تبدیلی کے ثمرات
ایک سال تک جمع ہوتے رہنے والے کچرے کو پھینکنے اور گندگی صاف کرنے میں بھی کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔
جو لوگ اس کی پارٹی میں اور حکومت میں اس کے قریبی ساتھی ہیں ان کا تو عمران خان یعنی وزیراعظم سے اکثر ملنا ہوتا ہو گا لیکن جو دوست اور ملنے جلنے والے گزشتہ بیس سال سے میرے ڈرائنگ روم میں لگی میری تصویر احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی، ذوالفقار علی بھٹو، پروفیسر عبدالسلام اور عمران خاں کے ساتھ فریموں میں لگی دیکھ چکے ہیں پوچھتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خاں سے اس کے PM بننے کے بعد میری کب ملاقات ہوئی تھی۔ میں کیا جواب دوں کہ عمران خاں کی میرے ساتھ یہ تصویر تو لاہور جمخانہ میں اس روز کی ہے جب میں نے اسے اپنے اسکول کے کلاس فیلو اور ڈاکٹر قدیر خاں کے Sucessor ڈاکٹر جاوید ارشد مرزا کو دیے ہوئے ڈنر پر بلایا تھا اور تب کی یہ تصویر میری اس سے پہلی یا آخری ملاقات کی نہیں جب کہ ڈنر والے دن تو عمران سابق کرکٹر اور میں لاہور کا ایڈیشنل کمشنر تھا اور میں جاوید اقبال کارٹونسٹ کے ہمراہ عمران کو لاہور جمخانہ لانے کے لیے Pick کرنے گیا تھا۔
میں نے اپنے کئی کالموں میں اس کی فلاحی کاموں میں سرگرمیوں اور شوکت خانم کینسر اسپتال کا ذکر کیا تھا اور جب میری پہلی کتاب ''دیواروں پہ لکھتے رہنا'' سنگ میل پبلشرز نے شائع کی تو میں نے اس کے اسپتال والے آفس جا کر اسے کتاب پیش کی میرا یہ SKM کا دوسرا وزٹ تھا۔ پہلی بار جب کہ اسپتال تیار لیکن Functional نہیں ہوا تھا۔ ایک آسٹریلین TV کی مختصر ٹیم اور عمران کے ہمراہ میرا پہلی بار اسپتال جانا ہوا تھا۔ اس دوران عمران خاں نے ٹی وی ٹیم کو اسپتال کے تمام شعبے دکھائے اور وہ لوگ ان کو کیمروں میں محفوظ کرتے رہے۔
پروفیسر اور ہر دلعزیز فنکار دلدار پرویز بھٹی اسپتال میں فنڈ ریزنگ پروگرام میں اپنی مزاح سے بھر پور گفتگو سے Donor سامعین کا دل لبھا رہے تھے۔ ہم لوگ بیگم کے ہمراہ عمران کے ساتھ بیٹھے تھے۔ اس پروگرام کے بعد Donor حضرات نے دل کھول کر اپنا حصہ ڈالا۔ بھٹی صاحب اس کے کچھ عرصہ بعد اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اس پروگرام میں دلدار کی حاضرین سے عطیات کے لیے اپیل اسپتال کی کارکردگی کا ذکر اور ڈنر شامل تھا۔
عمران نے کوئی خطاب نہ کیا، صرف موجود رہا اور آخر میں شکریے کے چند کلمات کہے۔میں نے بعد میں تحریر کیے کالموں میں بھی کبھی اس کے سیاسی عزائم کا ذکر نہیں کیا۔ لیکن صحت اور تعلیم کے سلسلے میں خدمات کو ہمیشہ سراہا۔
پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو شروع شروع میں عمران اس کا ہم نوا تھا۔ اس نے اسپتال کے اندر Endowment Fund کے نام سے ایک تقریب کا اہتمام کیا جس کے مہمان خصوصی جنرل پرویز مشرف تھے۔ ان کی والدہ اور بیگم کے علاوہ گورنر خالد مقبول بھی موجود تھے۔ میں اپنی بیگم سمیت موجود تھا۔ مشرف اس کی والدہ اور خالد مقبول نے بھی ڈونیشن کا اعلان کیا۔ ان کے علاوہ دیگر مدعوئین نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ عمران خان نے عبدالستار ایدھی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جب بھی فنڈ ریزنگ کی اپیل کی خدا کے بندوں نے کبھی بھی بخل سے کام نہیں لیا۔
