حکمرانوں کا امتحان یہی ہے
سب سے پہلے حق دار کا حق اس کو پہنچانے کی ضرورت ہے۔
''اے سلطنت کے مالک تو ہی جس کو چاہے سلطنت دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو ہی جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت دے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔
بے شک تو ہر شے پر قادر ہے (سورۂ آل عمران آیت 26) ترجمہ: اللہ تعالیٰ اپنی کتب بلاغت نظام میں ارشاد فرماتے ہیں کہ اقتدار کوئی اس لیے حاصل کرتا ہے کہ وہ (اللہ تعالیٰ) جس کو دینا چاہیں اسی کو ملتا ہے اور اسی طرح اقتدار و حکومت چھن جانا بھی مشیت ایزدی ہے۔ مگر عقل و کم علم اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ بس اللہ جب چاہے کسی کو بھی تخت سلطنت پر بٹھادے اور جب چاہے کسی دوسرے کے حوالے کردے یعنی اس ''لینے'' اور ''دینے'' کی کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی۔ اب اس آیت کی تفسیر میں جانے کا تو موقع نہیں، مگر اس کے اندر جو پیغام ربانی ہے اس کو سمجھنا ہر صاحب عقل و ادراک کے لیے ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ اقتدار و سلطنت دے کر بھی انسانوں کو آزماتا ہے اور ان سے واپس لے کر بھی مشہور مقولہ ہے کہ اقتدار و دولت آنی جانی چیزیں ہیں۔ اگر اس رد و بدل کا فلسفہ کسی قوم کو سمجھ آجائے تو وہ اقتدار میں رہ کر بھی خود ''حاکم'' نہیں بلکہ بندۂ ناچیز اور قوم کا خادم کی حیثیت سے بندگان خدا کے مسائل حل کرکے اپنے رب کی رضا کے حصول کے لیے سرگرم و سرگرداں رہتے ہیں اور جب اللہ کسی سے اقتدار و حکومت واپس لیتا ہے تو تب بھی وہ اس کو آزماتا ہے۔ امام حسین ؓ کے صاحبزادے حضرت علی ابن الحسینؓ (ذین العابدین) کا ارشادِ گرامی ہے کہ جب وہ مجھ کو عطا کرتا ہے (رزق) میں سرتا پا شکر گزار ہوتا ہوں اور جب وہ مجھے محروم کرتا ہے تو میں طلب گار بن جاتا ہوں اور اس کی بارگاہ سے انتہائی عجز و انکساری کے ساتھ گڑگڑا کر مانگتا ہوں۔ وہ عطا کرے یا محروم میرا رابطہ دونوں صورتوں میں اپنے خالق و معبود سے برقرار رہتا ہے۔ یہ ہے وہ صورت جب اللہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے کہ وہ مجھ سے ہر صورت اپنا رابطہ برقرار رکھتا ہے کہ نہیں۔
اب آتے ہیں اس جانب کہ اللہ تعالیٰ کسی سے اقتدار کیوں چھین لیتا ہے اور کسی کیو کیوں عطا فرمادیتا ہے۔ معمولی سا اسلامی شعور رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ تمام نظام کائنات اسی قادر مطلق کا رہین منت ہے۔ جب وہ اپنے بندوں کو کسی خطۂ ارضی کا نظام حوالے کرتا ہے تو یہ اللہ رب العزت کی امانت کسی ایک بندے یا ایک گروہ کے پاس ہوتی ہے۔ اللہ کی مخلوق جن کے رزق و روزی کی ذمے داری پروردگار کی ہے۔
