آزادی اظہار اور توہینِ مذہب
اسلام دشمنی میں گیرٹ ویلڈرز نے اب تک جو بیانات دیے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔
جون کے وسط میں انتہائی دائیں بازوکے ڈچ سیاستداں گیرٹ وائلڈر نے نیدر لینڈز کی پارلیمنٹ میں اس سال کے آخر تک ایک مقابلہ منعقدکرانے کا جو اعلان کیا اسے منسوخ کردیا گیا ہے، یہ مقابلہ گستاخانہ خاکے بنانے کا تھا۔ اس مقابلے کو اسی کارٹونسٹ بوش فاسٹن نے جج کرنا تھا، جو 2015ء میں ٹیکساس میں ہونے والے ایسے ہی ایک متنازعہ مقابلے کا فاتح قرار پایا تھا ۔
بوش فاسٹن البانیہ کے ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا لیکن اپنی نوعمری میں مرتد ہوگیا۔ نیدر لینڈ کی انسداد دہشتگردی کی ایجنسی کی مکمل حمایت اور تعاون سے گیرٹ ویلڈر نے اپنی جماعت پارٹی آف فریڈم کی طرف سے اس مقابلے کے انعقاد کا اعلان کرکے اظہار رائے کے نام پر ایک بار پھر مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچائی، جس کے بعد اس سوال کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے کہ آزادی اظہارکی حد آخر ہے کیا؟ 1919ء میں امریکی سپریم کورٹ نے توہین مذہب کے ایک کیس کا فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اظہاررائے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ کسی پُرہجوم تھیٹر میں آگ لگا دی جائے۔
اس فیصلے کے ٹھیک ایک صدی بعد آج میں قلم ہاتھ میں تھامے بیٹھی یہ سوچ رہی ہوں کہ وقت دنیا میں ظاہری تبدیلیاں کرتا ہوا کتنا آگے نکل گیا لیکن افسوس ! سوچ نہ بدل سکی۔ آج گیرٹ وائلڈر کا یہ اعلان بھرے تھیٹر میں آگ لگانا نہیں تو اورکیا ہے؟ وائلڈر کے اس اعلان پر صرف سماجی اور روایتی میڈیا پر ہی نہیں بلکہ دنیا کی بے شمار سڑکوں پر بھی کہرام مچ گیا ہے، جو موجودہ عالمی تناظر میں کوئی نیک شگون نہیں ۔
گیرٹ وائلڈرکی شہرت صرف ان کی مکروہ ماہرانہ سیاسی چالیں ہی نہیں بلکہ اسلام دشمنی کا ایک پورا باب بھی ہے ۔ ان کے اس چہرے کوکئی سال سے نیدر لینڈ کے اندر اور باہر سخت ناپسند کیا جارہا ہے۔ گیرٹ وائلڈر کے اس اعلان کو اگرچہ نیدرلینڈ کے وزیر اعظم نے بھی ناپسند کرتے ہوئے اسے اشتعال انگیز ہی قرار دیا تھا لیکن دوسری طرف آزادی اظہار رائے کے اصول کا دفاع کرتے ہوئے اس مقابلے کی اجازت بھی دے دی ۔ یوں آزادی اظہار جیسی خوبصورت چیز ایک دہکتی ہوئی آگ بن گئی جس سے فی الوقت صرف تعصب اور نفرت کا دھواں اٹھ رہا ہے۔
ماضی میں یورپ کے بیشتر ممالک میں توہین مذہب کی اجازت نہ تھی اور یہ ایک بڑا جرم سمجھا جاتا تھا، لیکن2015ء میں آزادی اظہارکے نام پر شروع ہونے والی ایک مہم کے نتیجے میں یہ قانون ختم کردیا گیا۔ نیدرلینڈز نے تو 2012ء میں ہی اس قانون سے جان چھڑالی تھی۔ یہاں توہین مذہب کا قانون 1930ء میں بنایا گیا جو محض نصف صدی زندہ رہ کر آزادی اظہارکی لحد میں اتار دیا گیا۔ نیدرلینڈز کی اس وقت کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ آنے والے وقتوں میں اب اس قانون کی مزید ضرورت نہیں۔انھوں نے شاید درست کہا کیونکہ یورپ کی نئی ضرورت تو اسلام دشمنی ہے، جس کی تکمیل کے لیے گریٹ ویلڈر سمیت بے شمار چہرے سالوں سے کمر بستہ ہیں۔
اسی اسلام دشمنی میں گیرٹ ویلڈرز نے اب تک جو بیانات دیے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ انھوں نے قرآن پاک پر پابندی لگانے کی حمایت کی۔ مسلمانوں کی امیگریشن کے خلاف آواز بلند کی۔ نیدرلینڈز میں جب عورتوں کے حجاب پر پابندی لگی تو گیرٹ نے ٹوئیٹ کیا کہ یہ نیدرلینڈ سے اسلام کی رخصتی کا ایک بڑا قدم ہے۔ ساتھ ہی موصوف مسجدوں کو بند کرنے اور نئی مسجدوں کے قیام کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ اسرائیل میں 2008ء میں ہونے والی کانفرنس'' فیسنگ جہاد '' میں انھوں نے اسلام کے خلاف بہت ہرزہ سرائی کی۔
2008ء میں ہی انھوں نے انتہائی متنازعہ فلم'' فتنہ'' بنائی۔ یہ سترہ منٹ کی مختصر فلم تھی۔ اس میں قرآن پاک کی آیتوں کے غلط تاویل پیش کرکے اسکو تشدد پر اکسانے والی کتاب ثابت کیا۔ فلم میں دکھایا کہ اسلام عالم گیریت اور ہم جنس پرستی کے خلاف ہے اور تشدد کا باعث ہے۔ اس فلم کا مواد اتنا متنازعہ تھا کہ امریکا، برطانیہ اورکئی یورپی ممالک نے اس کے نشرکرنے پر پابندی لگادی۔ ورنہ اظہاررائے کی یہ آزادی ایک بڑے فساد کا موجب بن جاتی۔ گیرٹ وائلڈر پر نیدرلینڈز کی عدالتوں میں توہین مذہب کے الزام پر کئی مقدمات بھی چلے، جرم ثابت ہوا لیکن وہ کسی سزا کے حق دار قرار نہ پائے۔
یہ ساری تفصیلات جوں جوں میری نظروں سے گزریں، یورپی معاشرے میں پلنے والے گیرٹ وائلڈر جیسے ناسوروں کی منافقت مجھ پر آشکار ہوتی چلی گئی۔ یہ ایک طرف تو آزادی کے حامی ہیں تو دوسری جانب قرآنِ پاک پر پابندی لگاتے ہیں۔ شخصی آزادی کا ڈھول پیٹتے ہیں لیکن حجاب پہننے پر ٹیکس لگاتے ہیں ۔ عالم گیریت کے حامی کہلاتے ہیں لیکن مسلمانوں کو یورپ کی سرحد کے پار دھکیلنے کے غم میں مبتلا ہیں۔
خود کو دنیا کا نجات دہندہ قرار دیتے ہیں، انتہاپسندی کے خلاف محاذ تیار کرتے ہیں لیکن اسلام کے خلاف اپنے انتہا پسند نظریات کو کسی گنتی میں نہیں لاتے۔ گیرٹ وائلڈر تو اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی بری شہرت رکھتے ہیں۔ وہ نیدرلینڈز میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے بہت نالاں ہیں ۔ فرماتے ہیں ''ایک صدی قبل یہاں صرف پچاس مسلمان تھے اور اب ایک ملین سے بھی زیادہ ہیں۔ یہ تعداد تو نیدر لینڈز کی فوج سے بھی دُگنی ہے'' لیکن وہ نہ جانے کیوں ان قربانیوں کا اعتراف کرنے میں ہچکچاتے ہیں جو یورپ میں بسنے والے مسلمانوں نے یورپ کے سنہرے مستقبل کے خواب کی تکمیل میں مقامی باشندوں کے ساتھ مل کر دیں۔