عمران خان پر قلم اٹھاتے وقت میرے پیش نظر صرف یہ چند چیزیں رہیں، اول اس کا بحیثیت کرکٹر پاکستان کے لیے ورلڈ کپ جیتنا، دوم صحت اور تعلیم کی بہتری کے لیے اسپتال اور یونیورسٹی کا قیام، سوم اس کی مستقل مزاجی اور عزم و استقامت اور چہارم ایمانداری کی شہرت۔ سیاست میں اگرچہ اس نے بہت عرصہ قبل قدم رکھ دیا تھا لیکن مجھے اس کی اس فیلڈ میں سنجیدگی پر ہمیشہ شک رہا اور یہ شک اس بنا پر تھا کہ گزشتہ ستر برس سے ملک پر فوج کے علاوہ جن سویلنز نے حکومت کی وہ وڈیرے گدی نشین اور خاندانی قابضین تھے جن کی کرپشن اور اقربا نوازی کی کہانیاں زبان زد عام تھیں اور یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے نہ صرف لوٹا کریسی کو رواج دیا تھا بلکہ نیچے سے اوپر تک کرپشن کے بیج بوکر اس کی فصلوں کے توسط سے حکمرانی کو دوام دیا تھا۔ انھوں نے نہ صرف بعض اینکرز اور صحافیوں کو خرید رکھا تھا بلکہ بیورو کریسی کو جی حضوریوں کی کلاس میں تبدیل کر دیا تھا۔
زرداریوں اور شریفوں کی باریاں لینے کی سیاستگری پر کسی کو شبہ نہ تھا۔یہ پہلی بار دیکھنے سننے میں آیا کہ اگرچہ عمران خان کی PTI کے اسمبلیوں میں اکثریت حاصل کرنے کے امکانات بہت کم تھے لیکن ماسوائے کرپٹ مافیا کے ملک کا نوجوان طبقہ نہ صرف پر امید تھا بلکہ تبدیلی کے لیے شدید خواہش رکھتا تھا۔
جب کہ تعلیم یافتہ اور محب وطن طبقہ Now or Never تک کہنے پر مجبور ہو چکا تھا۔ شریف خاندان جو کئی دہائیوں سے اقتدار پر قابض تھا نہ صرف خود دم بخود بلکہ ان کے سپورٹر ڈیڑھ ماہ سے سکتے کی حالت میں ہیں۔ عمران خان دو دہائیوں سے سخت جدوجہد کے دوران ناتجربہ کاری کی وجہ اور امید بیم کے عالم سے دوچار ہونے کی وجہ سے بقول مخالفین کے اپنی تقاریر اور گفتگو میں بونگیاں بھی مارتا رہا لیکن اب اس کا اصل امتحان شروع ہوا ہے۔ بونگیاں مارنے اور بلنڈر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
اب دشت خار میں قدم سوچ سمجھ کر رکھنے کی ضرورت ہوگی۔ دامن کو آلودگی اور کانٹوں سے بچا کر چلنا ہوگا۔ مخالفین منتظر ہیں کہ بات کا بتنگڑ بنانے کا موقع ملے۔ اگر مخالفین کو صرف اقتدار کی ہوس اور طمع ہے تو الگ بات لیکن ملک و قوم سے محبت ہے تو پہلی بار اقتدار میں آنیوالی سیاسی جماعت کو اپنے ایجنڈے اور پالیسیوں پر عملدرآمد کے لیے مناسب موقع ضرور دینا چاہیے۔ ایک سال تک جمع ہوتے رہنے والے کچرے کو پھینکنے اور گندگی صاف کرنے میں بھی کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔ کئی دہائیوں کی برائیوں اور بدکاریوں کو Reverse کرنے میں چند سال تو درکار ہونگے۔ زیادہ نہیں تو چھ ماہ تو دینے ہونگے کہ بہتری ہوتی نظر آنے لگے۔
وہ جو قبل از وقت واویلا مچانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں خدا خوفی کریں، تبدیلی کے ثمرات کے لیے بے صبری کا مظاہرہ احمقانہ فعل کہلائے گا۔