یوریشیاء اور عالمی سیاست کے بدلتے حقائق

کئی معیشت دان تسلیم کرتے ہیں کہ جدید دنیا میں عالمگیریت ایسا محرک ہے جو عالمی معیشت کے لیے سب سے بڑھ کر سود مند ہے۔


اکرام سہگل September 01, 2018

جغرافیائی اعتبار سے یورپ اور ایشیاء ایک ہی قطعہ زمین پر واقع ہیں، برطانوی جغرافیہ داں سر ہیلفورڈ جے مکنڈر نے 1904میں کہا تھا کہ جو یوریشیا کے قلب پر حکمران ہوگا دنیا پر بھی اسی کی حکمرانی ہوگی۔ جو یوریشیا کے قلب اور اس کے اطراف پر اختیار قائم کرنے والا وہی دنیا پر حکمرانی کرے گا۔ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ کا منصوبہ جو چھے اقتصادی راہداریوں پر مشتمل ہے، اس نے عالمی ترقیاتی تناظر کو بحرِ ہند اور بحرالکاہل سے یوریشیاء کے زمینی خطے کی جانب منتقل کردیا ہے۔

یورپ، افریقا اور ایشیاء کے 60سے زائد ممالک کو منسلک کرنے والے اس منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو (بی آر آئی) میں ریل ، سڑک، پلوں اور توانائی منصوبوں کی تعمیر و ترقی کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔

سابق علاقائی تعاون برائے ترقی(آر سی ڈی) کے منصوبوں سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے، اقتصادی تعاون تنظیم نے چھ سابق سوویت ریاستوں کو، سی پیک سے منسلک کردیا ہے جو کہ بی آر آئی کے اہم ترین حصوں میں سے ایک ہے۔ طاقت و اختیار اب یوریشیاء کے خطے میں منتقل ہورہا ہے اور چین دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی قوت بن کر ابھررہا ہے، جس سے کروڑوں افراد کی غربت کا خاتمہ ہوگا اور چین دنیا کی دوسری بڑی عسکری قوت بن جائے گا۔ روس اپنی سابق جغرافیائی حدود کے ساتھ وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں اہم ترین کھلاڑی ہے۔ روس ققنس کی طرح راکھ کے ڈھیر سے ایک بار پھر جی اُٹھا ہے اور تنہا ہی نیٹو کے برابر عسکری طاقت کا حامل ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم نے ''نیو ورلڈ آرڈر'' کے جو خدوخال واضح کیے ہیں اس سے یوریشیئن تصویر ابھرتی ہے۔ سڑکوں اور ریلوے کے وسیع جال، سفری اخراجات میں بچت، بھانت بھانت کے لوگوں، معیشت اور مختلف ثقافتوں کی وجہ سے ارل پہاڑی سلسلے کے مشرق و مغرب میں جو فاصلے پائے جاتے تھے وہ کسی بھی طور مشرقی و مغربی یورپی باشندوں اور ثقافتوں کے مابین پائی جانے والی دوری سے زیادہ نہیں۔

کئی معیشت دان تسلیم کرتے ہیں کہ جدید دنیا میں عالمگیریت ایسا محرک ہے جو عالمی معیشت کے لیے سب سے بڑھ کر سود مند ہے۔ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کی وجہ سے عالمگیریت کے باعث مشکلات کا سامنا ہے۔ 1947 ہی سے پاکستان کو دوطرفہ خطرات کا سامنا رہا ہے، اس کی ایک جانب تقسیم ہند کا مخالف حریف ملک بھارت اور دوسری جانب یکساں طور پر مخالف اور اس کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری افغانستان تھا۔ گزشتہ ستر برسوں کے دوران اس صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی، گزشتہ دہائی میں پاک فوج کی قربانیوں اور محنت کے نتیجے ہی میں ہم آج ایک آزادانہ مؤقف اپنانے کے قابل ہیں۔

سرد جنگ کے دوران باہمی بقا کی بنیاد پر پاک امریکا اتحاد ہوا۔ اگرچہ ناگزیر حالات کی وجہ سے سیٹو اور سینٹو کی رکنیت نے پاکستانی خارجہ پالیسی کو بہت محدود کردیا۔ اس کے باوجود صرف ایک دہائی کے اندر ہی پاک امریکا تعلقات میں 1965کی جنگ کے دوران کشیدگی پیدا ہوئی جس میں امریکا غیر جانب دار رہا۔ 1971میں بھی جب پاکستان ٹوٹ رہا تھا امریکا نے سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ نہیں کیا۔ 80کی دہائی اور نو گیارہ کے بعد افغان جنگ کی وجہ سے امریکا کو جب پاکستان کی ضرورت پڑی تو یہ تعلقات بہتر ہوگئے اور 1989اور 2008میں امریکا نے اپنے مقاصد حاصل کرلیے تو کبھی پابندیاں عائد کیں تو کبھی بے رُخی دکھائی۔

پاکستان ایشیا کے مرکزی علاقے اور خطے کے دوسرے ممالک اور طاقتوں کے مابین پُل کی حیثیت رکھتا ہے، علاقائی استحکام پاکستان کی اہم ترین ذمے داریوں میں شامل ہے اور ہماری خارجہ پالیسی اس حوالے سے ہمارے عزم کی عکاس ہونی چاہیے۔ وسطی اور جنوبی ایشیاء کے چار بڑے ممالک؛ چین ، افغانستان، بھارت، ایران اور تیل سے مالا مال خلیج سے ملحق سرحدوں کے ساتھ جغرافیائی طور پر اہم یہ علاقہ قدرتی و انسانی وسائل سے مالا مال اور ترقی کی بے پناہ صلاحیت کا حامل ہے۔

