اصلی ڈرامہ
یہ افسانہ اس کی ایک بہت بے مثال اور فنکارانہ عکاسی کرتا ہے۔
فنون لطیفہ اور ادب کی کچھ اصناف ایسی ہیں جو بیک وقت خاص و عام میں مقبول ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے یہ ازل سے اسی طرح تھیں مگر تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو ان میں سے بیشتر کی عمر بہت کم نکلتی ہے یا یوں کہیے کہ ہمارے پاس انھیں پہنچے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ ایسی ہی دو اصناف کی ایک مشترکہ پیش کش سے گزشتہ دنوں واسطہ پڑا تو سوالات کا ایک سلسلہ کھلتا ہی چلا گیا۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ الحمراء آرٹس کونسل لاہور نے ایک ایسے ڈرامہ فیسٹیول کا ڈول ڈالا جس میں تیرہ دنوں میں تیرہ ڈرامے پیش کیے جائیں گے اور یہ سب کے سب ایسے ڈرامہ گروپس کے بنائے ہوئے ہیں جن کا مشترکہ ایجنڈا اچھے موضوعات پر ایسے بامعنی، مہذب اور ''اصلی ڈرامے'' کو فروغ دینا ہے جسے نہ صرف فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جا سکے بلکہ یہ جو تکنیک اور پرفارمنس کے اعتبار سے بھی عالمی سطح پر معاصر تھیٹر کا ہم قدم ہو۔
اتفاق سے اس سلسلے میں جو پہلا ڈرامہ پیش کیا گیا وہ اردو کے اولین بڑے افسانہ نگار منشی پریم چند کے مشہور افسانے ''کفن'' کی ڈرامائی تشکیل تھی۔ تقریباً سوا گھنٹے دورانیے پر محیط یہ کھیل ایک بہت سنجیدہ اور دردناک موضوع پر لکھا گیا ہے۔ پسماندہ، بے عمل اور طبقاتی معاشروں میں اشرف المخلوقات کہلانے والا انسان کیسے اسفل السافلین کے درجے تک گر جاتا ہے اور غربت جہالت اور خود غرضی کیسے اسے جانور کی سطح تک لے جاتے ہیں۔
یہ افسانہ اس کی ایک بہت بے مثال اور فنکارانہ عکاسی کرتا ہے اور یہ وہ روایت ہے جو عالمی ادب میں روسی انقلاب کے پیش اور پس منظر میں لکھے گئے فکشن کا غالب حصہ بنی۔ جس نوجوان اور ایمیچور گروپ نے اسے پیش کیا اس نے بھی مکمل اور بھرپور انداز میں کہانی اور موضوع کے تسلسل اور فضا کو قائم رکھا۔ لیکن سب سے زیادہ قابل تعریف بات یہ ہے کہ کمرشل ازم کے نام پر بے محابا جگت بازی، پھکڑین، ذو معنویت اور براہ راست فحش اور گھٹیا گفتگو پر مشتمل تھیٹر کے اس دور میں نہ صرف ڈرامہ پیش کرنے والے گروپ اور آرٹس کونسل نے اس موضوع کو پیش کش کے لیے چنا بلکہ تین سو سے زیادہ ناظرین نے ایسی خاموشی، دلچسپی اور توجہ سے اس کو دیکھا اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا کہ جی خوش ہوگیا۔
اس طرح کے ڈرامہ فیسٹیول اس بات کا ثبوت ہیں کہ کمرشلزم اور مزاح کے نام پر جس گھٹیا اور غیر پیشہ وارانہ تھیٹر کو فروغ دیا جا رہا ہے وہ عوام کی واحد پسند نہیں۔ اس ملک میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جو خود اور اپنی فیملی کے ساتھ زندگی آمیز اور زندگی آموز تھیٹر دیکھنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ مزاحیہ سِچوئشنز، کردار، خوشدلی اور برجستہ جملے دیکھنے اور سننے میں اچھے لگتے ہیں اور مزاح یا کامیڈی تھیٹر کا ایک اہم حصہ ہیں لیکن اگر ان کی سطح کو ناقابل برداشت حد تک گرا کر ٹکٹ کی قیمت کو حد سے زیادہ بڑھا کر اسے تماشائیوں کے بجائے ''تماش بینوں'' تک محدود کر دیا جائے تو پھر وہی ہوتا ہے جو اس وقت ہو رہا ہے۔
