تعریف

جتنا نقصان ہمارے معاشرے میں اس جھوٹی تعریف، خوشامد اور چمچہ گیری نے کیا ہے، شاید ہی کسی اور چیز نے کیا ہو


تعریف سے باز رہیے، یہ وہ افیون ہے جو ناکارہ کر چھوڑتی ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

آپ کا جواب کیا ہو اگر راہ چلتے کوئی شخص آپ کے کپڑوں، بالوں یا چلنے کے طریقے پر تنقید شروع کر دے کہ نہ آپ کو پہننے کا ڈھنگ ہے نہ چلنے کا، وغیرہ وغیرہ... آپ یقیناً ایسے شخص سے کہیں گے کہ بھائی تم کون ہو؟ اپنا کام کرو۔ کیوں دماغ خراب کرتے ہو؟

ہم خود پر تنقید کا حق کسی کو نہیں دیتے، اپنے آپ کو بھی نہیں۔ کسی حد تک تو یہ بات درست ہے کہ اگر دنیا میں ہر آدمی ہی تنقید کرنے لگے تو آپ کس کس کی سنیں گے اور کام کب کریں گے؟ تنقید کا حق یا تو ماں باپ کا ہے یا آپ کے استاد و معلم کا، پرخلوص دوست کا یا آپ کی اپنی ذات کا۔ آدمی کو اپنی ذات کا بدترین نقاد ہونا چاہیے۔ اپنا احتساب ایسے کرے جیسے کوئی دشمن کرتا ہے۔ یوں ہی بہتری کی امید قائم رہتی ہے اور خوب سے خوب تر کا سفر جاری رہتا ہے۔

بالکل یہی رویہ ہمارا تعریف پر بھی ہونا چاہیے۔ آدمی کا مزاج چکنے گھڑے کی مانند ہو کہ کوئی تنقید یا تعریف سطح سے اندر نہ جائے اِلّا یہ کہ تنقید و تعریف والا اس کا مجاز ہو، حق رکھتا ہو اور صاحب رائے ہو۔ مگر ہم ایسا نہیں کرتے۔ چلتے پھرتے روزانہ درجنوں بار ہر جگہ سے تعریف سمیٹتے رہتے ہیں اور ریشم کے کیڑے کی طرح ان تعریفوں سے اپنے گرد خود پسندی کا ایسا جال بُنتے رہتے ہیں کہ اس سے چھٹکارا موت ہی دلائے تو دلائے، ورنہ کوئی اور صورت ممکن نہیں۔

تعریف بھی ایک رزق ہے۔ آپ کو بھوک لگے تو کچرے میں سے اٹھا کر کھانا شروع نہیں کر دیتے۔ کم ظرف اور بے عقل کی طرف سے کی جانے والی تعریف، حامل ظرف اور باشعور کی طرف سے کی جانے والی تنقید سے بدتر ہے کہ یہ تنقید کم ازکم بہتری کی تو راہ دکھائے گی، جھوٹی تعریف تو کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔

تعریف کو وصول کرنے، اسے سمجھنے اور برتنے کا بھی ایک فریم روک ہونا چاہیے کہ بندہ حقدار کو اس کا حق دے۔ تعریف کو اللہ کا فضل سمجھے، اس سے ہمت اور ولولہ پائے اور کام کو مزید بہتر بنائے۔ تعریف کے جواب میں عموماً ایک جملہ کافی ہوتا ہے وہ بھی اگر تعریف کرنے والا صاحب الّرائے ہے۔ ورنہ خاموش رہے۔

آپ کا گھر ماشاء اللہ بڑا شاندار ہے۔
''جی، اللہ کا فضل ہوا۔ اسی نے کرم کیا اور بنوا دیا،'' بات ختم۔

آپ بڑے اچھے انسان ہیں۔
''جی، اللہ کا فضل ہے کہ اس کی ستاری نے عیب ڈھانپ رکھے ہیں،'' اور بات ختم۔

آپ کا بیان سُنا۔ یقین جانیے بڑا مزہ آیا اور... اب یہاں ان صاحب کی بات کاٹ دیجیے۔
''جی، اللہ نے توفیق بخشی، والسلام۔''

غضب خدا کا! تعریف کا ایک جملہ اور سامنے والے کے آدھے گھنٹے پر مشتمل دلائل و جوابات، یہ شرک نہیں تو اور کیا ہے؟ بندہ اپنی ہی ذات کو پوج رہا ہے، خدا کےلیے تو کام تھا ہی نہیں۔ کسی نے ذرا سی بلاگ یا تقریر کی تعریف کردی اور حضور کا خمار اترنے ہی میں نہیں آتا۔

آپ کا گھر بڑا شاندار ہے... جی، میں نے مکمل سروے کیا، بہترین زمین، بہترین گاریگر، اسپین کی ٹائل، اٹلی کا فرنیچر... لو جی! ہوگئی اسٹوری شروع... اب بھگتیے!

آپ کی ٹریننگ بڑی پُراثر تھی۔ میری تو آنکھوں میں پانی آگیا... جی، ہزاروں لوگ گزر چکے ہیں۔ زندگیوں میں انقلاب، معرفت الہٰی کے روشن باب، امتِ مسلمہ کے درد میں اربوں کے پراجیکٹس... ایک اور اسٹوری شروع۔

آپ کا بیان سنا، کیا کہنے... جی، کئی کتابیں پڑھیں، کئی دن سے سویا تک نہیں۔ جو بات کی پوچھ کر، دیکھ بھال کر۔ علم لدنی اور معرفت کا نتیجہ... لو جی! پھر شروع۔

مقررین حضرات صرف ایک کام کرلیں تو تعریف کرنے والوں سے لڑ پڑیں کہ بھائی کون ہو، کیوں دماغ خراب کرتے ہو؟ وہ کام یہ ہے کہ کالر اور قمیض کے بٹن سے منسلک مائیک، ریکارڈنگ اور لاؤڈ اسپیکر کی تمام تاروں کو وہ تاریں سمجھ لیجیے جو آخری وقت میں اسپتال میں لگی ہوں گی۔ ایک آکسیجن کی، ایک دل کی دھڑکن کو ناپنے کی اور ایک شاید غذا کی نالی کی جو حلق میں سوراخ کرگئی ہوگی۔ اب اس حالت میں کیا بیان اور کیا تعریف۔ سب عقل ٹھکانے آجاتی ہے۔

جتنا نقصان ہمارے معاشرے میں اس جھوٹی تعریف، خوشامد اور چمچہ گیری نے کیا ہے، شاید ہی کسی اور چیز نے کیا ہو۔ آدمی کو بلاوجہ شبہ ہو جاتا ہے کہ وہ چنیدہ ہے یا اپنے نیک ہونے کی خوش فہمی ہوجاتی ہے۔ کوئی سمجھتا ہے کہ قدرت نے اسے اسپتال بنانے کےلیے چن لیا ہے تو کوئی سمجھتا ہے کہ کھانا کھلانے کےلیے۔ کسی کو ٹریننگز کا بھوت چڑھ جاتا ہے تو کوئی لوگوں کی موٹیویشن بڑھاتے بڑھاتے خود قبر میں پہنچ جاتا ہے۔ خدا غارت کرے اس موٹیویشن کا جو نماز تک نہیں لے جاتی؛ اور ماتم کریں اس دین کا جو اخلاقیات نہ سکھائے۔ الله کو اپنی مخلوق سے بڑا پیار ہے۔ چُنے تو کام جاتے ہیں، لوگ نہیں۔ پھر قدرت جس سے چاہے، جیسے چاہے، جب چاہے کام لے لے۔ بس اس بات پر شکر ادا کیجیے کہ مالک کی توفیق سے کچھ حصہ پڑرہا ہے۔ وہ بےنیاز ہے، ہماری اور اس کی کیا نسبت۔

کامیابی، گمراہی کی کنجیوں میں سے ایک ہے۔ آدمی سمجھتا ہے کہ ہر کامیابی کے پیچھے اس کی محنت، کوئی چال، کوئی طریقہ کوئی بیسٹ پریکٹس، کوئی ٹریننگ ہے یا قدرت نے اسے اس کام کےلیے چن لیا ہے۔ ''کچھ نہیں'' سے ''سب کچھ'' تک کے سفر والوں کو نہ تو ''کچھ نہیں'' کا مطلب آتا ہے اور نہ ہی ''سب کچھ'' کا۔

اپنے بچوں کی ذہانت کے قصے، ماں باپ اور بیوی کے خلوص و سچائی اور وفاداری کی کہانیاں۔ حتٰی کہ اپنے شیخ کی وہ وہ تعریفیں جو اس غریب نے بھی کبھی سنی بھی نہ ہوں؛ یہ سب اپنی ہی تعریف ہے۔ میرے ایک استاد ہیں۔ دوسروں کو ان کی تعریف کرتے تو کجا، خود ان کے اپنے منہ سے ان کے بارے میں کوئی جملہ نہ سُنا۔ چار سال بعد تو پتا لگا کہ انہوں نے کوئی کتاب بھی لکھی ہے وہ بھی کسی اور نام سے۔ اور اپنا حال یہ کہ پہلی ملاقات پر جب تک اپنا سی وی نہ سُنا دوں، دل ہلکا ہی نہیں ہوتا۔ ان سے مل کر دل چاہتا ہے کہ زمین پھٹے اور میں سما جاؤں۔

تعریف سے باز رہیے، یہ وہ افیون ہے جو ناکارہ کر چھوڑتی ہے۔ کامیابی کی اصل تو قبولیت ہے جس کا پتا صرف مرنے کے بعد چلے گا۔

''اے عظیم الشان اور بلند دروازوں کے مالک اللہ! ہمیں نامعلوم اور گمشدہ لوگوں کی دعاؤں کے صدقے (وہ لوگ جو تیری کھوج میں گم ہو گئے)، ان بےلوث نیکیوں کے صدقے کہ جنہیں تنقید و تعریف کا غم نہیں، تعریف اور کامیابی کے شر سے بچا، آمین۔''

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں