مذہبی اقلیتوں کے حقوق اور مسائل
پاکستان میں عقیدے کے نام پر کشت و خون اور فکری فرسودگی کے اسباب کا جائزہ لیا جائے
ادارہ سماجی انصاف کی جانب سے گزشتہ دنوں کراچی کے مقامی ہوٹل میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں سیمینار منعقد ہوا۔ ادارے کے سربراہ پیٹر جیکب اور سفینہ جاوید نے دیگر کے علاوہ ہمیں بھی اس میں اظہار خیال کے لیے مدعو کیا۔ ہمارا نکتہ نظر یہ ہے کہ:
پاکستان میں صرف مذہبی اقلیتیں ہی نہیں بلکہ خواتین اور خواجہ سرا (Transgender) سمیت بہت سی چھوٹی کمیونٹیاں بھی انتہائی زد پذیر (Vulnerable) ہیں۔ مگر ان کا وطن عزیز میں کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کمیونٹیز کے انسانی اور شہری حقوق کے بارے میں گفتگو ان جماعتوں اور تنظیموں نے ناقابل معافی جرم بنادیا ہے، جنھیں عوام نے 1970ء سے آج تک کبھی 10 فیصد سے زیادہ مینڈیٹ نہیں دیا۔ مگر اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کی وجہ سے ریاستی منصوبہ بندی پر جبراً اثر انداز ہو کر صرف غیر مسلموں ہی کے لیے نہیں بلکہ مسلمانوں کے مختلف مسالک اور فرقوں کے لیے عذاب بن چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسانیت کا درد محسوس کرنے والے اہل قلم اور متوشش شہری ان زیادتیوں پر گفتگو کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ مگر ملک کی سلامتی، بقا اور روشن مستقبل کے لیے ان معاملات ومسائل پر بات کرنا بھی ضروری ہے۔
ان صفحات پر ایک سے زائد مرتبہ لکھا کہ یہ ملک مذہبی رہنماؤں اور علما نے نہیں بلکہ مغربی طرز حیات رکھنے والے سوٹ اور ٹائی میں ملبوس ایک کھرے اور روشن دماغ وکیل کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ وہ وکیل جسے برٹش انڈیا کے مسلمانوں کی اجتماعی دانش نے اپنا رہبر تسلیم اور قبول کیا۔ وہ رہنما جسے برصغیر ہند کے مسلمان عقیدت و احترام میں قائداعظم کہتے ہیں۔ جسے بلبل ہند سروجنی نائیڈو نے Ambassador of Unity کا لقب دیا۔ جس نے 1916ء سے 1946ء کے دوران 30 برس تک اقلیتوں کے حقوق اور صوبائی خودمختاری کے لیے جدوجہد کی۔ جو آزادی صحافت کا علمبردار اور محنت کشوں کو تنظیم سازی اور اجتماعی سودے کاری کا حق دینے کا زبردست حامی تھا۔
اس رہنما کے قائم کردہ ملک پر وہ فرسودہ ذہن قوتیں جبراً حاوی کرادی گئی ہیں، جو اس ملک کے قیام کی بدترین مخالف تھیں۔ آج یہی قوتیں فیصلہ کررہی ہیں کہ ملک کا نظم حکمرانی کیا ہوگا، ملک میں کسے جینے کا حق ہے اور کسے نہیں۔ یہ وہ قوتیں ہیں، جن کے ہاتھوں انسانیت لرزہ براندام ہے۔ جنھوں نے عسکری مذہبیت (Militant Riligiosity) کو فروغ دے کر صرف غیر مسلم اقلیتوں کا جینا حرام نہیں کیا ہے، بلکہ مختلف مسالک اور فقہوں کے ماننے والے مسلمانوں کی زندگیوں کو بھی خطرات سے دوچار کیا ہوا ہے۔
پاکستان میں عقیدے کے نام پر کشت و خون اور فکری فرسودگی کے اسباب کا جائزہ لیا جائے، تو تین ایسے اقدامات ہیں، جنھوں نے نہ صرف جناح کے پاکستان کو ان کے ساتھ ہی دفن کردیا ہے، بلکہ اس ملک کے محب وطن شہریوں کی زندگیوں کو عذاب مسلسل میں مبتلا کرکے ترقی کی تمام راہیں مسدود کردی ہیں۔ مجھے کہنے دیجیے جناح کے پاکستان کی پیٹھ میں پہلا خنجر قرارداد مقاصد کی شکل میں گھونپا گیا۔
جس نے جمہوری بنیادوں پر قائم ملک کو تھیوکریسی کی جانب دھکیلنے کی ابتدا کی۔ دوسرا اقدام بھٹو دور میں کی گئی دوسری آئینی ترمیم ہے، جس نے مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کی راہ ہموار کی۔ تیسرا اقدام جنرل ضیا کے دور میں اسلامائزیشن کے نام پر بدترین مسلکی فاشزم کا قیام جس کی تازہ ترین مثال مشال خان کا جنونیوں کے ہاتھوں سفاکانہ قتل ہے۔
جناح کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ یہ سمجھنے کے لیے مختلف جلسوں میں کی گئی تقاریر سے نہیں، بلکہ دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی گئی پالیسی تقریر سے استفادہ کرنا ہوگا۔ پاکستان کے جھنڈے میں سفید پٹی کی منطق کو سمجھنا ہوگا۔ پہلی کابینہ کی وسیع البنیاد ہیئت کا جائزہ لینا ہوگا، جس میں جوگندرناتھ منڈل کو قانون اور سر ظفر اﷲ خان چوہدری کو وزارت خارجہ جیسی اہم وزارتیں سونپی گئی تھیں۔ مگر ایک طرف جناح وسیع البنیاد ریاست کا خواب آنکھوں میں سجائے جمہوری پاکستان کو بنتا دیکھ رہے تھے، دوسری طرف چوہدری محمد علی کی زیر قیادت بیوروکریسی کا سازشی ٹولہ اس ملک کو تھیوکریسی کی طرف دھکیلنے کے لیے کمر کس چکا تھا۔
قائد کی پالیسی تقریر کا سنسر کیا جانا، ان پانچ مذہبی جماعتوں کو پاکستان آکر سیاست کرنے کی دعوت دینا، جو 13 اگست 1947ء تک پاکستان کے بارے میں سوائے بدخواہی کے کچھ نہیں کرتی رہی تھیں، جناح کی آنکھ بند ہوتے ہی انھی مذہبی جماعتوں میں سے ایک کے بانی امیر کو ریڈیو پر خطاب کی دعوت دینا، قرارداد مقاصد جیسی دستاویز قیام ملک کے پونے دو برس بعد دستور ساز اسمبلی سے منظور کروانا، اس قرارداد کے مسودہ کی نوک پلک اس مذہبی رہنما سے درست کروانا، جس نے جنگ کشمیر کو غیر اسلامی قرار دیا تھا اور اسی جرم کی پاداش میں ملتان جیل میں نظر بند تھا۔
سوویت یونین سے آئے دعوت نامے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر منت سماجت کرکے امریکا سے دعوت نامہ منگوا کر وزیراعظم لیاقت علی خان کو امریکا کے دورے پرمجبور کرنا، جب وہ روس جانے کا قصد کریں، تو انھیں راولپنڈی میں قتل کروا دینا، وہ اقدامات ہیں جو بیوروکریسی نے جناح کے تصور پاکستان کو ملیامیٹ کرنے کے لیے تسلسل کے ساتھ کیے۔
یہی وہ اقدامات تھے، جن کی وجہ سے پاکستان ایک فلاحی ریاست کے بجائے سیکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل ہوا اور فوج کو نظم حکمرانی میں مداخلت کا موقع ملا۔ جبھی سے اسٹیبلشمنٹ کا فیوڈل سیاستدانوں کے ساتھ ایسا گٹھ جوڑ قائم ہوا، جس نے ایک طرف مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی خاطر مذہبی جماعتوں کو سر پر بٹھایا اور جمہوریت اور جمہوری اقدار کی بیخ کنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی جیسی Left to centre جماعت ہو یا مسلم لیگ (ن) جیسی Right to centre جماعت، اپنے ووٹر کی خواہشات کا احترام کرنے کے بجائے 10 فیصد سے بھی کم عوامی مینڈیٹ رکھنے والی مذہبی جماعتوں کی کاسہ لیسی پر اپنی توانائیاں صرف کرتی ہیں۔ یہ اس فیوڈل کلچر اور بیوروکریسی کے دباؤ کا نتیجہ ہے، جس نے ان جماعتوں کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔
آج اگر نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی خواہش ہے، تو بعض جرأت مندانہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ جن میں جناح کی دستور ساز اسمبلی میں کی گئی 11 اگست والی تقریر کو آئین کے Princples of policy کا حصہ بنانا ہوگا۔ ایسی تمام آئینی شقوں کو منسوخ یا ان میں مناسب ترامیم کرنا ہوں گی، جو حقوق انسانی کے اصول وضوابط سے متصادم ہیں۔
پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات مذاکرات کے ذریعہ حل کرنا ہوں گے۔ مذہبی جماعتوں کو اتنی اہمیت دینا ہوگی، جتنا ان کا عوامی مینڈیٹ ہے۔ ان کے دباؤ پر ریاستی پالیسی میں ردوبدل اور ریاست کی سمت تبدیل کرنے کے عمل کو ختم کرنا ہوگا۔ ایک جمہوری ملک میں ہر شہری کو بلاامتیاز مذہب، عقیدہ، صنف اور لسان میرٹ پر اعلیٰ ترین عہدے تک جانے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ اس تصور کو عملاً یقینی بنانا ہوگا۔ اس کے بغیر مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی بات لایعنی ہے۔