مجھے فیس بک اور یوٹیوب وغیرہ پر ڈالے گئے کلپس میں سے کئی بار اسٹیج ڈراموں کے ایسے سین دیکھنے اور ایسی زبان سننے کا موقع ملا ہے جن کا ایک ایک جملہ اور Move نہ صرف باقاعدہ فحش تھے بلکہ ذومعنویت کی آڑ میں ان کی فحاشی کو مزید اجاگر کیا گیا تھا۔ اب اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ''مارکیٹ'' میں اس کی ''طلب'' موجود ہے اور یوں ''رسد'' جائز اور ضروری ہے کہ اس طرح کے ڈراموں کے ''تماش بین'' ڈرامے کو مجرے اور پھکڑپن کا امتزاج بنانے کے لیے بھاری قیمت پر ٹکٹ خریدنے کو تیار ہوتے ہیں تب بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قانون، معاشرہ، اخلاق، روایت اور تہذیب کہاں سو گئے ہیں۔
یہ بھی تسلیم کہ سو میں سے ایک دو سین ایسے ہو سکتے ہیں کہ جن میں کہانی اور کردار کے تسلسل کی وجہ ڈانس یا غیر اخلاقی زبان کا استعمال جائز ٹھہرے مگر یہاں تو پردہ اٹھنے اور گرنے کے دوران ہمہ وقت صرف یہی کچھ ہوتا ہے۔ ایک زمانہ تھا اور یہ کوئی بہت زیادہ پرانا بھی نہیں کہ اسی اور نوے کی دہائی تک بعض ڈراموں میں گھٹیا سطح کی جگت بازی سے بھی کام لیا جاتا تھا مگر بیشتر ڈرامے فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے کے قابل ہوتے تھے اور مجرا برائے مجرا کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
دنیا کے اعلیٰ ادب اور ڈراموں کے آزاد تراجم پر مشتمل ڈراموں کے علاوہ طبع زاد اور اعلیٰ سطح کے مقامی ڈرامے بھی پیش کیے جاتے تھے اور بڑے بڑے نامور ادیب اسٹیج کے لیے لکھنے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔ اس کے بعد یہ میدان سرمایہ کاروں اور آڑھتیوں کے ہاتھ آگیا اور اب یہ حال ہے کہ اس کا کوئی حال ہی نہیں۔ ایسے میں بعض سرکاری، نیم سرکاری اور اصلی ڈرامے سے دلچسپی رکھنے والے گروپس کچھ نہ کچھ اصلاح احوال کی کوشش کرتے تو رہے ہیں مگر عمومی سطح پر ان کی صورتحال ایک ہارے ہوئے لشکر جیسی ہی تھی۔
اس ڈرامہ فیسٹیول اور کراچی میں NAPA ناپا اور کراچی آرٹس کونسل کے پیش کردہ ڈراموں کو دیکھ کر پھر سے یہ امید بندھی ہے کہ شاید ہم اچھے اور فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھے جا سکنے والے تھیٹر کی طرف جانا شروع ہو گئے ہیں۔
بالخصوص اس ڈرامے ''کفن'' کی پیشکش کے دوران تماشائیوں کی تعداد اور دلچسپی ایسی تھی کہ خود میں آرٹس کونسل کے منتظمین توقیر ناصر، کیپٹن عطا محمد اور ذوالفقار زلفی سے یہ وعدہ کرنے پر مجبور اور متحرک ہو گیا کہ اسٹیج ڈرامے سے تیس برس کے خود ساختہ مقاطعے کو توڑ کر ہمیں اپنا ایک اسٹیج ڈرامہ (جو میرے ایک ٹی وی کھیل ''یا نصیب کلینک کا اسٹیج ورژن ہے) ''ہرے رنگ کی چادر'' کے نام سے پروفیسر ڈاکٹر احمد بلال اور ان کے قائم کردہ نوجوانوں کے ڈرامہ گروپ ''ناٹک'' کے توسط سے یکم سے دس اکتوبر تک پیش کش کے لیے ان کو دوں گا تا کہ اس خوشگوار تبدیلی کے تسلسل کو آگے بڑھایا جا سکے اور ڈرامے کے ان اصلی شائقین کو واپس لایا جا سکے جو بوجوہ اس سے کنارا کرگئے ہیں۔ اس ارادے کا ایک اور محرک علامہ اقبال کا یہ شعر بھی ہے کہ
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں