پیغمبرانہ صحافت حصہ دوم
کچھ لوگ اخباروں میں لکھتے تھے لیکن وہ مضمون نگار کہلاتے تھے، صحافی نہیں۔
ان دنوں ایک بار پھر میڈیا نشانے پر ہے اور تیر ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جن کو کمان کی بھی خبر نہیں کہ اس کا رخ کس طرف رکھا جائے اور اس کو کس حد تک تنا جائے تو تیر کس طرف اور کہاں پہنچے گا لیکن ہمارے میڈیا کی یہ بدقسمتی ہے کہ ہم ان لوگوں کے نشانے پر آچکے ہیں جن کا جس وقت اور جو دل چاہتا ہے وہ بول اور لکھ دیتے ہیں۔
یہ لوگ نام نہاد سوشل میڈیا کی پیداوار ہیں اور ان کے خالق وہ لوگ ہیں جنھوں نے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ان کو پیدا کیا اور جب اپنا مطلب نکال لیا تو ان کو آوارہ گردی کے لیے چھوڑ دیا اور یہ آوارہ گرد سوشل میڈیا کے ذریعے جس کو چاہئیں اپنے نشانے پر رکھ لیں حالانکہ خود ان کا اپنا کوئی نام و نشان بھی نہیں ہوتا۔
اگر کسی جینوئن صحافی نے غلطی سے کسی سیاستدان کی تعریف میں چند جملے کہہ دیے تو نام نہاد سوشل میڈیا میں ایک طوفان بدتمیزی برپا ہو جاتا ہے اور ایک شریف آدمی کو بغیر کسی قصور کے بے عزت کر دیا جاتا ہے اور یہ عمل تب تک جاری رہتا ہے جب تک ان کو کوئی دوسرا شکار نہیں مل جاتا۔ ہم نے گزشتہ چند برسوں میں سوشل میڈیا پر اپنے کئی ساتھیوں کی پگڑیاں اچھلتے دیکھیں اور ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ کوئی ایسا موثر قانون موجود نہیں جس کو استعمال کر کے ان بے قصور پگڑیوں کو اچھلنے سے روکا جا سکے یا کم از کم اس کی تردید ہی کی جا سکے۔
یہ ایک ایسا وائرس ہمارے معاشرے میں پھیلا ہے جس کا کوئی علاج ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا بلکہ یہ وائرس بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اس کے تدارک کے لیے کوئی کوشش بھی نہیں کی جا رہی بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بہتر ہو گا کہ ہماری سیاسی پارٹیوں نے اپنے مخصوص مفادات کے لیے سوشل میڈیا کو ایک ایسے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کر رکھا ہے جس سے کسی کی عزت محفوظ نہیں رہی۔
یہ ایک خطرناک رجحان ہے جس سے قوم کو گمراہ کیا جا رہا ہے اور سادہ لوح قوم افواہوں کے بازار میں سچائی تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرتی بلکہ پھیلائی گئی ان افواہوں کو ہی سچ جان کر اپنا راستہ متعین کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ صحافت کی غیر معمولی اہمیت اور حکمرانوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس پیشے میں طرح طرح کے گھس بیٹھئے آگئے ہیں۔ یہ صورتحال پرانی نہیں ہے جب میں نے یہ پیشہ اختیار کیا تو لاہور جیسے شہر میں صحافیوں کی کل تعداد دو سو کے قریب تھی۔ اس زمانے کی یونین کا ریکارڈ دیکھ لیں ان دنوں سوائے جینوئن اور ہمہ وقتی صحافیوں کے کوئی دوسرا صحافی ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا تھا۔
کچھ لوگ اخباروں میں لکھتے تھے لیکن وہ مضمون نگار کہلاتے تھے، صحافی نہیں۔ لوگ نوکری کے لیے نہیں صحافی بننے کے شوق میں یہ پیشہ اختیار کرتے تھے، چونکہ بہت مشکل پیشہ تھا یعنی مشقت بہت زیادہ اور معاوضہ بہت کم اس لیے نئے آنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی اور دیانت داری سے سینئر لوگ کہتے تھے کہ یہ دکھی اور مصیبت زدہ لوگوں کا پیشہ ہے۔ باہر سے اس میں اس وقت بھی گلیمر دکھائی دیتا تھا مگر اندر آکر منظر بالکل بدل جاتا تھا۔
خود مجھے مرحوم حمید نظامی صاحب نے میرے خط کے جواب میں لکھا تھا اس میں یہی کہا گیا تھا کہ بہت مشکل پیشہ ہے باہر سے مت دیکھو اور پھر سوچ لو۔ یہ مشقت کی ایک طویل داستان ہے جس کا تصور بھی آج کے صحافی نہیں کر سکتے۔ لیکن اس زمانے میں میرے سینئر تعلیمی اور صلاحیتوں کے اعتبار سے کوئی بھی سرکاری نوکری لے سکتے تھے ان کے بچے سی ایس پی ہوا کرتے تھے لیکن وہ خود ایک ایسے چسکے کا شکار ہو چکے تھے کہ قسطوں میں ملنے والی تنخواہ میں ہی خوش رہتے تھے۔ یہ سب اخبار نویس تھے جن کا کوئی اور ذریعہ روزگار نہ تھا۔
اخبار نویس کی سب سے اعلیٰ تعریف میرے مرشد مولانا مودودیؒ نے کی۔ ایک زمانے میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کو ایک فارم پر کرنا تھا جس میں پیشے کی نشاندہی ضروری تھی۔ انھوں نے اس خانے میں اخبار نویس لکھ دیا۔ کسی نے یہ دیکھ کر تعجب کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ یہاں اسکالر، عالم دین یا مفسر اور مصنف لکھ دیتے تو کیا زیادہ بہتر نہ ہوتا کیونکہ آپ کی شہرت ایک اخبار نویس کی نہیں ہے۔ اس کے جواب میں مولانا نے کہا کہ میرا ذریعہ معاش ماہنامہ ترجمان القرآن ہے جس کا میں ایڈیٹر ہوں اس لیے پیشہ وہ ہوتا ہے جو ذریعہ معاش ہو چنانچہ میں نے اخبار نویس درست لکھا ہے، پیشہ ہمیشہ وہی سمجھا گیا ہے جو ذریعہ معاش ہوتا ہے۔
وقت کے ساتھ صحافت بھی تبدیل ہو گئی۔ غیر معمولی اہمیت کی وجہ سے معمولی لوگوں نے اس کی طرف توجہ کی اور اپنی چرب زبانی کو استعمال کر کے راتوں رات صحافی بن گئے اور سرکار دربار میں قبول بھی کر لیے گئے کہ ان کا مقصد کچھ اور تھا جب کہ ایک اصلی اور پیشہ ور صحافی ابھی بھی اپنے نظریات کی پاسداری کرتا ہے اور غلط کو غلط ہی کہتا اور لکھتا ہے۔ لیکن ان شوقیہ صحافیوں نے اصلی صحافیوں کو بھی پچھاڑ دیا اور اگر یہ کہا جائے تو بھی مناسب ہو گا کہ گزشتہ دہائی کے دوران صحافت میں ایک قبضہ مافیا نے اپنے قدم جما لیے اور اس مقدس پیشے کی رہی سہی عزت کا جنازہ نکال دیا۔
اس صحافتی قبضہ مافیا کی دیکھا دیکھی حاضر نوکری سرکاری ملازمین نے بھی کالم نویسی شروع کر دی۔ کوئی جرنیل ریٹائرڈ ہوا تو وہ بھی کالم نویس اور تجزیہ نگار بن گیا، کوئی سی ایس پی ملازمت سے رخصت ہوا تو بوئے سلطانی کی بقاء کے لیے کالم نویسی شروع کر دی، کسی کاروباری کے پاس فالتو رقم جمع ہو گئی تو اخبار نکال لیا یا پھر حسب توفیق چینل بھی شروع کر لیا اور اس کا ایڈیٹر اور تجزیہ نگار بھی بن گیا۔ بعض غلط پیشہ رکھنے والوں نے اپنے تحفظ کے لیے اخبار اور چینل شروع کر لیے۔ جینوئن اخبار نویس خبروں میں جتے رہے جن کے نام سامنے نہیں آتے غیر اخبار نویس مشہور ہونے شروع ہو گئے۔
چند جینوئن صحافیوں نے سیاست میں حصہ لیا اور پیشہ صحافت عملاً ترک کر دیا لیکن سیاست میں ناکامی کے بعد پھر سے صحافی بن گئے۔ کئی لوگوں نے سیاست میں آنے کے لیے صحافت کی سیڑھی پر قدم رکھا اور جب سیاست میں بار مل گیا تو صحافت چھوڑ دی۔ میاں افتخار الدین، جو پاکستان ٹائمز اور امروز وغیرہ کے مالک تھے، نے ایک بار مولانا چراغ حسن حسرت سے پوچھا کہ مولانا اب چیانگ کائی شیک کیا کرے گا اسے انقلابیوں نے نکال دیا تھا۔ مولانا نے جواب دیا وہ اخبار نکال لے گا۔ اس میں میاں صاحب پر بھی طنز تھا اور صحافت پر بھی۔
عرض یہ ہے کہ آج کی صحافت کے اس پر ہجوم دور میں خالص پیشہ ور صحافی ہونا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ ہر بوالہوس نے حسن پرستی اختیار کر لی ہے۔ اجازت دیں تو عرض کروں کہ آج کی صحافت بھی سیاست کی طرح۔
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
والا معاملہ ہو گیا ہے۔
ہمارے ایک استاد نے کہا تھا کہ صحافت ایک پیغمبرانہ پیشہ ہے، وہ زندہ ہوتے تو میں یہ تحریر ان کی خدمت میں پیش کرتا اور شکوہ کرتا کہ آپ نے صرف زبانی اخبار نویس نہ بننے کی نصیحت کیوں کی تھی، مجھے زبردستی روک کیوں نہیں دیا تھا، کہاں کی صحافت کہاں کی پیغمبری!