مستقبل ماضی کا چربہ نہیں ہوگا
ہمارے زمینی خداؤ چاہے تمہیں اچھا لگے یا نہ لگے اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔
زندگی ہمیشہ خواب کا پیچھا کرتی رہتی ہے، انسان ہار جاتا ہے لیکن زندگی کبھی نہیں ہارتی۔ تین ہزار سال پہلے ایک انسان نے سوچا کہ ہم اڑ سکتے ہیں اور اس نے پر بنا کر اپنے جسم سے باندھ لیے اور اکاروس اوراس کے بیٹے نے ان پر بھروسہ کرتے ہوئے اڑنے کی کوشش کی اور سمندر میں جاگرے۔ 30 نسلیں گزرگئیں اور لیونارڈو ڈاونسی نے خواب کو حقیقت میں بدلنا چاہا، اس نے اپنے تصویروں کوکھرچ اور رگڑ ڈالا، یہ تصویریں اس قدردلکش اور ہوشربا ہیں کہ ان کا حشر دیکھنے والا رنج سے اپنے سانس رو ک لیتا ہے۔
ان تصویروں پر اس نے اڑنے والی مشینوں کے منصوبے رقم کیے تھے اور ساتھ ہی ریاضیاتی اعداد وشمار لکھے تھے، اس نے اپنے نوٹس میں ایک ننھی سی تحریر چھوڑی جو ایک مرتبہ سننے کے بعد حافظے میں گھنٹی کی طرح بجتی ہے ''پر ہوںگے'' لیونارڈو ناکام ہوگیا اور مرگیا لیکن زندگی خواب کا تعاقب کرتی رہی، مزیدکئی نسلیں گزرگئیں اور لوگ کہتے رہے کہ انسان کبھی نہیں اڑے گا،کیونکہ یہ خدا کی مرضی نہیں ہے اور پھر انسان اڑا اور اس نے پرندے کے صد ہا سال پرانے چیلنج کا جواب دے دیا۔
زندگی وہ چیز ہے جوکسی مقصد سے 3000 برس تک وابستہ رہ سکتی ہے اورکبھی ہار تسلیم نہیں کرتی۔ فرد چلا جاتا ہے لیکن زندگی جیت جاتی ہے۔اگر ہمارے ملک کی اشرافیہ اور امراء یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جیت گئے ہیں اوربیس کروڑ انسانوں کی خوشحالی، ترقی،کامیابی،اختیار، حقوق کے خواب ہارگئے ہیں تو یہ ان کی سب سے بڑی بھول ہے، بہت جلد انھیں اس بات کا احساس ہوہی جانا ہے کہ جسے وہ اپنی کامیابی یا جیت سمجھے بیٹھے ہیں، اصل میں وہ شکست اور ناکامی کے سوا کچھ نہیں، انسانوں کی ہارکسی صورت دوسرے انسانوں کی جیت نہیں ہو سکتی۔
یہاں تک تویہ سچ ہے کہ خوشحالی، اختیار، حقوق، ترقی،کامیابی کی جنگ میں ہم ہارے ہیں، ہمارے بزرگ ہار ے ہیں، ان کے بزرگ بھی ہارے ہیں لیکن یہ سچ نہیں ہے کہ اس لڑائی میں ہار اور ناکامی ہمیشہ ہمارے ہی حصے میں آئے گی اور جیت اورکامیابی ہمیشہ ان کی ہی جھولی میں گرے گی۔
یاد رکھوکسی بھی وقت جگہیں بدل سکتی ہیں، آج ہم جس جگہ پر ہیں اور تم جس جگہ ہوکل ہم تمہارے جگہ ہو سکتے ہیں اور تم ہماری جگہ ۔ اس لیے کہ زندگی کبھی ہار تسلیم نہیں کرتی،کامیابی تک لڑتی رہتی ہے، اس ناپاک سوچ جس کے کہ تم مالک ہو تم سے پہلے دنیا میں ان گنت انسان اسی سوچ کے مالک رہے ہیں اور انھوں نے ظلم، زیادتی، ناانصافی کے ذریعے اپنی جگہ اور مقام پر قائم رہنے کی کوششیں کیں لیکن انسانی تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ جگہیں تبدیل ہوتی رہیں کار سیرا جسے اب کو رفو کہتے ہیں 427 ق م میں حکمران امرا نے عوامی پارٹی کے ساٹھ رہنماؤں کو قتل کر دیا ۔
اس پر جمہور پسندوں نے امراء کا تختہ الٹ دیا اور ان میں سے پچاس کے خلاف اپنی قائم کردہ عوامی تحفظ کی کمیٹی میں مقدمہ چلایا اور ان سب کو سزائے موت دے دی اور طبقہ امرا میں سے سیکڑوں کو بھوکوں مار ڈال۔ اس دورکے متعلق تھوسی ڈائیڈیس کی یہ منظر کشی ہمیں 1792-93ء کی خانہ جنگی کے دور کے پیرس کی یاد دلاتی ہے ''سات دن تک کارسیرا کے باشندے اپنے ان ساتھی شہریوں کے قتل عام میں مصروف رہے جنہیں وہ اپنا دشمن سمجھتے تھے ہر طرف موت کی حکمرانی تھی اور جیسا کہ اکثر ایسے موقعوں پر ہوتا ہے ظلم و بربریت میں اپنی تمام حدیں پھلانگ گئی بیٹوں کو باپوں نے قتل کردیا، عبادت گاہوں میں پناہ لینے والوں کو باہرگھسیٹ لیاگیا یا پھر وہ تہہ تیغ کردیے گئے ۔
اسی طور انقلاب شہر بہ شہر پھیلتا گیا اور جن جگہوں پر یہ بعد میں پہنچا وہاں پچھلی کارگزاریوں کے بارے میں سن کر انتقامی کارروائیاں اور بھی پرتشدد اور ظالمانہ انداز میں کی گئیں کارسیرا کے لوگوں نے ان جرائم کی پہلی مثال قائم کی یعنی محکوموں جو ہمیشہ اپنے حکمرانوں کے غیر منصفانہ اور پر تشدد برتاؤکا شکار رہے تھے کا اپنے آقاؤں سے بدلہ ۔ جس میں انتقام کے اندھے جذبات وحشیانہ اور بے رحمانہ مظالم روا رکھے گئے یوں پوری دنیائے یونان میں کھلبلی مچ گئی۔''
دوسری طرف امریکی انقلاب نہ صرف آباد کاروں کی دور دراز سے ہونے والی حکمرانی کے خلاف بغاوت تھی بلکہ یہ مقامی درمیانے طبقے کی درآمد شدہ اشرافیہ کے خلاف جنگ بھی تھی، علاقے کی وسعت اور قوانین کی عدم موجودگی کے باعث امریکی آباد کاروں کی بغاوت اور بڑی تیزی سے پھیلتی گئی، چونکہ یہ لوگ اپنی کاشت کردہ زمین کے خود مالک تھے اور انھیں اپنے ماحول پر دسترس حاصل تھی۔
اس لیے ان کا کردار اور تشخص اس سرزمین امریکا سے وابستہ تھا اور اس چیز نے انھیں سیاسی آزادی کے لیے ایک معاشی بنیاد فراہم کردی ، یہ ہی لوگ تھے جنہوں نے جیفرسن کو جوکہ والیٹر اور روسوکی طرح انقلابی تھا، اپنا صدر بنا لیا، انھوں نے ایسا طرز حکومت تشکیل دیا جس میں لوگوں پر حکمرانی کا جبرکم سے کم رکھا گیا تھا۔ اسی نظام حکومت کی بدولت امریکا ایک ویرانے سے جنت اراضی میں بدل گیا۔
انگلستان، ڈنمارک، ناروے، سوئیڈن، سوئٹیزر لینڈ، جرمنی، فرانس، روس، ویت نام اور دیگر خوشحال، ترقی یافتہ ممالک کے لوگ بھی اپنی جگہیں اور مقام بدل چکے ہیں ہمارے زمینی خداؤ چاہے تمہیں اچھا لگے یا نہ لگے اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ یاد رکھو ! ہم سب کا مستقبل ماضی کا چربہ نہیں ہوگا، جلد ہی ہم تمہاری جگہوں پر ہوں گے اور تم ہماری جگہوں پر۔