بلوچستان میں حکومت بنانے کے لئے مسلم لیگ ن نے رابطے بڑھا دئیے

عوام کے ووٹ سے جہاں ملک میں تبدیلی آئی ہے وہاں بلوچستان میں گوکہ ووٹ کاسٹنگ کا ٹرن آؤٹ کم رہا لیکن...


رضا الرحمٰن May 28, 2013
عوام کے ووٹ سے جہاں ملک میں تبدیلی آئی ہے وہاں بلوچستان میں گوکہ ووٹ کاسٹنگ کا ٹرن آؤٹ کم رہا لیکن اس کے باوجود بھی بلوچستان اسمبلی میں کئی نئے چہرے آئے ہیں۔ فوٹو : فائل

ملک بھر میں 11مئی کے عام انتخابات کے بعد مرکز سمیت چاروں صوبوں میں حکومتیں بننے جارہی ہیں اور ایک نئے جمہوری دورکا آغاز ہورہاہے اس امید کے ساتھ کہ پاکستان میں تبدیلی آئے گی، اسی حوالے سے ان انتخابات میں عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیااور اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔

عوام کے ووٹ سے جہاں ملک میں تبدیلی آئی ہے وہاں بلوچستان میں گوکہ ووٹ کاسٹنگ کا ٹرن آؤٹ کم رہا لیکن اس کے باوجود بھی بلوچستان اسمبلی میں کئی نئے چہرے آئے ہیں۔ 2008ء کے الیکشن کاموازنہ کیاجائے تو اس مرتبہ بلوچستان اسمبلی میں قوم پرست جماعتیں بھی نمائندگی کررہی ہیں جنہوں نے 2008ء کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا، خصوصاً پشتونخواملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل)کے نام سرفہرست ہیں۔

عام انتخابات کے بعد بلوچستان کی مذہبی وسیاسی جماعتوں نے مبینہ طورپر ان انتخابات میں دھاندلی کے نہ صرف الزامات عائد کئے بلکہ ثبوت وشواہد کے ساتھ کوئٹہ پریس کلب الیکشن کمیشن کے دفترکے سامنے بھرپوراحتجاجی مظاہرے کئے ان جماعتوں میں جمعیت علماء اسلام(نظریاتی)بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، جمہوری وطن پارٹی، اہلسنت والجماعت، تحریک انصاف، جماعت اسلامی،بی این پی(عوامی) اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی قابل ذکر ہیں اسی طرح بعض دیگر امیدواروں نے بھی انفرادی طورپرمبینہ دھاندلی کے حوالے سے مظاہرے کئے اوراپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔

جمعیت علماء اسلام(نظریاتی)نے کوئٹہ میں آل پارٹیز کانفرنس بھی اس حوالے سے منعقد کی جس میں تحریک انصاف، بی این پی (مینگل)،اہلسنت و الجماعت، جمہوری وطن پارٹی،جماعت اسلامی نے بھی شرکت کی اور اس آل پارٹیز کانفرنس میں ان مذہبی وسیاسی جماعتوں نے متفقہ طورپر اس بات پر اتفاق کیاکہ بلوچستان میں 11مئی کے انتخابات میں مبینہ طورپر دھاندلی ہوئی ہے۔ ان جماعتوں نے اپنے مشترکہ اعلامیہ میں نہ صرف ان انتخابی نتائج کو مسترد کردیابلکہ بلوچستان میں دوبارہ انتخابات کا بھی مطالبہ کیااور26مئی کوالیکشن کمیشن کے دفترکے سامنے دھرنادیا جس میں ان جماعتوں کا یہ کہنا تھا کہ انتخابات میں مبینہ ریکارڈ دھاندلی ہوئی ہے ، ہم ان فراڈ انتخابات کو مسترد کرتے ہیں، سیاسی ومذہبی جماعتوں کا یہ احتجاج ابھی جاری ہے۔

دوسری جانب بی این پی(مینگل)کے مرکزی صدر سرداراخترجان مینگل نے پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا اہم اجلاس 2جون کو کوئٹہ میں طلب کیاہے جس میں حالیہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی بلوچستان کی مخدوش سیاسی صورتحال ملکی وبین الاقوامی امور بھی زیرغورلائے جائیں گے اور آئندہ کا لائحہ عمل بھی طے کیاجائے گا، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 11مئی کے انتخابات میں بلوچستان سے صوبائی اسمبلی کیلئے بی این پی (مینگل) دو نشستوں پر اورقومی اسمبلی کی ایک نشست پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

جبکہ سرداراخترجان مینگل کی صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کا نتیجہ ابھی تک روکاگیا ہے، بلوچستان اسمبلی کی 51نشستوں میں سے 48 نشستوں پر امیدواروں کی کامیابی کانوٹیفکیشن جاری کردیاگیا ہے جبکہ نصیرآباد کی ایک صوبائی اسمبلی کی نشست پر سپریم کورٹ نے جعلی ڈگری ثابت ہونے پرمسلم لیگ(ن)کے کامیاب رکن صوبائی اسمبلی عبدالغفور لہڑی کو نااہل قرار دیا ہے اورجھل مگسی کی ایک نشست پر الیکشن کے دوران امیدوارکے قتل کے باعث انتخاب کو ملتوی کیاگیا، بلوچستان میں 11مئی کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ(ن) سب سے بڑی پارلیمانی جماعت بن کر ابھری ہے ۔

آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد اس وقت مسلم لیگ(ن)کو 48کے ایوان میں 16نشستوں پر برتری حاصل ہے اورابھی تک بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا اور خود مسلم لیگ(ن) اس حوالے سے تذبذب کاشکارہے، اس حوالے سے مختلف باتیں سامنے آرہی ہیں، وزارت اعلیٰ کیلئے مسلم لیگ(ن)میں اختلافات ہونے کی باتوں کے باعث یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ شاید مسلم لیگ(ن)کی قیادت نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو یہ منصب دے دے۔دوسری جانب اس تجویز کے حوالے سے مسلم لیگ(ن)بلوچستان کے ترجمان نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمانی نظام کے تحت عددی اکثریت کی حامل جماعت کو حکومت سازی کا حق حاصل ہوتا ہے ،بلوچستان میں قائد ایوان مسلم لیگ(ن)سے ہی ہوگا۔

عوامی حکومت کی تشکیل کیلئے مسلم لیگ(ن)اتحادی جماعتوں سے مشاورت کررہی ہے اورمستحکم حکومت کی تشکیل سے صوبے کی ماضی کی زیادتیوں کا ازالہ اور صوبے کی ترقی ممکن ہے ، تمام اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے کا فیصلہ کیاگیا ہے، مسلم لیگی ذرائع کے مطابق بلوچستان میں مسلم لیگ(ن)اپنی اتحادی قوم پرست جماعتوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے اور آئندہ بلوچستان میں پشتونخواملی عوامی پارٹی ، نیشنل پارٹی، مسلم لیگ(ق) اور مسلم لیگ(ن) پر مشتمل چاراتحادی جماعتوں کی حکومت قائم کی جائے گی۔ سیاسی حلقوں کے مطابق گوکہ مسلم لیگ(ن)کا یہ کہنا کہ وزارت اعلیٰ کے حوالے سے ان میں کوئی اختلاف نہیں لیکن اندرون خانہ مسلم لیگ(ن) اس حوالے سے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلم لیگ(ن) میں اس حوالے سے اختلافات موجود ہیں۔

ان سیاسی حلقوں کے مطابق مسلم لیگ(ن)کی جانب سے قائد ایوان کیلئے دوشخصیات مضبوط امیدوارکے طورپر سامنے آئی ہیں جن میں نواب ثناء اﷲ زہری اور نوابزادہ جنگیز مری کا نام لیاجارہا ہے جبکہ درمیانی رستے کے لئے سردارصالح بھوتانی کا نام بھی لیاجارہا ہے جنہوںنے حال ہی میں مسلم لیگ(ن)میں شمولیت اختیار کی ہے۔ تاہم ابھی تک وزارت اعلیٰ کیلئے مسلم لیگ(ن)کی مرکزی قیادت کے فیصلے کا انتظار کیاجارہاہے۔ توقع ہے کہ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس یکم جون تک طلب کیاجاسکتا ہے جبکہ ایک دو روز میں مخصوص نشستوں کا بھی نوٹیفکیشن جاری کردیاجائے گا ۔

جس کے بعد بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی جماعتوں کی پوزیشن واضح ہوجائے گی۔ مسلم لیگ(ن)کے سربراہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف سے ملاقاتوں کے بعد مسلم لیگ(ن)کے صوبائی پارلیمانی گروپ کے بعض اہم ارکان جن میں جان محمد جمالی، سردار صالح بھوتانی اور قومی اسمبلی کے رکن جنرل(ر)عبدالقادر بلوچ کے نام قابل غور ہیں نے بلوچستان میں حکومت سازی کے حوالے سے پشتونخواملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اورمسلم لیگ(ق)سے رابطوں کا آغاز کردیا ہے تاہم جمعیت علماء اسلام(ف) سے ابھی تک ان اراکین نے رابطے نہیں کئے ہیں جس سے یہ بات بھی واضح ہوتی جارہی ہے کہ جمعیت علماء اسلام(ف)بلوچستان میں حکومت سازی کے بعد اپوزیشن کا کردارادا کرے گی اور بی این پی (مینگل)2جون کے اپنے مرکزی کمیٹی کے اجلاس کے بعد اپنا کیا لائحہ عمل طے کرتی ہے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں