حکومت کو میڈیا ٹرائل کے زور پر خوفزدہ کرنے کی کوشش کون کر رہا ہے

معلوم ہوتا ہے کہ میڈیا میں موجود ن لیگ کے ’’سلیپر سیل‘‘کا بھرپور استعمال کیا گیا ہے۔


رضوان آصف September 05, 2018
معلوم ہوتا ہے کہ میڈیا میں موجود ن لیگ کے ’’سلیپر سیل‘‘کا بھرپور استعمال کیا گیا ہے۔ فوٹو : فائل

تحریک انصاف کی حکومت کو ''نیا پاکستان'' بنانے کی راہ میں ''پرانے پاکستان'' کے مسائل کا سامنا ہے۔

گزشتہ روز تحریک انصاف کے متحرک اور دانشور رہنما ڈاکٹر عارف علوی صدر پاکستان منتخب ہو چکے ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومتیں فعال ہو چکی ہیں، بلوچستان میں اتحادی حکومت کام کر رہی ہے اور کپتان وفاقی ٹیم کو میدان میں لا چکے ہیں لیکن اس سب کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت کے بارے جو پہلا سوال اس وقت عام پاکستانی کی سوچ میں آتا ہے کہ ''کھلاڑی یہ میچ جیت پائیں گے''۔

تحریک انصاف کو پہلی مرتبہ وفاق اور پنجاب میں اقتدار ملا ہے،کابینہ کے ارکان کی اکثریت NEW COMER اور ناتجربہ کار ہے اور ابتدائی ایام میں بعض وفاقی وصوبائی وزراء سے کچھ غلطیاں بھی سرزد ہو گئیں جن کی بنیاد پر مین سٹریم اور سوشل میڈیا میں تحریک انصاف کا خوفناک میڈیا ٹرائل بھی کیا گیا ہے ۔

وزراء کی غلطیاں اتنی سنگین نہیں تھیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ میڈیا میں موجود ن لیگ کے ''سلیپر سیل''کا بھرپور استعمال کیا گیا ہے۔ عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کے دوران سینکڑوں مرتبہ یہ کہا تھا کہ اگر ان کی حکومت بنتی ہے تو انہیں پہلے 100 دن کی کارکردگی کی بنیاد پر پرکھا جائے۔ لہذا غیر جانبداری اور انصاف پرستی کا تقاضا تو یہی ہے کہ تحریک انصاف کو 100 دن دیئے جائیں اس کے بعد ان کی پالیسیوں اور اقدامات پر تنقید یا تبصرہ کیا جائے۔

ن لیگ الیکشن ہاری ہے لیکن اس کی نشستوں بالخصوص پنجاب میں صوبائی نشستوں کی تعداد یہ واضح کر چکی ہے کہ اگر تحریک انصاف نے عمدہ کارکردگی پیش نہ کی تو آئندہ الیکشن میں ن لیگ ''کم بیک'' کر سکتی ہے۔ ویسے بھی ''بادشاہ گر'' کی آج کی پسند کل کی ناپسند بن سکتی ہے اور راندہ درگاہ کو واپس بلا کر مسند پر بٹھانا تو ''ان'' کا پرانا وطیرہ ہے۔

عمران خان کو اس وقت سب سے بڑا چیلنج امور مملکت چلانے کیلئے مالی وسائل کی سنگین قلت کی صورت میں درپیش ہے۔ یہ صورتحال وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کیلئے بھی ایک امتحان ہے کیونکہ گزشتہ کئی برسوں سے عمران خان اپنی تقاریر اور میڈیا گفتگو میں اسد عمر کی مالی امور میں مہارت پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ پاکستانی معیشت اس وقت شدید ترین دباو اور مسائل کا شکار ہے، غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے ہیں، امریکہ نئی حکومت کو دباو میں لانے بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ بلیک میل کرنے کیلئے مالی دشواریاں پیدا کر رہا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت نئے ٹیکس لگانے سے بھی گریز کرے گی کیونکہ یہ ان کے منشور کے خلاف ہے جبکہ ٹیکس نیٹ ورک کو بڑھانے کیلئے کچھ عرصہ درکار ہے۔ ایف بی آر میں اصلاحات کا آغاز ہو چکا ہے لیکن عمران خان کے دعوے کے مطابق سالانہ 8 ہزار ارب روپے ریونیو کا حصول وقت طلب اور غیر معمولی اقدامات کا طلبگار ہوگا۔ بجلی بنانے والی کمپنیوں کو سرکلر ڈیبٹ کی رقوم کی ادائیگی بھی اہم ہے کیونکہ بقایا جات ادا کیئے بغیر مکمل استعداد کے مطابق بجلی بنانا مشکل ہے اور لوڈ شیڈنگ کے معاملہ میں پاکستانی عوام نے ن لیگ اور تحریک انصاف کی حکومت کو ایک ہی نگاہ سے پرکھنا ہے۔

پنجاب میں ن لیگ کی پوری کوشش ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نہ چل پائے۔ حمزہ شہباز اس حوالے سے بہت جارحانہ موڈ میں دکھائی دیتے ہیں۔ سپیکر پنجاب اسمبلی کیلئے الیکشن کے دن جب چوہدری پرویز الہی منتخب ہو کر سپیکر کی نشست پر براجمان ہوئے تو حمزہ کی ہدایت پر ن لیگ کے اراکین نے طویل وقت تک شدید احتجاج اور نعرے بازی کی تھی۔ حمزہ شہباز خود بھی پرجوش انداز میں نعرے لگاتے رہے لیکن جتنی دیر احتجاج جاری رہا حمزہ شہباز مسلسل چوہدری پرویز الہی کی جانب دیکھ کر یہ جائزہ لینے کی کوشش کرتے رہے کہ اسقدر شدید نعرے بازی سے چوہدری صاحب کے چہرے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن چوہدری پرویز الہی سیاست کے کھیل میں بڑے کھلاڑی ہیں ۔

انہوں نے حمزہ شہباز کے والد گرامی کو سیاست کی الف ب پڑھائی ہوئی ہے لہذا وہ حمزہ شہباز کی زیر قیادت ہونے والے احتجاج سے کیسے گھبرا جاتے۔ پنجاب کے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کی اڑان تو بہتر دکھائی دیتی ہے لیکن ان کی پرواز کی صلاحیت کا اندازہ آنے والی آندھیوں اور طوفانوں کے دوران ہوگا۔یہ امر تشویشناک ہے کہ پنجاب کابینہ کی تشکیل کو کئی دن گزر گئے ہیں لیکن پنجاب کی بیوروکریٹک ٹیم ابھی نہیں بن پائی ہے۔ وزیر اعلی کو جہانگیر ترین اور علیم خان سمیت دیگر رہنماوں سے مشاورت کے بعد سیکرٹریز، ڈی جیز، ڈی پی اوز اور ڈی سی اوز کے تقرر وتبادلے کا اہم مرحلہ مکمل کر لینا چاہیئے۔

پنجاب حکومت کو کامیابی سے چلانے کے حوالے سے سردار عثمان بزدار کو اپنی جماعت کے ''ڈی فیکٹو'' عمران خان اور تحریک انصاف کی وفاقی و پنجاب حکومت کی تشکیل میں سب سے اہم کردار نبھانے والے رہنما جہانگیر ترین کی ہمہ وقت رہنمائی ضرورحاصل کرنی چاہیئے۔ میاں شہباز شریف نے 1997 میں پہلی مرتبہ وزیر اعلی پنجاب بننے کے بعد عوام میں مقبول ہونے والے جو منصوبے اور اقدامات متعارف کروائے تھے ان کی اکثریت کے خالق جہانگیر ترین تھے، اس کے بعد جب چوہدری پرویز الہی وزیر اعلی بنے تو انہوں نے بھی جہانگیر ترین کے زرخیز آئیڈیاز سے بھرپور استفادہ کیا تھا۔

پنجاب میں نئے بلدیاتی نظام کی تشکیل کیلئے عمران خان کی ہدایت پر عبدالعلیم خان اس وقت بھرپور کام کر رہے ہیں، سیکرٹری بلدیات عارف انور بلوچ بھی ان کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف جس نوعیت کا بلدیاتی نظام پنجاب میں متعارف کروانا چاہتی ہے اگر وہ اپنی اصل روح اور نظریہ کے مطابق فعال ہو گیا تو یہ انقلابی تبدیلی ہو گی ۔ عبدالعلیم خان سب سے اہم وزارت کی ذمہ داریاں بھی عمدگی سے نبھاہ رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے سیاسی رہنما کی حیثیت سے بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، گزشتہ روز صدر پاکستان کے انتخاب کے حوالے سے عبدالعلیم خان پنجاب اسمبلی میں نہایت متحرک دکھائی دیئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں