مسٹر پومپیو کا دورہ پاکستان اور نئی حکومت
پومپیوامریکی حکمرانوں کا کیا پیغام لائیں گے یہ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کے بیانوں سے پہلے ہی واضح ہوچکا ہے۔
امریکن سیکریٹری اف اسٹیٹ مائیکل رچرڈ پومپیو پاکستان تشریف لارہے ہیں۔ انھیں ہماری نئی حکومت سے کچھ اُمیدیں وابستہ ہیں۔ وہ آج کل اِن اُمیدوں کو بر لانے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ پاکستان کی یہ نئی حکومت بھی سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی طرح اُن کے تمام مطالبات اور احکامات کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہوئے یکطرفہ تعلقات اور محبت کے نئے رشتے استوارکرنے میں لمحے بھرکی تاخیر نہیں کرے گی۔
پاکستان آنے سے پہلے ہی انھوں نے اپنا ایجنڈا اور نکتہ نظر ہماری اِس نئی حکومت کے سامنے رکھ دیا ہے تاکہ بات چیت کرتے ہوئے انھیں کسی پس وپیش اورتذبذب کا سامنا نہ ہواور وہ اپنا ہوم ورک مکمل کرچکی ہو۔ اب یہ ہماری حکومت کا کام ہے کہ وہ اُن سے گفت وشنید کرتے ہوئے پاکستانی قوم کی عزت وقار اور خود داری وخود مختاری کا کتنا خیال رکھتی ہے۔ پومپیوامریکی حکمرانوں کا کیا پیغام لائیں گے یہ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کے بیانوں سے پہلے ہی واضح ہوچکا ہے۔
اِس کے لیے ہمیں کسی مخمصہ میں رہنے کی چنداںضرورت نہیں ہے۔خوش قسمتی سے ہماری اِس حکومت کا وزیرخارجہ بھی کوئی نیا اور اجنبی شخص نہیں ہے۔ اُسے اِس کام کا پہلے سے بہت تجربہ حاصل ہے۔ حکومت نے بھی اِس ضمن میں یہ کام اچھا کیا کہ امریکی وزیر خارجہ کے دورے سے قبل ایک طویل ملاقات ہمارے اُن جرنیلوں سے بھی کرلی ہے جنھیںہماری خارجہ پالیسی کے خدوخال ترتیب دینے کا شرف ہمیشہ سے حاصل رہا ہے۔ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کا اصل معمارکون رہا ہے۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکا، بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کن اُصولوں اور ضابطوں پر مبنی ہوں یہ طے کرنا کسی واحد سویلین حکمراں کے اختیار میں قطعی طور پر نہیں رہا ہے۔
ذوالفقارعلی بھٹوکو بھی اپنے پانچ سالا جمہوری دور میں اِس معاملے میں اگرکچھ ڈھیل اور چھوٹ دی گئی تو وہ بھی محض اِس لیے کہ اُن کی بطور وزیرخارجہ ساری تربیت اور ٹریننگ ایک فوجی حکمراں کے زیراثر ہوئی تھی اور وہ اُس وقت پاکستان کے تخت وتاج کے مالک بنے جب افواج سقوط ڈھاکا کے الزامات سے خود کو بچانے کی جستجو میں لگی ہوئی تھی، ورنہ کسی بھی سویلین حکمراں کا یہ حق نہیں رہا کہ وہ تن ِتنہا ملک کی کوئی خارجہ پالیسی بنا پائے۔
امریکا اچھی طرح جانتا ہے پاکستان کا کوئی بھی جمہوری حکمراں اُس کے ایک حکم پر پرویز مشرف کی طرح یوں باآسانی ڈھیر نہیں ہو جائے گا۔اُسے اِس بارے میں بھی مکمل ادراک ہے کہ ہمارے سویلین حکمراں کے اختیار میں کیا کچھ ہے، لیکن وہ پھر بھی طاقت و اختیار کے اصل منبع سے براہ راست مخاطب ہونے کی بجائے پہلی کوشش کے طور پر کمزور اوربے بس طبقے پر دباؤ ڈال کر اپنا مقصد پورا کرناچاہتا ہے۔ اب یہ ہماری اِس نئی سویلین حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ اِس مشکل صورتحال سے کس طرح عہدہ برآ ہوتی ہے۔ ایک جانب معیشت کی زبوں حالی اور دوسری جانب امریکی حکمرانوں کے ایسے مطالبے جن کا پورا کیا جانا خود اُس کے اختیار میں نہیں ہے۔
صرف سفارتی ڈپلومیسی سے یہ دونوں ایشوز ایسے ہیں کہ حل نہیں ہو پائیں گے۔ نہ گرتی ہوئی معاشی صورتحال کوکوئی سہارا مل سکتا ہے اور نہ امریکی مطالبوں کو جوں کاتوں تسلیم کیاجاسکتا ہے۔ اِس کے لیے بڑی ہشیاری اور مہارت کے ضرورت ہے ۔ خان صاحب کو سیاست میں آج تک صرف اپوزیشن کا تجربہ حاصل ہے۔ وہ اِس سے قبل کبھی بھی کسی ایسے عہدے پر نہیں رہے ہیں جہاں اتنے سارے گھبیر مسائل درپیش ہوں۔ انھوں نے حکومت وقت کے ہر کام میں ہمیشہ کیڑے ہی تلاش کیے، حکومت بھی بین الاقوامی معاملات کے تناظر میں کتنی مجبور اورلاچار رہی ہو خان صاحب کبھی بھی کسی کوکوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہ تھے۔آج خود اُن کی اپنی باری ہے۔ انھوں نے قوم کوجب ایک نئے پاکستان کا خوب صورت نعرہ دیا ہے تو پرانے پاکستان کا کوئی کام بھی اب یہاں دوبارہ نہیں ہوگا۔یہ نہیں ہوسکتا کہ اپنے غلط کاموں کاسابقہ غلط کاموں سے موازنہ کرکے انھیں درست اور نسبتاً بہترثابت کیاجائے، جو اُس وقت غلط تھے وہ آج بھی غلط اور ناپسندیدہ ہونے چاہئیں۔
امریکی سیکریٹری اف اسٹیٹ کا دورہ بین الاقوامی محاذ پر خان صاحب کی حکومت کے لیے باعزت جرأت مندانہ موقف اختیار کرنے کا اولین نادر موقع ہے۔وطن عزیزکی عزت وقار اور خود مختاری کا سودا کیے بغیر وہ امریکی مطالبوں پرکیسا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔اُسے دیکھ کر ہی اُس کے آیندہ آنے والے فیصلوں کے بارے میں کوئی حتمی رائے ترتیب دی جاسکتی ہے، یہ تو ایک چھوٹا سا ایشو ہے۔ آیندہ آنے والے دنوں میں اور بھی بڑے بڑے ایشوز سامنے آسکتے ہیں۔فی الحال تو امریکی حکومت بھی یہ کہہ چکی ہے کہ وہ اِس نئی حکومت کو کچھ وقت دینا چاہتے ہیں۔اِس لیے مسٹر پومپیو کے اِس دورے سے کسی بہت بڑے طوفان کی آمد کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اِس دورے کے بعد ہی وہ کوئی لائحہ عمل ترتیب دینے کی کوشش کرینگے۔
امریکی مطالبے کیا ہیں اور پاکستان انھیں کس طرح پورا کر سکتا ہے یہ ایک بہت ہی مشکل سوال ہے۔ اول تو پاکستان یہ تسلیم کرنے پر راضی ہی نہیں ہے کہ ہماری سرزمین کسی بھی دہشتگردکے لیے محفوظ پناہ گاہ ہے۔ ہم تو ہمیشہ یہی کہتے رہے ہیں کہ ہمارے یہاں سے سرکاری سرپرستی میں کسی بھی پڑوسی ملک میں کبھی بھی دہشتگردی نہیں ہواکرتی ہے۔ ہم نے تو ضرب العضب اور رد الفساد کے ذریعے نہ صرف دہشتگردوں کے تمام گروہوں کا خاتمہ کردیا ہے بلکہ ان کا نیٹ ورک بھی تباہ و برباد کرڈالا ہے۔ اِس لیے امریکا کا یہ مطالبہ توکسی طور لائق غور بنتا ہی نہیں ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین سے دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرے۔
ہم امریکا کے اِس مطالبے کو تسلیم کرکے یا اُس پر غور اور عمل کرنے کا عندیہ دیکر خود اپنے اُصولی موقف سے انحراف کرتے دکھائی دیں گے۔ لہذا ہمیں اُن کایہ مطالبہ توکسی طور خیال خاطر میں لانا ہی نہ ہوگا، بلکہ انھیں قائل کرنا ہوگا کہ وہ ہماری بات کو اور ہمارے اُصولی موقف کو تسلیم کریں ۔ اِس کے بعد ہی ہماری اور اُن کی کوئی بات چیت آگے بڑھ سکتی ہے۔
امریکا کا دوسرا بڑا مسئلہ پاک چین اکنامک کوریڈور ہے، وہ اِسے ہر حال میں روکناچاہتا ہے، مگر ہماری مشکل یہ ہے کہ یہ اب ہماری معیشت کی شہ رگ بن چکا ہے۔ اِس سے روشن مستقبل کے ہمارے سارے خواب جڑے ہوئے ہیں۔کوئی بھی حکومت اِس سے روگردانی نہیں کرسکتی۔ نئی جمہوری حکومت کے لیے یہ بھی ایک بہت بڑا امتحان ہے کہ وہ کس طرح اِس کٹھن مشکل سے نبرد آزما ہوتی ہے۔
ایک طرف گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے آئی ایم ایف سے قرضوں کی اشد ضرورت ہے تو دوسری طرف امریکا کا وہ دباؤ ہے جو اِن قرضوں کے بدلے سی پیک رول بیک کرنے کی شرط سے مشروط ہو رہاہے۔ قرضے نہ ملنے کی صورت میں ممکنہ طور پر دیوالیہ قرار دیے جانے کا خدشہ بھی لاحق ہے۔ اب ایسی صورتحال میں وہ کیا اہم اورمؤثر اقدامات کرتی ہے۔ یہ خود اِس نئی حکومت اوراُس کے ماہر ین معاشیات کی قابلیت اورلیاقت کے لیے ایک بہت بڑا سوال اورچیلنج ہے۔