پس پردہ صدارتی انتخابات

صدارتی انتخابات سے ایک نئی صف بندی سامنے آئی ہے ۔ دایاں اور بایاں بازو سب ثانوی ہوچکے ہیں۔


جاوید قاضی September 01, 2018
[email protected]

چار ستمبرکو ہونے والے صدارتی انتخابات نے ہماری سیاست کے اندر رونما ہونے والی تبدیلیوں کو بے نقاب کردیا ہے۔ وہ نشیب و فراز، وہ باتیں فسانے اور زمانے پھرسے تازہ ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ بات اتنی بھی سادہ نہیں کہ اس کو صرف حزب اختلاف اور حکومت کے تناظر میں دیکھا جائے اور نہ ہی اتنی پختہ کہ اس کو جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں میں تقسیم کیا جائے یا اس پر دائیں بازو یا بائیں بازو کی سیاست کے خول چڑھائے جائیں۔

ایک طرف مفادات کے پینترے ہیں اور دوسرے اور تضادات ۔ جس نے کچھ ایسی صورتحال پیدا کردی ہے کہ یوں کہیے کہ '' یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے'' ۔

زرداری صاحب کیا ہیں؟ وہ سیاست کی ریاست کے سنجیدہ طالب علم ہیں۔ ان کی بنیادی وکٹ اقتدارکو حاصل کرنا ہے۔ جب اصول ونظریات اقتدارکے آڑے آتے ہیں تو ہرچیزاس کے لیے ثانوی ٹھہرجاتی ہے اور اقتدار اولین ترجیح ۔ اقتدار میں آنے کے لیے وہ اپنے کمرشل امپائرکے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں، یوں کہیے کہ وہ بھٹوکی بنائی ہوئی پارٹی کو اپنے مفادات کی خاطر اس مقام تک لے آئے جہاں سیاست کا مقصد فقط مال کمانا ہے ۔

بھٹو اور زرداری کے بیچ بینظیر بھی تھیں ۔ وہ اپنے باپ کے طرح سیاسی نظریات رکھتی تھیں، مگر سیاست سے مال بنانے کا نظریہ بھی رکھتی تھیں ۔ بینظیر اپنے سیاسی نظریات کو بہرحال اولین ترجیح دیتی تھیں اوران ہی نظریات کی خاطر اپنی جان بھی گنوا بیٹھیں۔ بارہا بینظیر اور میاں صاحب سیاست کے میدان میں آمنے سامنے بھی رہے۔ ایک اسٹیبلشمنٹ کا ڈارلنگ تھا اور دوسرا اس کا حریف۔

میاں صاحب آج کے پس منظر میں کیا ہیں؟ کل وہ جو تھے اس کوکچھ وقت کے لیے بھول جائیں لیکن آج میاں صاحب اپنے سیاسی نظریات کو اپنے ذاتی مفادات پر ترجیح دے رہے ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ میں جوکام ولی خان اور ان کے جیسے لیڈران نے کیے وہی کام آج میاں صاحب کرنے جارہے ہیں، ان کے ساتھ اس اتحاد میں ماضی کے سرخے بھی ہیں اور آج کے اعتدال پسند بھی۔ بنیادی طور پر میاں صاحب اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کوکم کرنا چاہتے ہیں۔

کل جو نواز شریف تھے اس ڈگر پر آج عمران خان ہیں، جن کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے، لیکن خان صاحب نے ''تبدیلی'' کے ایجنڈے پر اپنی ایک جگہ بنائی ہے، بالکل اسی طرح جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر بنائی تھی، ہاں مگر ان کو بھی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی، لیکن وہ حمایت زیادہ دیر نہ چل سکی اور پھر پی این اے نے وہی کام کیا جو ماضی میں نواز شریف بینظیرکے خلاف کرتے رہے۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری داخلی سیاست میں امریکا کی بہت مداخلت رہی ہے اور وہ اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے مختلف وقتوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت کرتا رہا ہے ۔ پی این اے کی تحریک کو امریکا کی بھرپور آشیر واد حاصل تھی اوریہ سرد جنگ کا زمانہ تھا ۔ بھٹوصاحب بے چارے اس تناظرکو نہ سمجھ پائے اور بلآخر فوج واپس اقتدارمیں آگئی۔

ضیاء الحق کو اقتدار سے الگ کرنے کا ایجنڈا بھی امریکا کا ہی تھا اور ساتھ ہی جمہوریت کا پاکستان میں آنا بھی ۔ ضیاء الحق کے اقتدار میں آنے سے فوج کے اندر ایک بے سکونی تھی اور بینظیر کا این آر او بھی امریکا نے کرایا تھا ۔ اس مخصوص صورتحال میں جب امریکا 9/11 کے حوالے سے مشرف کے دور کا اتحادی تھا ، آخرکار اپنے ایجنڈے کے تحت اس نتیجے پر پہنچا کہ اب پاکستان میں آمریت ختم ہونی چاہیے اور جمہوریت کو موقع ملنا چاہیے۔

ہمارے پاس این آر او کو غلط تشریح دی گئی ہے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سیاستدانوں پر چلنے والے کیسز بہت حد تک سیاسی پس منظر رکھتے ہیں ورنہ کیا وجہ ہے یا ہو سکتی ہے کہ کرپشن کے کیسز افسر شاہی اور بالخصوص عسکری افسر شاہی پر نہیں بنائے جاتے اور یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ امریکا کی پاکستان مداخلت جو آمریت کو لانے کے حوالے سے تھی، اس کا زاویہ کچھ اور تھا اور ان کا اثرورسوخ جمہوریت کو بحال کرنے کے حوالے سے کوئی اور زاویہ رکھتا تھا۔

زرداری صاحب کا زر ان کے لیے تو ہے مگر پارٹی اور بلاول کے مستقبل اور ان لوگوں کے لیے جو ایک نظریہ رکھتے ہیں، ماڈریٹ سوچ رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو جمہوری قوت سمجھتے ہیں،ان کے لیے باعث زحمت بن چکا ہے۔ ایسے حالات میں بینظیر جلاوطن تو ہوجاتی تھیں لیکن نہ گھٹنے ٹیکتی تھیں اور نہ ہی ہتھیار پھینکتی تھیں۔

آج یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آصف زرداری کے پاس سندھ کی حکومت ہے، اس کے برعکس میاں صاحب اور ان کی پارٹی کوکچھ نہ مل سکا ۔ زرداری صاحب اس وقت سیاست میں ریت کی دیوار پرکھڑے ہیں ۔ پیپلزپارٹی ایک نظریاتی پارٹی تو ہوسکتی تھی، لیکن اس کی بنیادوں میں الیکٹیبلز ہیں اگر زرداری صاحب سیاسی طور پر عمران خان کو تنگ کریں گے تو ان کی پارٹی کے اندر فاروڈ بلاک بن جائے گا اور اگر اس مرتبہ پیپلزپارٹی حکومت سے گئی تو دوبارہ ابھرنہ پائے گی۔

یہ تاریخ کا ستم ہے کہ شہیدوں کی پارٹی پر جو جمہوری قوتوں کا ہر اول دستہ تھی آج اتنے تذبذب کا شکارکیوں ہے؟ یہ بھی تو حقیقت ہے کہ اقتدار آنے جانے والی چیز ہے ، سیاست میں اصول ہوتے ہیں جو تاریخ میں لکھے جاتے ہیں ۔ کل الیکشن کے زمانوں میں ووٹ لینے کے لیے بلاول کو کشکول دے کر بھیجا گیا اورآج پارٹی کے فیصلے زرداری صاحب کر رہے ہیں ۔

صدارتی انتخابات سے ایک نئی صف بندی سامنے آئی ہے ۔ دایاں اور بایاں بازو سب ثانوی ہوچکے ہیں۔ اب صرف یہ ہے کہ جو پاکستان میں سول ملٹری تعلقات میں عدم توازن رہا ہے اور سول پاورکمزور ہوئی ہے یہ سب اسی پس منظرکا ٹکراؤ ہے ۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی آخری حد تک کوشش یہ بھی ہے کہ انھیں عمران خان کے ساتھ تعاون کرکے ٹھہرنے کا موقع مل جائے۔ وہ سینیٹ کے انتخابات میں ساتھ تھے پھر نہ رہے، پیپلز پارٹی پھر حزب اختلاف کے قریب ہوئی اب پھر وہاں سے دوبارہ ہٹنا شروع ہوگئی ہے۔ خان صاحب کے لیے سندھ کوفتح کرنا اب کوئی معرکہ نہیں اور پیپلزپارٹی کو پیک اپ کروانا بھی کچھ مشکل نہ رہا ۔ پیپلزپارٹی کا تحفظ اس میں ہے کہ وہ نظریاتی سیاست میں پناہ لے ۔ دس سال حکومت کرلی اور اربوں روپے بھی بنالیے اب پارٹی کو نظریہ چاہیے نیا خون چاہیے نوجوان طبقہ چاہیے اور اس کے لیے تمام فیصلے بلاول پر چھوڑ دینے چاہیئیں۔

پی ایم ایل نون ایک مضبوط اتحاد بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے، جب کہ چارٹرآف ڈیموکریسی کا دوسراحصہ یعنی پیپلزپارٹی اس وقت تنہا کھڑی ہے، وہ نہ اب اس پار ہے نہ اس پار، اگر یہ بحران زیادہ عرصہ چلا تووہ پارٹی اور آگے آنے والی قیادت کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوگا۔

صدارتی انتخابات کے اس سلسلے نے کچھ کیا یا نہیں کیا لیکن پاکستان پیپلزپارٹی کی اخلاقی طور پر جمہوری قوت ہونے والی حیثیت کو شدید نقصان ضرور پہنچایا ہے۔ بلاول بھٹو جو الیکشن کے دنوں میں پیش پیش تھے اور زرداری پس پردہ تھے آج صورتحال بالکل الٹ ہے یعنی آج زرداری صاحب آگے ہیں اور بلاول بھٹو پیچھے جوکہ اصل حقیقت ہے۔ پارٹی کے فیصلے اومنی گروپ کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے جاتے ہیں نہ کہ پارٹی کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ۔

بہت واضح انداز میں یہ نظر آرہا ہے کہ صدارتی انتخابات میں اپوزیشن صدارتی امیدوارکے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت کر رہی ہے ، لیکن مسئلہ یہاں یہ ہے کہ پیپلزپارٹی صدارتی امیدوارکے انتخاب کے حوالے سے بھاگ رہی ہے جس طرح اصغرخان نے پی این اے کے بھٹوکے ساتھ آخری مذاکرات میں رکاوٹیں ڈالیں یا ایسا کہیے کہ پیپلزپارٹی صدارتی انتخابات میں اپنا صدر منتخب کروانا ہی نہیں چاہتی، تاکہ اومنی گروپ کے مفادات کوکوئی نقصان نہ پہنچے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں