چھ ستمبر ایک سنگ میل
اپنے دفاع کو مضبوط کرنا اور اس کی روح افزا یادوں کو زندہ اور محفوظ رکھنا ہمارا فرض ہے۔
آج سے 53برس قبل چھ ستمبر 1965ء کے سورج نے جو منظر دیکھا اور دکھایا وہ بلاشبہ ہماری قومی تاریخ کے سفر کا ایک سنگ میل تھا اور ہے کہ قیام پاکستان کے تقریباً 18 برس بعد پہلی بار بھیڑ کی طرح چلتی ہوئی قوم نے پھر سے قافلے کا روپ دھارا اور اس کا ہر فرد ملکی دفاع کے حوالے سے ایک دوسرے سے ہم کلام ہوا۔
بلاشبہ لڑائی کسی مسئلے کا حل نہیں ہے لیکن جب آپ کے وجود اور قومی سلامتی پر کوئی حملہ آور ہو تو یہ ایک فریضے کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ یعنی اپنے دفاع کے لیے ہتھیار اٹھانا عین ایمان کا درجہ رکھتا ہے۔
سترہ دن پر محیط اس جنگ کا بیج تو تقسیم کے وقت دونوں ملکوں کی سرحدوں کی لکیریں کھینچنے کے دوران ہی ڈال دیا گیا تھا کہ قائد اعظم کے بقول پاکستان کی شہ رگ یعنی کشمیر کو نہ صرف متنازعہ علاقہ بنا دیا گیا بلکہ اس تک بھارت کو راستہ دینے کے لیے مزید ہیرا پھیری بھی کی گئی اور یوں دونوں نئے ہمسائے بجائے ایک دوسرے سے خیر سگالی کا تبادلہ کرنے کے مخاصمت کی ایک ایسی دلدل میں دھنستے چلے گئے جس کا سب سے زیادہ نقصان دونوں ملکوں کے عوام کو پہنچا کہ دوری اور نفرت کے ایک مستقل پروپیگنڈے اور فضا کے باعث وہ بجائے چین سے مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کی ترقی میں ممدومعاون ثابت ہونے کے ایک ایسے تنازعے کے فریق بن گئے جو بہت آسانی اور انصاف سے اور باہمی اتفاق سے طے شدہ اصولوں کے تحت فوری طور پر حل کیا جا سکتا تھا، ایسا نہ کرنے یا نہ کر سکنے کی وجہ سے جو خلیج صورت پذیر ہوئی اس کا دائرہ پھیلتا ہی چلا گیا اور آج بھی مسلسل فروغ پذیر ہے۔
یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوا یہ ایک طویل بحث ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اتنی پیچیدگیاں پیدا ہو چکی ہیں کہ بظاہر کسی ایسے حل کی کوئی واضح صورت نظر نہیں آتی جس کے تحت '' انصاف'' کو اپنا کام کرنے دیا جائے اور کسی ایسے فیصلے اور نتیجے تک پہنچا جا سکے کہ چھ ستمبر والی صورت حال دوبارہ پیدا ہی نہ ہو سکے۔ اس خواہش اور دعا کے تناظر میں جب ہم چھ ستمبر1965ء پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اس تخریب کے منظر نامے میں تعمیر کا ایک ایسا روشن پہلو بھی نظر آتا ہے جسے سمجھنا اور جس کے سبق کو محفوظ کرنا وہ قیمتی ورثہ اور سرمایہ ہے جس نے ساری قوم کو اپنی بہادر فوج کے پیچھے جذبوں کی ایک دیوار کی صورت کھڑا کر دیا تھا اور سب نے مل جل کر ''دفاع'' کی ایک ایسی تصویر تخلیق کی تھی جس کا ہر رنگ اپنی مثال آپ ہے۔
اتحاد' اعتماد' ایثار اور وطن سے محبت کی جو لہر اس روز چلی اور جس نے نہ صرف ساری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا بلکہ اسے ان قابل رشک اوصاف سے بھی متعارف کرایا جو اس کے اندر موجود تو تھے مگر کبھی اس طرح سے ظاہر اور یکجا نہیں ہوئے تھے۔ یہ ہماری بدقسمتی اور مختلف سیاسی قائدین کی بے بصیرتی ہے کہ وہ فضا زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی اور اگلے چھ برس میں بجائے آگے بڑھنے کے ہم نے آدھا ملک ہی گنوا دیا اور خود علامہ صاحب کے اس شعر کی تصویر بن کر رہ گئے کہ
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
اب ضرورت ہے کہ اس احساس زیاں کو نہ صرف ہمہ وقت سامنے رکھا جائے بلکہ اس کے حصار سے نکلنے کے لیے جذبے اور دانش دونوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلا جائے اور چھ ستمبر کے اس تحفے کی دل و جان سے قدر کی جائے جس نے ہمیں اٹھارہ برس بعدایک بار پھر ہجوم سے کاررواں بننے کی توفیق دی تھی۔
جنگ کے بجائے حقیقت پسندی اور بات چیت سے کشمیر سمیت تمام متنازعہ مسائل کو حل کیا جائے کہ اس کے بغیر اور کوئی راستہ ہے ہی نہیں۔ سقوط ڈھاکا کے دنوں میں، میں نے ایک نظم میں چھ ستمبر1965ء کے حوالے سے اسی احساس زیاں کی تصویر کشی کرتے ہوئے کچھ باتیں کی تھیں ان کو اسی دعا کے ساتھ دہراتا ہوں کہ وہ تبدیلی جو اس دن کے حوالے سے ہماری زندگیوں میں آئی تھی اس کی خوشبو اور تاثیر سلامت رہے اور ہم بحیثیت قوم اپنے معاملات کو بہادری جرأت اعتماد اور اتحاد کے اسی جذبے کے ساتھ حل کرنے کا راستہ اپنا سکیں جس کا مظاہرہ ہم نے 53برس قبل کیا تھا۔
اپنے دفاع کو مضبوط کرنا اور اس کی روح افزا یادوں کو زندہ اور محفوظ رکھنا ہمارا فرض ہے۔ بلاشبہ یہ سبق ہمیں ایک جنگ کی صورت حال میں ملا تھا لیکن اسے امن کے حصول کے لیے استعمال کرنا بھی ایک ایسا راستہ ہے جسے ہمہ وقت نظروں کے سامنے رکھنا چاہیے کہ سنگ میل منزل کی نشانی تو ضرور ہوتے ہیں مگر منزل ان کی غلام اور تابع نہیں ہوتی، تو آیئے اس سنگ میل کے ساتھ کھڑے ہو کر آگے کی طرف دیکھیں کہ ہر آج کو بالآخر آنے والے کل میں ڈھل جانا ہوتا ہے۔
چھ برس پہلے اسی روز مرے چار طرف
ایک ریوڑ کی طرح چلتی ہوئی بھیڑ رکی
اور بے نام سرابوں میں گھری آنکھ کو بینائی ملی
میرے اطراف میں پھیلی ہوئی خالی آنکھیں
بے ہنر ہاتھ' لب خشک' گریزاں پاؤں
اور کندھوں کے شکنجوں میں لٹکے بازو
بے اماں تیز ہواؤں کی صدائیں سن کر
پیکر آدم خاکی میں ڈھلے
قافلے دل کے چلے!