کون ذمے دار ہے

ے کو لالہ موسیٰ کے قریب ایک وین میں گیس سلنڈر پھٹنے سے 16 معصوم اور ایک ٹیچر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔


Ghulam Mohi Uddin May 27, 2013
[email protected]

لاہور: ستمبر2011ء میں فیصل آباد کے ایک نجی اسکول کا ٹرپ کلرکہار کی سیر کے بعد واپس آ رہا تھا۔ بس خراب تھی مگر پیسے کمانا کسی بھی دوسری ذمے داری سے زیادہ اہم ہے، یہ بس اُلٹ گئی، 72 بچے اور دو ٹیچر اللہ کو پیارے ہو گئے۔ یہ سو فیصد غفلت اور لاپروائی کا نتیجہ تھا۔

جس کی ذمے داری ہماری پبلک ٹرانسپورٹ میں قواعد و ضوابط کی پابندی کو یقینی بنانے پر مامور اداروں سے لے کر بس مالکان' بس کا عملہ اور اسکول کی انتظامیہ سبھی پر عائد ہوتی ہے۔ اس سانحے پر جو کارروائی ہوئی وہ چند روز کے لیے اسکول کی بندش اور سیاسی ضرورت کے تحت جاری کیے گئے بیانات تک محدود ہے۔ ابھی تک اس سانحے سے منسلک کسی شخص کو سزا نہیں ملی۔

ہفتے کو لالہ موسیٰ کے قریب ایک وین میں گیس سلنڈر پھٹنے سے 16 معصوم اور ایک ٹیچر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ شاید سب لوگ اس بات سے واقف نہ ہوں کہ مذکورہ ویگن نہ صرف بچے ڈھونے کا کام کرتی تھی بلکہ اسکول کے جنریٹر کے لیے پیٹرول کا کین بھی اسی ویگن میں لایا لے جایا جاتا تھا۔ گاڑی کے فٹنس سرٹیفکیٹ کی معیاد گزر چکی تھی۔ تھوڑی دیر کے لیے اگر یہ سوچیں کہ ہم سب کے بچے اس وین میں تھے تو دل پر کیا گزرے گی۔

اس اندوہ ناک سانحے کے بعد کیا ہو رہا ہے اور کیا ہو گا' اس بات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ وہی کچھ ہو گا جو کلرکہار بس حادثے کے بعد ہوا تھا۔ سب سے پہلے میڈیا کا ذکر کرتے ہیں۔ ہمارے میڈیا میں خبروں کو فلموں کے قریب تر کر دینے کی روش جڑ پکڑ چکی ہے۔ اس حادثے کی کوریج کے لیے بعض چینل نے ماتمی کورس کا بندوبست کر لیا تھا جسے خبر کے پس منظر میں بجایا جاتا تھا۔

کیسی ستم ظریفی ہے کہ ایک خاندان جو غم سے ٹوٹ گیا ہے'ٹی وی چینلز کے کارندے ان سے تاثرات اگلوانے پر مُصر ہیں۔میں تو ایسے فعل کو انسانی جذبات پر دہشت گرد حملے کے مترادف سمجھتا ہوں، اگر ایک چینل کسی سے بات کرے تو باقی سب بھی حساب برابر کرنے کے لیے دوڑ پڑیں گے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب بے حس ہی نہیں بے رحم ہوچکے ہیں۔

اب آ جائیں سرکار کی طرف تو وہاں لوگ موجود ہوتے ہیں جو فوراً کسی سانحے پر گہرے دُکھ کا اظہار تحریر کر کے میڈیا کو جاری کر دیتے ہیں۔ ان بیانات سے کبھی صورت حال میں بہتری آئی نہ ایسے واقعات کا تدارک ہوا' مستقبل میں بھی ایسا نہیںہو گا۔ مثال کے طور پر کسی گاؤں میں کسی غریب کی بچی کے ساتھ گینگ ریپ ہو گیا۔ وزیراعلیٰ یا وزیراعظم وہاں پہنچ جائیں گے۔ ساتھ کیمرہ ٹیمیں بھی ہوں گی۔ ان ٹیموں میں ایسے ماہرین بھی ہوتے ہیں جن کی صلاحیتیں کسی فلم ڈائریکٹر سے کم نہیں ہوتیں۔ وہ اس بات کا خیال رکھیں گے کہ یہ واضح طور پر نظر آئے کہ عزت مآب وزیراعظم اس بدقسمت گھرانے کی ٹوٹی چارپائی پر جا بیٹھے تھے۔

یہ بھی ان کے پیش نظر رہے گا کہ عوام اپنی ٹی وی اسکرینوں پر وہی مناظر دیکھیں جب ان کے رہنما کے چہرے پر دُکھ اور ملال کا تاثر سب سے زیادہ گہرا ہو اور اخبارات کی زینت بھی وہی تصاویر ہوں جن میں عوام کی دلجوئی کا تاثر اتنا گہرا ہو کہ اگلے انتخابات تک ذہنوں پر نقش رہے۔ حالانکہ ایسے واقعات پر اقدامات تو اپنے دفتر میں بیٹھے بیٹھے ہو سکتے ہیں۔ دنیا میں شاید ہی کسی ملک میں ایسی ڈرامے بازی ہوتی ہے۔ اِسی ایک مثال کا تجزیہ کر لیتے ہیں۔ اس قسم کے جرائم کا ارتکاب وہی لوگ کرتے ہیں جن کو انتہائی طاقتور اور مؤثر لوگوں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔

کسی بات کو نہ ماننے والے غریب کو ذلیل وخوار کرنے کے لیے بھی ایسی وار داتیں کی جاتی ہیں۔ لیکن ان واقعات پر فلمیں بنوانے والے کبھی بھی اس طبقے کا ڈنک نکالنے کے اقدامات نہیں کریں گے جو جرائم پیشہ افراد اور اشتہاریوں کو اپنے سائے تلے رکھتے ہیں اور انھیں جس کے خلاف چاہیں استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے لیڈر اس مائنڈ سیٹ کے خلاف کبھی علم بغاوت بلند نہیں کریں گے جس کا نتیجہ ایسے واقعات کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

زندہ جل جانے والے معصوم بچوں کی موت کی ذمے داری کس پر ہے؟ اس سوال کا جواب نہیں مل سکتا کیونکہ ہمارے ہاں واقعات کی ذمے داری کے تعین اور تعین کے بعد نتائج کا سامنا کرنے کا چلن مُدتوں سے رخصت ہو چکا۔ ہمارے اردگرد جو کچھ غلط ہو رہا ہے اس کا کوئی ذمے دار نہیں۔ نیچے سے لے کر اوپر تک جو کچھ ہو رہا ہے ''اللہ کی رضا'' ہے۔ اس طرح کے واقعات کا تدارک کوئی مشکل نہیں۔ یہ کام مقامی حکومتیں کیا کرتی ہیں۔ مقامی سطح پر اس بات کو یقینی بنانا بہت آسان ہے کہ ایک کونسلر کے علاقے سے کتنے بچے اور نوجوان اسکولوں کالجوں میں جاتے ہیں، اُن گاڑیوں ، رکشوں کی حالت کی نگرانی ہو سکتی ہے، مقامی حکومتوں کو اس بات کا ذمے دار بنایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے علاقے کے بچوں کی نگہبانی کریں۔

لیکن مقامی حکومتیں بھی اُسی وقت بنیں گی جب حکمرانوں کو یقین ہو جائے کہ اُنہی کے غلاموں کا گروہ کامیاب ہو گا۔ پبلک ٹرانسپورٹ وہ سہولت ہے جس پر لاکھوں لوگوں کو انحصار کرنا پڑتا ہے، خواہ حالات کچھ بھی ہوں۔ اس پر اعتماد وہ ادارے پیدا کرتے ہیں جو قواعد کی پابندی کروانے پر مامور ہیں خواہ انھیں خود ہر گاڑی تک پہنچنا پڑے۔ ذمے داری کا تعین واضح اور غیر مبہم ہونا گڈ گورننس کی کلیدی شرط ہے، ایسا نہیں ہو گا تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے لے کر بچوں کے زندہ جل جانے تک ہر قسم کے سانحات ہوتے رہیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں