سیاسی چورن
آج کل اخباری دنیا یا سوشل میڈیا کے سیاسی موضوعات عجیب ہوتے ہیں۔
کوئی زمانہ تھا کہ ٹرین کا سفرخاص ہوا کرتا تھا ۔ مجھے بچپن کے سارے سفر یاد ہیں اور ان سے رومانوی سا تصور وابستہ ہے، چونکہ والد صاحب کا تبادلہ چند سالوں میں ہو جاتا تھا، لہذا سندھ کے کئی اسٹیشنز اورحیدر آباد ریلوے اسٹیشنزکی پرانی یادیں آج بھی ذہن کا دروازہ اکثر کھٹکھٹاتی ہیں۔
حیدرآباد ریلوے اسٹیشن قدیم اورکسی زمانے میں خاص ہوا کرتا تھا، مگر آج خستہ حال اور اداس دکھائی دیتا ہے۔ داخل ہوتے ہی عجیب سی اداسی محسوس ہوگی۔ جیسے کوئی بھولا بسرا رشتہ نظراندازکیے جانے کے غم میں مبتلا تنہا کھڑا ہو۔ حالانکہ ریلوے اسٹیشنز شہروں کی کھڑکیاں یا دروازے ہوتے ہیں۔ یہ ثقافتی وتہذیبی ورثے کی ترویج کے مرکز ہونے چاہیئیں، پررونق اور ہشاش بشاش۔
ہر اسٹیشن کا کھانا مختلف۔کہیں پکوڑے دستیاب توکہیں میہڑکے ماوے کی صدائیں سنائی دیتیں۔کسی زمانے میں پھیری والے رنگ برنگے پراندے،کشیدہ کاری و موتیوں سے سجے ازار بند ، گج (سندھی عورت کی خصوصی پوشاک) ، ٹوپیاں وغیرہ لیے پھرتے۔ یہ سماں میں نے تھائی لینڈ کے مقامی اسٹیشن پر دیکھا، جہاں اکثر اسٹال خواتین نے سجا رکھے تھے۔ گھریلو صنعت کی بنی اشیاء فارینرز دلچسپی سے خرید رہے تھے۔ باقاعدہ اس شہرکی ثقافت کا ذائقہ محسوس ہو رہا تھا۔
مگر اب اسٹیشنز پر زندگی کے آثار نہیں دکھائی دیتے بڑے شہروں کے علاوہ۔
واپس حیدرآباد کی طرف آتے ہیں جہاں آج بھی بک اسٹال ہے جو ہمیشہ سے مطالعے کے رسیا افراد کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ یہ اکثر سندھ کے اسٹیشنز پر پائے جاتے ہیں۔ ہاکر سے اخبار یا ڈائجسٹ خریدتے اور سفر مزے سے گزر جاتا۔ سندھ میں اخبار یا کتاب پڑھنے والوں کا وسیع حلقہ موجود ہے۔گائوں و دیہات میں آپ کو کتاب کی عشق میں مبتلا خواتین و نوجوان دکھائی دیں گے۔ لیکن اب یہ اجڑا ہوا اسٹیشن ماضی کی یادگار بنا ہوا ہے۔ لیکن ریلوے کے منسٹر شیخ رشید سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ نہ فقط ریلوے نظام کو بہتر بنائیں گے بلکہ ملک کے تمام اسٹیشنزکو ان شہروں کی ثقافت کا مرکز بھی بنائیں گے۔ جن کے کھانوں کی اپنی انفرادیت ہے۔ ثقافت کا منفرد انداز ہے۔ چاہے سندھ کے ریلوے اسٹیشنز ہوں یا پورے ملک کے یہ اہم کلچرل سینٹرز بن سکتے ہیں۔
ویسے بھی شیخ صاحب کھانے پینے کے رسیا ہیں۔
کھانا تناول کرتے ہوئے ان کی چھپ کر بنائی گئی وڈیوز سوشل میڈیا پرگردش کرتی نظر آتی ہیں۔ آج کل اخباری دنیا یا سوشل میڈیا کے سیاسی موضوعات عجیب ہوتے ہیں، جیسے خاتون اول کا برقعہ، خان کا ہیلی کاپٹر، بشری بی بی کی بے تکی پیروڈی یا نیا وپرانا پاکستان وغیرہ۔ یہ سیاسی چورن و چٹخارے ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ غیبت نہ ہو تو بد ہضمی شروع ہوجاتی ہے۔
شیخ رشید منسٹر بنتے ہی مشکل میں پڑگئے جب محکمے کے اعلیٰ افسر نے دوسال کی چھٹی کی درخواست دیتے ہوئے لکھا کہ وہ شیخ رشید کے ساتھ کام نہیں کرسکتے،کیونکہ وہ زبان درازی بہت کرتے ہیں، حالانکہ ٹیلیوژن پر تو شیخ صاحب کو مسکراتے اور قہقہوں کی پھلجڑیاں بکھیرتے پایا۔ قصور افسرکا قصور ہو گا جو ہر قسم کے باس سے چلنے کا سلیقہ نہیں رکھتے۔ ورنہ انگریزی کا محاورہ ہے کہ باس از آلویز رائٹ، لیکن انگریزی باس اور دیسی باس میں واضع فرق پایا جاتا ہے۔ انگریزی باس کی گفتگو کا ہنر، رہنمائی کی صلاحیت، مشکل وقت کو سنبھالنے کا سلیقہ اور پیشہ ورانہ غیرجذباتی وغیرجانبدار اسلوب کا حامل پایا جاتا ہے۔
آپ سوچ میں پڑ گئے ہونگے کہ آخری صلاحیت کا مطلب کیا ہے۔ کوئی بھی شعبہ ہو اس کے لیے جذباتی،جانبدار یا غیرمہذب زبان پیشہ ورانہ مہارت کے برعکس ہوتی ہے، کیونکہ ماتحت پہلے انسان اور بعد میں افسر ہوتا ہے۔ باس کو بھی انسانی اقدارکے دائرے کار میں رہنا ہے اور نازیبا الفاظ سے اجتناب کرنا چاہیے۔
لیکن ہمارے یاں گالی کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے، کچھ لوگ مزاح پیدا کرنے کے لیے نازیبا الفاظ بولتے ہیں اورکچھ دل کی بھڑاس یا منہ کا ذائقہ بدلنے کی خاطر۔ کچھ عادتا ایسا کرنے پر مجبور ہیں ! میری دوست کے شوہرکہنے کو تو حافظ قرآن ہیں مگرگالیوں میں کمال کی مہارت رکھتے ہیں۔ بیوی بچوں کو ایسے القابات سے نوازتے ہیں کہ علم کی روح فوت ہوجاتی ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے تحریک انصاف کے وزیر انٹرویو کے بعد مائیک کی تاروں کو سلجھانے کی کوشش میں اٹھتے ہوئے غیر مہذب الفاظ بول گئے۔ آج کل وہ وڈیو سوشل میڈیا پر دیکھی جا رہی ہے۔
سوشل میڈیا نہ ہوا منکر نکیر ہوگیا۔ سارے حساب برابر کرکے رکھ دیتا ہے۔
ولگر سلینگ ورڈز انگریزی میں بھی پائے جاتے ہیں۔ جنھیں swear words کہا جاتا ہے، مگر تعلیم یافتہ افراد کے لیے ممنوعہ ہیں۔ خاص طور ہر دفاتر یا پیشہ ور زندگی کا حصہ نہیں بن سکتے۔ مگر اس ملک میں کچھ بعید نہیں کہ غصے میں کوئی کیا بول دے ! ابھی نئی حکومت کو آئے چند دن ہوئے ہیں کہ قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں۔ سیاستدان ہمیشہ مذاق کا نشانہ بنتے ہیں ۔
جتنے قائم علی شاہ کے لطیفے مشہور ہیں، اتنے سکھوں کے نہیں ہونگے۔
اور اب نئے وزیراعظم افواہوں کی زد میں آئے ہوئے ہیں۔
جہاں تک جہاز یا ہیلی کاپٹر کا سوال ہے تو یہ عوامی سواریاں ہرگز نہیں ہیں۔ عوامی ٹریفک بد حال راستوں پر سفر کرتے ہوئے ، عوام کو کمرکے درد یا اعصابی کمزوری کا شکار بنا ڈالتی ہے۔ باقی ٹرین کا سفر بھی کچھ اچھا نہیں۔آرام دہ سفر والی ٹرین کے کرائے بہت مہنگے ہیں اور سروس ایوریج۔ ریلوے کا محکمہ خسارے میں ہے۔ جس پر سینتیس سے چالیس بلین قرضہ ہے ذرا سوچیے۔
جب کہ ریلوے کا سالانہ خرچہ نو بلین ہیں۔ پاکستان ریلوے کے ذریعے ہر سال پچاس ملین مسافر سفرکرتے ہیں۔ ٹرین کے سفرکے معیارکو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
ریلوے منسٹر کا کہنا ہے کہ سابقہ حکومت سب کچھ اچھا ہے کی گردان کرتی رہی اور یہاں محکمہ بری حالت میں ہے، لہذا ریلوے کے پاس بیس پچیس ایکڑ زمین ہے جو ہم پرائیویٹ کمپنیوں کو دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جو بیس سال کے عرصے کے دوران اسٹیشنز، پلازہ اور فوڈ اسٹریٹ بنا کے ادارے کو کسی حد تک خود کفیل بنا سکتی ہیں۔ اس معاملے میں امریکا کی حکمت عملی دیکھیے کہ پہلے وہ کاریں جاپان سے خریدتا تھا اب جاپانی انجینئرز اپنے ملک میں بلا کر وہی کاریں بنا رہا ہے۔ امریکا میں تو سیاحوں کے لیے خاص ٹرینیں چلتی ہیں۔ امریکا، ایشیا و یورپ میں لوگ اکثر ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں۔ یہ سفر آرام دے اور دلچسپ ہوتا ہے۔کافی سیاح جہازکے مقابلے میں ٹرین کو ترجیح دیتے ہیں۔ زمین کے مناظرکا لطف لینے کا بہترین ذریعہ ٹرین کا سفر ہے۔
دوسری طرف جاپان نے بلٹ ٹرین متعارف کرا دی، ہم ابھی پرانے نظام کی درستگی کا سوچ رہے ہیں۔ ہم جاپان کی ایماندارانہ کاروباری حکمت عملی سے ،کسی طور اپنا موازنہ نہیں کرسکتے۔ ماضی کے داغ دھونے میں ایک عرصہ درکار ہے۔