراوی مزاج رکھنے والے سے بہت حد تک مختلف ہوتے ہیں۔ سوداوی مزاج کے انسان اندھیروں، آندھیوں نیم تاریک مکانوں اور پاگلوں وغیرہ کو اکثر خواب میں دیکھتے ہیں۔
صفراوی مزاج والوں کی خصوصیت یہ ہے بحالت خواب اپنے کو ہوا میں پرواز کناں اور پرکشا پاتے ہیں۔ بلغمی مزاج کے لوگ پانی اور بارش وغیرہ کے خواب دیکھتے ہیں، یعنی بارش میں بھیگ رہے ہیں یا پانی میں چل رہے ہیں۔ کردار سازی و تعمیر و تنظیم شخصیت کے طلبا و طالبات کے مشاہدات، تجربات اثرات اور تصورات سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس وقت ان کے مزاج پر کون سی خلط (بلغم یا صفرا) غالب ہے۔
رئیس امروہوی کی کتاب 'لے سانس بھی آہستہ ' میں سے دو خطوط کا اقتباس پیش ہے جو مشقوں کے جسم پر اثرات کو ظاہر کرتا ہے۔
''ارشاد احمد بیگ چغتائی کا بیان ہے کہ: مشق تنفس نور میں سانس کھینچنے کے مرحلے میں نورانی شعاعوں کے اندر جانے کے ساتھ ساتھ اپنا وجود بھی نور میں تحلیل ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہی کیفیت سانس روکنے اور خارج کرنے کے وقت بھی محسوس ہوتی ہے۔
مشق کرتے ہوئے اگرچہ نشست معمول کے مطابق ہوتی ہے لیکن کبھی کبھار ایسا لگتا ہے جیسے گردن پشت کی سیدھ میں ہونے کے بجائے دائیں اور بائیں طرف جھک گئی ہے۔ اس طرح سانس خارج کرتے وقت ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے گردن نیچے جھکی ہوئی ہے جب کہ سانس روکنے کے دوران قد و قامت بلند ہوجاتا ہے۔ کبھی کبھی یہ احساس بھی ہوجاتا ہے کہ میں فرش زمین پر ہوں یا معلق؟ بس درمیانی سی کیفیت ہوتی ہے۔
بشارت حسین کے تاثرات بھی ملاحظہ ہوں: میں مشق تنفس نور کر رہا ہوں۔ دو روز کے بعد مندرجہ ذیل تبدیلیاں محسوس ہونے لگیں۔ جسم کا بوجھ غائب ہوگیا، بوجھ غائب ہوتے ہی ایسا لگا کہ صحراؤں میں بھٹک رہا ہوں، موسم ایسا ہے جیسے مغرب کے بعد عام طور پر ہوتا ہے۔ خود رو جھاڑیاں، ریت کے ٹیلے، مسلسل میدان، کہیں مکان نظر نہ آئے! البتہ کبھی کبھی اس سیر خیالی کے درمیان انجانے شہر نظر آتے ہیں۔ میں نے پاکستان کے اکثر آباد، غیر آباد دور دراز علاقے دیکھے ہیں، لسبیلہ میں بھی رہا ہوں۔
میں انڈیا کے جس قصبے کا رہنے والا ہوں اس کے جغرافیائی کیفیت بھی مجھے یاد ہے مگر مشق تنفس نور وغیرہ کی استغراق (ڈوب جانے کی حالت) میں جو کچھ دیکھا، پہلے کہیں اور نہ دیکھا تھا۔ بشارت حسین خوف کے مریض ہیں، اسی خط میں لکھتے ہیں کہ 'پہلے بند کمرے میں بیٹھ سکتا تھا اب اس تصور سے ہی ہول طاری ہوجاتا ہے، اور اب تو یہ حالت ہے کہ صحن میں بھی اس وقت بیٹھ سکتا ہوں جب چاروں طرف لوگ بیٹھے ہوں، ورنہ پہلے مارے ڈر کے نہیں بیٹھ سکتا تھا۔' ان فقروں سے ہی ان کی مزاجی کیفیت (سودا مزاج پر غالب ہے) معلوم ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے مشق تنفس نور شروع کرتے ہی دو روز کے اندر اندر انھیں ڈوب جانے کی حالت میں یہ محسوس ہوا کہ صحراؤں میں تنہا بھٹک رہے ہیں۔''
وزن غائب ہوجانا، ہوا میں پرواز کرنا، فضا میں معلق ہوجانے، دوران مشق اپنے آپ کو بیک وقت دو جگہ پانے، صحراؤں میں بھٹکنے وغیرہ کے تجربات پر جسم مثالی کی بحث میں مفصل گفتگو کی جائے گی کیونکہ یہ ایک دقیع موضوع ہے، فی الحال اس بحث کو ملتوی کردیا گیا ہے۔
انسانی وجود کی عجوبہ کاریاں بھی تحیر خیز ہیں۔ دوسرے جسموں کی طرح انسانی جسم سے بھی ریڈی ایشن یا تابکاری کا سلسلہ برابر جاری رہتا ہے۔ عام برقیاتی اصولوں کے مطابق ہمارے جسم سے جو شعاعیں نکلتی ہیں، ان میں بعض مثبت (پازیٹو) ہوتی ہیں، بعض منفی (نیگیٹو)۔ جہاں تک انسانی جسم کی تابکاری (روشنی کا اخراج) کا تعلق ہے تو وہ وقت بہت قریب ہے کہ سائنسی طور پر اس کی چھان بین کی جاسکے گی۔ آج بھی نازک اور حساس آلات کے ذریعے دماغی لہروں کی پیمائش اور دماغی امراض کی چھان بین کی جاتی ہے، جوں جوں زیادہ مکمل اور ترقی یافتہ آلات ایجاد ہوتے چلے جائیں گے۔
انسانی دماغ و جسم کے براعظم (اس مشت خاک کو براعظم اس کی وسعت و عظمت کے لحاظ سے کہا گیا ہے) کے متعلق بیش از بیش معلومات کا حصول بہت آسان ہوجائے گا۔ مابعدالنفسیات کا نقطہ نظر یہ ہے کہ کائنات کی روح حیات یا عالم گیر توانائی برق پاروں اور دوسرے جوہری اور تحت جوہری اجزا سے مرکب ہے۔ یہ ایٹمی اجزا اپنی مخصوص حرکت یا رفتار کے سبب پانچ قسم کی لہروں پر مشتمل ہیں۔ سنسکرت میں ان لہروں کو ''تت واس'' کہتے ہیں اور یوگ میں ان پانچ لہروں کو زندگی بخش قوت سے تعبیر کیا گیا ہے۔
(1) آکاشا، یعنی آواز کی لہر (2) وایا، یعنی لمس کی لہر (3) تیجا، یعنی بصارت کی لہر (4) آپاس، ذائقے کی لہر (5) پرتھوی یعنی شامے کی لہر۔ آکاش (موج صدا) کی اصل ایتھر ہے۔ اس کا رنگ سفید ہے، جس میں گہری نیلاہٹ جھلکتی ہے۔ وایا کی لہر (موج لمس) ہوا سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کی رنگت سبز و نیلگوں ہے۔ تیجا (باصرہ) کی اصل آگ ہے اور رنگ سرخ۔
آپاس کی اصل ہے پانی اور رنگ سفیدی مائل بنفشی ہے۔ پرتھوی (لہر) خاک سے متعلق ہے جس کا رنگ زرد مانا گیا ہے۔ ان پانچوں لہروں کو کنٹرول کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سانس کی منظم اور باضابطہ مشقوں پر عمل کیا جائے اس طرح لہروں کی رفتار اور قوت بہت بڑھ جاتی ہے۔ جسم انسانی سے نکلنے والی شعاعوں کا رنگ سفید، گہرا نیلا، نیلا سبز، سرخ، سفید بنفشی اور زرد ہوتا ہے۔
سانس کی منظم اور باضابطہ مشق نفس کے تہہ خانے میں ہلچل سی مچا دیتی ہے اور ہمارے ''اندرون'' میں جتنے جذبات اور تصورات مدفون ہوتے ہیں، انھیں ڈرامائی انداز میں شعور کی سطح پر لے آتی ہے۔ بیان کیا جاچکا ہے کہ یہ مشقیں شروع کرتے ہی 90 فیصد کے تخیل میں طوفان برپا ہوجاتا ہے۔
خوف زدہ لوگوں کا خوف بڑھ جاتا ہے، غصہ دبانے والوں کا غصہ بھڑک اٹھتا ہے، زندگی سے بیزار لوگ زندگی سے بیزار تر ہوجاتے ہیں، شاعرانہ ذوق رکھنے والوں کی شعری روح حرکت میں آجاتی ہے، عاشقوں کے جذبہ عشق میں شدت پیدا ہوجاتی ہے، جنسی ہیجان کی مارے ہوؤں کی رگ رگ میں شہوت کی بجلیاں دوڑنے لگتی ہیں۔ الغرص ان مشقوں سے ہر شخص کا باطنی آتش فشاں عارضی طور پر لاوا اگلنے لگتا ہے۔ جذبات کے اخراج کا یہ ذہنی عمل صحت کی بنیادی شرط ہے۔ جس طرح جسم کی صفائی کے لیے جلاب اور انیما کیا جاتا ہے، اسی طرح نفس کی تطہیر کے لیے یہ مشقیں کرائی جاتی ہیں۔
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook.com/shayan.tamseel)