مسلمانوں کے خلاف دنیا بھر کے انتہا پسند نظریات ہمیشہ ہی متحد رہے ہیں۔اب بھی یہ اسلام کو زِک پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ خاکوں کے مقابلوں کا انعقاد اسی پست سوچ کا کارنامہ ہے۔ اس کے سرپرست گریٹ وائلڈر اسرائیل کی محبت میں بھی ڈوبے ہوئے ہیں۔ وہ گزشتہ پچیس سال میں چالیس بار اسرائیل کا دورہ کرچکے ہیں۔
نیدرلینڈ کے ٹی وی چینل''نیدرلینڈز ٹو'' کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل اور اس کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد گریٹ کی سیاسی جماعت''پارٹی آف فریڈم'' کی بھاری مالی اعانت کرتی ہے اور اسلام مخالف اقدامات پر اس کی کمر ٹھونکتی ہے۔ لہٰذا یہ سمجھنا کہ ان مقابلوں کا انعقاد گریٹ کی اپنے دماغ کا خلل ہے، صحیح نہیں بلکہ اس کے حامی تمام لوگ اس منصوبے کا حصہ ہیں خواہ ان کا تعلق دنیا کے کسی بھی خطے سے ہو۔
دنیا کے بیشتر لوگ اس وقت یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر یہ خاکے بنانے میں قباحت کیا ہے؟ ان سے میرا بس یہ سوال ہے کہ دنیا کے بہت سارے ملکوں میں قومی پرچم جلانے پر بھاری جرمانے اور قید کی سزائیں کیوں متعین کی گئی ہیں؟ آخر قومی پرچم ایک کپڑے کا ٹکڑا ہی تو ہے، لیکن اصل بات تو اس جذباتی وابستگی کی ہے جوکسی بھی قوم یا مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے دلوں کوگرم رکھتی ہے۔ ایسے حساس معاملات کو آزادی اظہار کے نام پر چھیڑنے سے پہلے ہزار دفعہ سوچنا چاہیے کہ اس کے نتیجے میں اگرکسی پر ہجوم تھیٹر میں آگ لگ گئی توکیا ہوگا؟
مسلمانوں کے مذہبی عقائد اور جذبات پر حملہ کرنے کا یہ پہلا موقع نہیں بلکہ ماضی میں بھی کئی بار خاتم النّبیینﷺ کی شخصیت پر حملے کے مقابلے ہوتے رہے ہیں، ان کا مقصد آزادی اظہارکی آڑ میں اسلام مخالف نظریات کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے مسلمانوں میں غم وغصے کی لہر پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں۔اس گھناؤنے مقصد کی تکمیل میں اس بارگیرٹ وائلڈر نے اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا ہے۔
توہین مذہب پر مسلمانوں میں پیدا ہونے والا ردعمل فطری ہے۔ دنیا کے ہر الہامی اور غیرالہامی مذہب کے پیروکار ہمیشہ ہی اپنے اپنے مذہبی جذبات مجروح ہونے پر سیخ پا ہوتے چلے آئے ہیں۔گیرٹ کے اس اعلان کے بعد تو اب آزادی اظہار کے حوالے سے پوری دنیا میں قانون سازی کی اہمیت کئی ہزار گنا بڑھ چکی ہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ شکر ہے معاملہ ٹل گیا۔ تاہم لازم ہے کہ ایسے قوانین مرتب کیے جائیں جو اظہار رائے کے نہ تو مکمل حامی ہوں اور نہ کڑے نقاد بلکہ باہمی احترام کی فضا قائم کریں تاکہ اشتعال انگیز اقدامات سے دنیا کو بچایا جا سکے۔