اس خطۂ ارض پر بسنے والے بندگان خدا کے لیے اقتدار پر فائز حکمرانوں کی ذمے داری ہوجاتی ہے کہ خلق خدا کو ان کی زیست کی بنیادی ضروریات ہر حال میں فراہم کریں۔ کیونکہ ایسا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بے شمار وسائل، معدنیات، زمین پر، زیر زمین، سمندروں اور فضا میں ان کو مہیا کیے۔ ان وسائل سے استفادہ کرنا حکمرانوں کی سب سے بڑی ذمے داری ہے اور پھر جو کچھ ان وسائل سے حاصل ہو اصل امتحان یا آزمائش اس کی منصفانہ تقسیم ہے۔ جو حکمران اس آزمائش پر مکمل نہ سہی کچھ تھوڑا بہت بھی پورا اترتا ہے اللہ اس کے اقتدار میں وسعت و استحکام فرماتا ہے تاکہ وہ ایک مخصوص عرصے میں بندگان خدا کی مکمل خدمت نہ کرسکا مگر اپنی کوشش تو جاری رکھی نیت تو درست تھی اب تجربے کے بعد مدیر بہتر کوشش کرے گا۔
مگر جب ملک کے تمام وسائل پر حکمران ٹولہ خود قابض ہوجائے اور خلق خدا بھوک اور بے روزگاری سے اس حال کو پہنچ جائے کہ موت اسے زندگی سے بہتر نظر آنے لگے تو پھر اللہ تعالیٰ حکمرانوں سے حکومت چھین کر ان کے پیروں تلے سے زمین تک سرکادیتے ہیں۔ لہٰذا نہ وہ بلا وجہ کسی کو معاذ اللہ انسانوں کی طرح جانبداری، سفارش و رشوت سے اقتدار کسی کے حوالے کرتا ہے اور نہ ہی کسی بغض و عناد (معاذ اللہ) کی بنا پر واپس لیتا ہے۔ یہ تو حکمرانوں کا طرز حکمرانی ہے جو ان کو چند لمحوں میں اقتدار سے محروم کرے ان کے شہنشانہ طرزِ زندگی سے ان کو ذلت و رسوائی کے گڑھے میں پھینک دیتا ہے۔
اس تمہید کے بعد یہ بتانے کی چنداں ضرورت تو نہیں کہ اقتدار مل جانے کو اپنی لیاقت و اہلیت کے بجائے امانت الٰہی ہی تصور کرنا چاہیے۔ اگر ارادے درست اور نیت نیک ہو تو تائید ایزدی بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ کئی عشروں بعد پاکستان میں حکمرانوں کی تبدیلی واقع ہوئی ورنہ ہر بار باریاں لگتی تھیں۔ ایک اقتدار کی مسند پر دوسرا حزب اختلاف کی کرسی پر نہ حکمران فرض حکومت ادا کرتے تھے نہ حزبِ مخالف درست کردار ادا کرتے تھے کیونکہ طے یہی تھا کہ تم جو چاہو ہم خاموش رہیںگے تم کرتے رہنا اور جب ہماری باری آئے تو ہمیں بھی جو ہم چاہیں کرے دینا یعنی تم خاموش رہنا دونوں کا پشت پناہ یک ہی ٹولہ تھا یہ تو ان کے مہرے تھے اصل حکمران تو جاگیردار، وڈیرے، چوہدری اور سردار تھے۔
اب اگر بقول ہمارے دانشوروں کے متوسط طبقے کو اقتدار ملا ہے تو بس ان کا امتحان یہی ہے کہ یہ مسائل کے حل کے لیے ان ازلی حکمرانوں کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکیں۔ ارضِ پاک پر اللہ کی بے شمار نعمتیں بکھری پڑی ہیں ان کا بروقت درست اور منصفانہ استعمال ہی موجودہ حکمرانوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے کافی ہے اور ہاں سب سے پہلے حق دار کا حق اس کو پہنچانے کی ضرورت ہے۔ اگر کچھ دن حکومت کرنا چاہتے ہیں، تاریخ میں زندہ رہنا چاہتے ہیں تو میرٹ کو بحال کریں اللہ کے لیے رشوت و سفارش کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیں۔ قابل، اہل، با صلاحیت افراد ہی آپ کے معاون ہوںگے اور آپ کو کامیابی سے ہمکنار کرائیںگے۔ خدا آپ کی مدد فرمائے۔