خطے کے بدلتے سیاسی حقائق کے پیش نظر، غوروفکر کے بعد (عوامی و ادارتی سطح پر بحث کرکے) اتفاق رائے سے بنیادی قومی مفادات سے متعلق، قومی سلامتی پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ خطے کی غیر یقینی صورت حال نئے اتحاد اور ممالک کے باہمی تعلقات کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوگی۔ ہمیں اپنی غیر جانب داری برقرار رکھتے ہوئے پڑوسی ملک ایران اور دیرینہ دوست سعودی عرب اور اسی طرح دیرینہ اتحادی امریکا اور روس سے بننے والے تعلقات میں توازن برقرار رکھنا ہوگا۔ یوریشینزم کا تصور علاقائی تعلقات کو دور کے تعلقات پر ترجیح دینے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم ایک ایسا پلیٹ فورم ثابت ہوسکتا ہے جو استحکام کے لیے پاکستان اور بھارت کے مابین بحرانوں کو حل کرنے کی راہیں فراہم کرتا ہے۔

یوریشیئن تصور کے تحت اقتصادی قوت کو یکجا کرنے کی عالمی حکمت عملی اس بات کی متقاضی ہے کہ معروضیت کے ساتھ عالمگیریت اور قومی ریاستوں کی کم ہوتی اہمیت پر غور کیا جائے۔ یہ مختلف منظر نامہ یک قطبی دنیا یا متحدہ عالمی حکومت کا تقاضہ نہیں کرتا بلکہ ایسے مختلف بین الاقوامی زونز فراہم کرتا ہے جس میں قومی ریاستوں کے بجائے براعظمی سطح کی کنفیڈرشنز یا ''جمہوری سلطنتیں'' قائم ہوں، جہاں بڑے پیمانے پر داخلی خود مختاری حاصل ہو۔ یوریشیئن تصور عالمگیریت یا کثیر القطبی دنیا کا متبادل ہے اور اس وقت عالمی سطح پر جاری عمل کے ذریعے جدید تاریخ کی سمت متعین کرنے میں بنیادی کردار ادا کررہا ہے۔

سوویت یونین کے سقوط اور نوگیارہ سے جنم لینے والی امریکا کی ''تہذیبوں کا تصادم'' کی حکمت عملی نے عالمی سطح پر گروہ بندی اور جنگوں کی ایک ایسی لہر کو جنم دیا ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پاکستانی طالبان کو شکست دینے، کراچی اور قبائلی علاقوں سے ان کے خاتمے، پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب، شدت پسندی کے انسداد کے مختلف پروگرام اور دہشت گردوں کو مالی معاونت کی بیخ کنی جیسے اقدامات کے بعد، ہمیں دولت اسلامیہ (آئی ایس) کی صورت میں ابھرنے والی شدت پسندی کے خطرات کی روک تھام کے لیے، افغانستان میں امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

1979کے ایرانی انقلاب کے بعد سینٹو بے مصرف ہوگیا اور اب صورت حال برعکس ہوچکی ہے۔ اگرچہ سعودی عرب اور گلف تعاون کونسل کے ممالک عسکری اعتبار سے اتنے کمزور نہیں، جتنے 50برس قبل تھے بلکہ وہ یمن میں اپنی قوت آزما رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود انھیں دفاعی تعاون کی ضرورت ہے۔ کیا امریکا اپنے اسرائیلی اور بھارتی شراکت داروں کے ساتھ مل کر انھیں یہ تحفظ فراہم کرسکتا ہے؟ تین میں سے دو بڑے غیر عرب مسلم ممالک ایران اور ترکی سینٹو بنا سکتے تھے لیکن ماضی میں سینٹو کے بنیادی ترین ان ممالک کو آج امریکی پابندیوں کا سامنا ہے۔ اتفاق یہ ہے کہ پاکستان سمیت یہ تینوں ممالک طاقتور فوج رکھتے ہیں جو خطے میں انتشار کے باوجود ان کی سالمیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔

جاپان اور بھارت کے ساتھ امریکا کے عسکری روابط بحرہند اور بحرالکاہل میں چین کو محدود کرنے کی امریکی حکمت عملی کو واضح کرتے ہیں۔ کیا ایشیا میں جاپان اور 1962کے تجربے کے بعد بھارت چین سے مقابلے کی کوشش کریں گے؟ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ کیا امریکی عوام ایشیاء میں ہونے والی کسی بھی زمینی جنگ میں اپنی فوج اتارنے کی حمایت کریں گے؟اور وہ بھی تب جب خاص طور پر سینٹو ''برعکس'' ہوچکا ہے اور چینی و روسی افواج میدان میں ہیں؟ جب امریکا کا چھٹا اور ساتواں بیڑہ بحر ہند اور بحرالکاہل میں چین اور روس کا راستہ نہیں روک سکیں گے تو انھیں محض تفریحی مقاصد ہی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بی آر آئیز یوریشیاء کی زمینی علاقوں سے فائدہ اٹھا کر نئے معاشی اور سیاسی حقائق کی تشکیل کررہے ہیں۔

(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں