حسینہ کا خط جنگِ ستمبر کا پیغام اور امریکیوں کی آمد

اب دیکھتے ہیں کہ قوم وملک کے لیے اُن کی خدمات کیا رُخ اختیار کرتی ہیں


Tanveer Qaisar Shahid September 03, 2018
[email protected]

جناب عمران خان کو وزیر اعظم بنے تیسرا ہفتہ شروع ہو چکا ہے۔ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں بھاری اکثریت نہ رکھنے کی وجہ سے حکومت سازی کے لیے عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کو بڑی محنت کرنا پڑی ہے۔ اُن کی دَوڑ دھوپ اور محنتیں ثمر آور بھی ثابت ہُوئی ہیں۔ابھی ایک مہم سر کرنا مگر باقی ہے: نئے صدرِ مملکت کا انتخاب۔ اُمید ہے کل عمران خان اپنے صدارتی اُمیدوار (ڈاکٹر عارف الرحمٰن علوی) کو کامیاب کروانے میں سُرخرو رہیں گے۔ مرکز کے ساتھ پنجاب اور کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومتیں بن چکی ہیںاور کابینہ کے ارکان حلف اُٹھا کر قوم کے سامنے آ چکے ہیں۔

اب دیکھتے ہیں کہ قوم وملک کے لیے اُن کی خدمات کیا رُخ اختیار کرتی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد میں صحافیوں سے اپنی پہلی ملاقات میں بجا مطالبہ کیا ہے کہ انھیں تین ماہ دیے جائیں، پھر اُن کی حکومت، اُن کے وزیروں اور اُن کے وزرائے اعلیٰ پر بے شک کھل کر تنقید کریں۔ وزیر اعظم صاحب کا یہ مطالبہ یا خواہش یا درخواست نہایت معقول بھی ہے اور انصاف پر مبنی بھی۔پچھلے دو ہفتوں کے دوران مشاہدے میں آیا ہے کہ ہمارا میڈیا خانصاحب کی نئی نویلی حکومت اور اُن کے حکمران ساتھیوں کا احتساب بے رحمی سے کرنے پر تُلا رہا ہے۔

اِس منظر کو فی الحقیقت بے توازنی اور بے صبری کاآئینہ دار کہا جانا چاہیے۔ واقعہ تو یہ ہے کہ پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر کروڑوں انسانوں نے خانصاحب کی حکومت اور شخصیت سے بلند توقعات وابستہ کررکھی ہیں۔ ہماری بے صبری توقعات کے محل کو وقت سے پہلے مسمار اور زمیں بوس کرنے کا موجب بن سکتی ہے۔ اب کام کرنے کاوقت ہے۔ دُنیا بھر سے ہماری نئی حکومت اور نئے وزیر اعظم کو مبارک سلامت کے پیغامات آنے کا سلسلہ تقریبا ً بند ہو چکا ہے۔بیرونی ممالک کے وزرائے خارجہ کی پاکستان آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

سب سے پہلے جاپانی خارجہ امور کے وزیر مملکت(کازو یوکی ناکانی) دو روزہ دَورے پر پاکستان تشریف لائے۔ کازویوکی صاحب کی آمد سے اب موسمی تبدیلیوں سے آگاہ رکھنے والا ایک جدید ریڈار ملتان میں نصب کیا جائے گا اور پاکستانی طلبا کو وظائف بھی دیے جائیں گے۔ دونوں کے اخراجات جاپان برداشت کرے گا۔ ایرانی وزیر خارجہ عزت مآب، جواد ظریف،کی پاکستان آمد ہمارے لیے خوشی کا باعث بنی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اورآرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اُن کی ملاقاتیں پاکستان اور خطے بھر کے لیے مفیدثابت ہوں گی۔ جناب جواد ظریف نے کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی جملہ پالیسیوں کی کھل کر حمائت کی ہے۔ جواب میں پاکستان نے ایرانی جوہری معاہدے پر ایران کے موقف کی تائید کی ہے۔ ایران اِس وقت امریکی بدعہدیوں کے کارن شدید مالی و سفارتی بحرانوں کا شکار ہے۔ ایسے میں ایرانی جوہری معاہدے پر پاکستان کی طرف سے تائید وحمایت ایران کے لیے بڑا ریلیف ہے۔

ابھی کئی غیر ملکی وزرائے خارجہ کوپاکستان تشریف لانا ہے۔ اِن سفارتی سرگرمیوں میں بنگلہ دیشی وزیر اعظم، شیخ حسینہ واجد، کی طرف سے ہمارے نَو منتخب وزیر اعظم عمران خان کے نام تہنیتی خط کا آنا ایک اہم سفارتی واقعہ ہے۔ حسینہ واجد نے عمران خان کو مبارکباد بھی دی ہے اور لکھا ہے کہ یہ دیکھ کر مسرت ہُوئی ہے کہ پاکستانی عوام نے آپ کی پارٹی پر گہرے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

بنگلہ دیشی وزیر اعظم نے خط میں مزید تحریرکیا ہے:''بنگلہ دیش نے جنوب ایشیائی ممالک سے بہتر تعلقات استوار کرنے کی ہمیشہ کوشش کی ہے، تاکہ ہمارے سب عوام خوشحالی سے بھی مستفید ہو سکیں اور امن کی نعمتوں سے فیضیاب بھی۔''خدا کرے حسینہ واجد کے الفاظ عمل کی شکل بھی اختیار کر سکیں۔ جب سے مشرقی پاکستان''بنگلہ دیش'' بنا ہے اور جب جب وہاں ''عوامی لیگ'' برسرِ اقتدار آئی ہے، بنگلہ دیش نے پاکستان سے دُوری ہی اختیار کیے رکھی ہے۔ حسینہ واجد کی گزشتہ آٹھ، نو سالہ دونوں مسلسل حکومتوں کے دوران پاکستان سے عدم تعاون بھی کیا گیا ہے اور پاکستان پر بے بنیاد الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ حسینہ واجدہ کی ان تہمتوں کے عقب میں بھارت کا ہاتھ کارفرما ہے۔

اِسی لیے پاکستان نے بنگلہ دیش کی مجبوریاں سمجھتے ہُوئے ہمیشہ تحمل اور صبر سے کام لیا ہے اور بنگلہ دیش کی طرف تعاون، دوستی اور اخوت کا ہاتھ ہمیشہ آگے بڑھائے رکھا ہے۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بنگلہ دیشی عوام کی اکثریت کے دل اب بھی پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے دھڑکتے ہیں۔ بنگلہ دیشی میڈیا چونکہ عملی طور پر بھارت کا محتاج بن چکا ہے، اس لیے وہ پاکستان پر الزامات بھی لگاتا ہے تو پاکستان اس طرف توجہ ہی نہیں دیتا۔ اب محترمہ شیخ حسینہ واجد کے لکھے خط کو غنیمت جانتے ہُوئے خانصاحب کی حکومت کو نئے سرے سے بنگلہ دیشی سرکار اور بنگلہ دیشی عوام کو قریب تر لانے اور اپنا بنانے کی سبیل کرنی چاہیے۔

ہم جانتے ہیں یہ مشکل کا م ہے۔ بھارتی خفیہ اداروں نے بنگلہ دیشی تعلیمی نصاب، میڈیا اور حکومتی اداروں میں نقب لگا کر پاکستان کے خلاف جو مسموم فضا بنا رکھی ہے، اس کے ہوتے ہُوئے یہ کام واقعی مشکل لگتا ہے۔ اس کے باوجود عمران خان کی حکومت کو ''جنگی بنیادوں'' پر یہ کام کرنا چاہیے۔ بھارت نے تو ہر جگہ پاکستان کے خلاف اپنے پاؤں پسار رکھے ہیں۔ تو کیا ہم ایک پنجابی محاورے کے مطابق، ڈھیری ڈھا کر بیٹھ جائیںاور فکرِ فردا سے بے نیاز ہو جائیں؟ ہمیں تو زندگی اور زندہ قوم کا ثبوت فراہم کرتے ہُوئے پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیتوں، سازشوں اور عیاریوں کا مقابلہ کرنا ہے، جیسا کہ ہم نے یکمشت، یک جہت اور یک ذہن ہو کر 65ء کی جنگِ ستمبر میں بھارت کا مقابلہ کیا تھا۔

نہایت بے سروسامانی اور کم وسائل رکھنے کے باوجود ہم جارح بھارت کے لیے واقعی معنوں میں لوہے کا چنا ثابت ہُوئے تھے۔ جنگ کے میدان میںپامردی اور ثابت قدمی کی کیسی کیسی انمٹ داستانیں ہمارے فوجی جوانوں اور افسروں نے رقم کیں ۔ یہ روشن داستانیں خوشبو دار لہو کی روشنائی سے لکھی گئیں۔ اِن کی چمک، دمک اور مہک اب بھی باقی ہے اور تا ابد قائم رہ کر ہمارے دل ونظر کو ولولہ تازہ دیتی رہیں گی۔ اب پھر6ستمبر کی آمد آمد ہے۔ ہماری فضائیں جنگِ ستمبر کے غازیوں اور شہدا کی یادوں سے عطر بیز ہو رہی ہیں۔

جنگِ ستمبر کا پیغام ہی یہ ہے کہ دشمنِ قوم وملّت خواہ کتنا ہی بڑا ہو، اُس کی جارحیت کو قبول نہیں کرنا ہے۔ اپنے لہو کی ندیاں بہا کر اُس کے بڑھتے ناپاک قدم روکنے ہیں۔ اپنے قومی راز دشمن کے حوالے نہیں کرنے ہیں۔ ہمارا حوصلہ بڑھانے کے لیے ہمارے پاس جنگِ ستمبر کے سپاہی مقبول حسین کی اولوالعزم داستانیں موجود ہیں کہ 40برس دشمن بھارت کی قید میں رہ کر بے پناہ تشدد تو جان پر سہہ لیا لیکن پاکستانی فوج اور پاکستان کے راز دشمن کو دینے سے صاف انکار کر دیا۔ہم بھی کیا خوش قسمت قوم ہیں کہ ہماری ماؤں نے سپاہی مقبول حسین ایسے بیٹوں کو جنم دیا۔ سلام ہے ایسی عظیم ماؤں کو اور ہمارا سیلوٹ ہے ایسے جوانمرد جوانوں کو ۔ اُن کی عظمتوں کو قوم کا یہ اجتماعی سلام ہی ہے کہ پچھلے دنوں سپاہی مقبول حسین سفرِ آخرت پر روانہ ہُوئے تو ہمارے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی اعلیٰ فوجی قیادت کے ساتھ مرحوم سپاہی کو سیلوٹ کرنے اُن کی نمازِ جنازہ میں بنفسِ نفیس موجود تھے۔ مرشد آباد(نیریاں شریف ،آزاد کشمیر) میں آسودئہ خاک سپاہی مقبول حسین مرحوم کو سارے پاکستان کا سلام پہنچے۔

کئی بدبخت ایسے بھی مگر ہیں جو پاک فوج اور سویلین حکومت کے درمیان تلخیاں کاشت کرنے کے دَر پے ہیں۔اب جب کہ دو دن بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیؤ اور امریکی جنرل ڈنفورڈ پاکستان آ رہے ہیں، بعض اطراف سے غلط فہمیاں پھیلانے کی کوششیں بروئے کار ہیں۔ بھارتی میڈیا کی بھی یہی کوشش ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کا یہ پہلا دَورئہ پاکستان کامیاب نہ ہونے پائے۔ ایسے میں ہماری نَومنتخب حکومت اور عسکری قیادت کو ایک پیج پر ہونے کا بھرپور عملی ثبوت فراہم کرنا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں