کراچی کے مسائل توجہ کے متقاضی
سندھ میں ایک مرتبہ پھر پی پی پی کی حکومت ہے یہ سب کراچی کے مسائل حل کرنے کے دعویدار ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی کراچی میں غیر معمولی دلچپسی کے بعد، پاکستان پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے بھی کمرکس لی ہے، سندھ حکومت نے شہرکراچی جوکہ شہر قائد کے نام سے بھی معروف ہے کی مختلف ترقیاتی اسکیموں کی تکمیل کے لیے حکمت عملی مرتب کرلی ہے، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کراچی پیکیج کے تحت ترقیاتی اسکیموں کو فنڈزکے فوری اجراء کی ہدایت کردی،آیندہ 6 ماہ میں لانڈھی،کورنگی، داؤد چورنگی، طارق روڈ اور لیاری میں 6 میگا اسکیمزمکمل کی جائیں گی۔
جن میں 2 انڈر پاسز، 4 بڑی شاہراہوں کی بحالی کے منصوبے شامل ہیں، دستیاب دستاویزات کے مطابق سندھ حکومت نے آیندہ 6 ماہ کے دوران کراچی کے میگا منصوبوں کو مکمل کرنے کی حکمت عملی بنالی ہے، لانڈھی کورنگی کے صنعتی علاقے کی مصروف اور اہم شاہراہ بارہ ہزار روڈ کی ازسر نو بحالی وتعمیرکی اسکیم رواں مالی سال میں تعمیر کی جائے گی۔ لانڈھی کورنگی بارہ ہزار روڈ اکتوبر2017ء میں منظورکی گئی تھی جس پر لاگت کا تخمینہ 2032ملین روپے لگایا گیا ہے،اس اسکیم پر 750ملین روپے اب تک خرچ ہوچکے ہیں ۔
سندھ حکومت کے مطابق مذکورہ روڈ کی تعمیر جون 2019ء میں مکمل کی جانی ہے جب کہ محکمہ بلدیات کی جانب سے جاری کیے گئے ٹینڈرکے مطابق شہید ملت روڈ سے متصل طارق روڈ انٹر سیکشن پر انڈر پاس کی تعمیرکیا جانا ہے جب کہ حیدرعلی انٹر سیکشن پر بھی رواں مالی سال میں انڈر پاس تعمیر کیا جائیگا۔انڈر پاس کی دونوں اسکیم کراچی میگا ترقیاتی پیکیج کا حصہ ہیں،جاری کردہ ٹینڈرکے مطابق جام صادق برج تا داؤد چورنگی آٹھ ہزار روڈ کی بحالی وتعمیر کے لیے بھی فوری فنڈزکا اجراء کیا جائے گا، یہ اسکیم مارچ 2018ء سے زیر التواء ہے اور سندھ حکومت نے 1289ملین روپے کی اس اسکیم کے تمام فنڈز رواں مالی سال میں ہی جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔
علاوہ ازیں پیپلزپارٹی کی لیاری میں بدترین شکست کے بعد سندھ حکومت نے لیاری پر بھر پور توجہ دینے کی ٹھان لی ہے، پہلے مرحلے میں لیاری میں سڑکوں کی بحالی اور سیوریج لائنوں کی درستی کا کام کیا جائے گا، 60کروڑ روپے سے زائد کی لاگت سے لی مارکیٹ اور اس کے اطراف کی شاہراہوں کی بحالی ومرمت کا کام مکمل کیا جائے گا، روڈ سیکٹرکی یہ اسکیم فروری 2018ء سے التواء کا شکار تھی، حکومت سندھ نے فوری طور پر فنڈزکا اجراء کرکے جون 2019ء تک مذکورہ اسکیم مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ذرایع کے مطابق لیاری کے لیے دوسرے مرحلے میں پینے کے صاف پانی سمیت دیگر ترقیاتی اسکیموں کا اجراء بھی زیر غور ہے۔
کراچی میں امن وامان قائم کرنے میں سیکیورٹی فورسزکی کامیابیاں قابل تحسین ہیں،امن ہوگا توکاروبار بھی ہوگا جس سے ترقی کا پہیہ گامزن ہوگا لیکن اب تک کراچی کے شہری بنیادی مسائل سے دوچار ہیں ۔ ملک کو 70فیصد سے زائد آمدنی فراہم کرنے والا شہرکراچی کئی عشروں کی طرح آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے اورکوئی ایک مسئلہ مکمل طور پر حل نہیں ہوسکا ہے۔
1973ء میں کوٹہ سسٹم کے نفاذ سے اب تک شہریوں میں بے روزگاری کی شرح میں بدستور اضافہ ہوا ہے ۔ ماس ٹرانزٹ کی تنصیب نہ ہونے اور دیگر بنیادی سہولتیں میسر نہ ہونے کے باعث شہریوں میں مایوسی و بے چینی انتہا کو چھو رہی ہے۔ شہر میں بدستورکچرے کے ڈھیر، پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، مختلف علاقے قلت آب کا شکار ہیں، تباہ حال سیوریج سسٹم اور غیر موثرجراثیم کش اسپرے وبائی امراض پھوٹنے کا باعث بن رہے ہیں ۔
شہرکے بلدیاتی نمایندوں کو منتخب ہوئے ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرچکا ہے تاہم اختیارات نہ ہونے کے باعث ہاتھ پر ہاتھ دھرے پالیسی ساز اداروں کا منہ تک رہے ہیں۔ حکومت سندھ نے کمزور ترین بلدیاتی نظام نافذکرکے کراچی کے شہریوں کے ساتھ مذاق کیا ہے۔سندھ حکومت نے 2016ء میں10ارب روپے کے کراچی پیکیج کے تحت کچھ تعمیراتی منصوبوں کا آغازکیا تاہم ڈھائی کروڑکی آبادی والے شہرکراچی تیزی سے تعمیر ہوتی بلند وبالا عمارتوں اور شہرکے مضافات میں نئی رہائشی بستیوں کے قیام کے پیش نظر یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔
کراچی کے لیے دریائے سندھ سے 260ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی کے منصوبے ''کے فور''کا آغاز بھی ہوگیا تاہم یہ دو سال کا منصوبہ ہے اور تعمیرات کے کس مرحلے میں ہے شہری اس سے بے خبر ہیں حتیٰ کہ منتخب بلدیاتی نمایندے بھی اس ضمن میں آگاہ نہیں ہیں۔ وفاقی وصوبائی حکومت کے تحت ماس ٹرانزٹ منصوبہ گرین لائن بس پرجیکٹس کا آغازکیا جاچکا ہے تاہم یہ منصوبے 40سال کی تاخیر سے شروع ہوئے ہیں اور رواں سال مکمل ہونے ہیں ۔
اگرچہ ماس ٹرانزٹ کے یہ منصوبے اچھی علامت ہیں، تاہم عشروں سے محروم کراچی کو فوری مرہم کی ضرورت ہے، مختصر مدت کے ٹرانسپورٹ کے منصوبے جو شہرکی تمام آبادی کے لیے سہولتیں پہنچائیں ، اب ناگزیر ہوچکے ہیں ، وفاق وسندھ حکومت کی اپنی ترجیحات ہیں اورکراچی کی اپنی ڈائنامکس جسے سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں بلکہ زمینی حقائق کے تحت یہاں کے منتخب بلدیاتی نمایندوںکو اختیارات و مناسب فنڈز تفویض کرکے اور کوٹہ سسٹم کا خاتمہ کرکے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں، بصورت دیگر شہری مزاج رکھنے والی اکثریت جو بے چینی کا شکار ہے، ماضی کی طرح منفی رجحانات اختیار کرسکتی ہے، جہاں کراچی میں بدامنی کے معاملات عسکری بنیادوں پر حل کیے جارہے ہیں وہیں کراچی کو سیاسی طور پر بھی مراعات دینا ہوگی وگر نہ کراچی اسی طرح سلگتا رہے گا ۔
اگست 2017ء کو سندھ حکومت سے مایوس ہونے کے بعد میئرکراچی وسیم اختر نے اس وقت کے گورنر سندھ کے ذریعے وفاقی حکومت سے شہر قائد میں ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے 22ارب روپے کے پیکیج کا مطالبہ کیا ۔ یاد رہے کہ اگست 2017ء کو وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے سندھ کا بجٹ پیش کیا تھا جسے میئرکراچی وسیم اختر نے مسترد کرتے ہوئے، اسے کراچی کے شہریوں کی امنگو ں کے خلاف قرار دیا تھا ۔
ذرائع کے مطابق میئرکراچی وسیم اختر نے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی بجٹ تقریر سے مایوس ہوکر اسی روز سابق گورنر سندھ محمد زبیرکو خط ارسال کیا تھا جس میں گورنر سندھ کے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ہیڈ آفس کے دورے اور دیگر ملاقاتوں کا حوالہ دے کر 12اہم منصوبوں کی سفارشات بھیج کر درخواست کی کہ انھیں فوری طور پر وزیر اعظم کے صوابدید ی فنڈز سے منظورکرایا جائے۔
ذرایع نے بتایا کہ میئرکراچی نے جن ترقیاتی منصوبو ں کے لیے فنڈز مانگے ان میں سخی حسن چورنگی پر فلائی اوورکی تعمیر کے لیے 875ملین ، فائیواسٹار چورنگی پر فلائی اوور کے لیے 890ملین،کے ڈی اے چورنگی پر فلائی اوور کے لیے 910ملین ، نیشنل اسٹیڈیم پر انڈر پاس کی تعمیر کے لیے 742ملین ، عسکری فور پر انڈر پاس کی تعمیر کے لیے 523ملین ، ماڑی پور روڈ پر فلائی اوورکی تعمیر کے لیے 658ملین ، میٹرو پول انٹر سیکشن پر ٹریفک جام کے مسائل کے حل کے لیے 650ملین منگھو پیر روڈ بنارس چوک تا مزارکی تعمیر نو اور فراہمی آب کی 66انچ پائپ لائن کی تبدیلی کے لیے 580ملین ، داؤد چورنگی لانڈھی میں فلائی اوور کی تعمیر کے لیے 870ملین ، غریب آباد انڈر پاس اور لیاقت آباد انڈر پاس کی تعمیر و مرمت کے لیے 228ملین ، کراچی کی اندرونی سڑکوں کی تعمیر کے لیے ایک ارب ، شہر میں آگ بجھانے کے لیے 100فائر ٹینڈر کی خریداری اور محکمہ فائر بریگیڈ کی بحالی کے لیے 5ارب روپے کا تخمینہ آرہا ہے ۔ مگر افسوس ! کہ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے کسی بناء پر اس جانب توجہ نہ دی اور کراچی منہ تکتا رہ گیا ۔
اب جب کہ حالیہ عام انتخابات کے نتیجے میں وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے جو سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے اور کراچی میں سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے، کراچی کی دوسری بڑی جماعت ایم کیو ایم پاکستان اس کی اتحادی جماعت ہے ۔ سندھ میں ایک مرتبہ پھر پی پی پی کی حکومت ہے یہ سب کراچی کے مسائل حل کرنے کے دعویدار ہیں دیکھنا یہ ہے کہ کراچی کے مسائل حل ہوتے ہیں یا پھر ماضی کی طرح ان میں اضافہ ہوتا ہے؟