شکست ان کا مقدر بن چکی ہے


Aftab Ahmed Khanzada May 28, 2013

سرمایہ داری نظام سے پہلے یورپ، ایشیاء ہر جگہ فیوڈل نظام رائج تھا البتہ اس کی شکلیں مختلف تھیں اس دو ر میں معیشت کا سارا انحصار زرعی پیداوار پر تھا جو غلاموں اور مزارعوں کے ذریعے حاصل کی جاتی تھیں ان کو کھیتی باڑی چھوڑ کر کوئی دوسرا پیشہ اختیار کرنے کی یا کسی دوسر ی جگہ جا کر آباد ہونے کی اجازت نہ تھی ان کو زرعی پیداوار کانصف تا تین چوتھائی حصہ ریاست کے نمایندوں یا نوابوں جا گیرداروں اور زمین داروں کے حوالے کرنا پڑتا تھا۔

مفت بیگار اور دوسر ے جبری محصو لات اور نذرانے اس کے علاوہ تھے فیوڈل ازم کے عہد میں ایشیا میں کئی عظیم الشان سلطنتیں قائم ہوئیں جیسے عباسی سلطنت، سلطنت مغلیہ، ایرا ن کی صفوی سلطنت اور خلافت عثمانیہ۔ اس زمانے میں صنعت و حرفت اور علم و حکمت نے بڑی ترقی اور تہذیبی اور فنی سر گرمیوں نے بین الا قوامی شہرت پائی مگر یورپ میں صورتحال اس کے بر عکس تھی وہاں پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی میں وحشی ہنوں اور جرمن قبیلوں کے پے درپے حملوں کی وجہ سے سلطنت روما کا سا ر ا نظام درہم بر ہم ہو گیا۔ روم بار بار لٹا اور حملہ آوروں نے یورپ میں جگہ جگہ اپنی با دشاہتیں قائم کر لیں رومی نوابوں اور جاگیر داروں کی جائیدادیں قبیلوں کے سرداروں میں بٹ گئیں جو نہایت جاہل اجڈ لو گ تھے۔

ان کا علم و فن اور تہذیب و تمدن سے دور کا واسطہ نہ تھا نتیجہ یہ ہوا کہ یور پ معا شی اور معاشرتی پستی کے اندھیروں میں ڈوب گیا یورپ میں فیوڈل ازم کادوسرا ستون رومن کلیسا تھا عیسائی مذہب ابتداء میں رومی غلاموں اور مظلوم طبقوں میں پھیلا مگر آہستہ آہستہ ترقی کرتا گیا۔ یہاں تک کہ 312 میں شہنشا ہ قسطنطین اول بھی عیسائی ہو گیا اس نے دین مسیحی کو سلطنت کا سر کاری مذہب قرار دے دیا۔ اس کی وجہ سے رومن کلیسا کے اثر و اقتدار میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ وہ یورپ کی نہایت دولت مند سیاسی طاقت بن گیا کلیسا کے کاشت کار پادریوں کے بے زر غلام تصو ر کیے جاتے تھے۔

لوگوں کے ذہنوں پر بھی ان ہی کی حکومت تھی کیونکہ پادریوں کے سوا کسی کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا رومن کلیسا ان پڑھ نوابوں سے بھی زیادہ معاشرتی اصلاح و ترقی کا دشمن تھا پادریوں کی مسلسل یہ کوشش رہتی تھی کہ ایسے عناصر سر نہ اٹھانے پائیں جن سے کلیسا کی آمدنی یا ذہنی اجارہ داری خطرے میں پڑ جائے کلیسا کی مذہبی عدالتوں کی بیہما نہ سزائوں کے خوف سے ہر شخص کا نپتا رہتا تھا اگر کسی شخص کے عقائد کے بارے میں شبہ بھی ہو جاتا تو اس کو جادوگر، بدعتی قرار دے کر اس کا جوڑ جوڑ توڑ دیا جاتا تھا اور وہ آگ میں زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ مذہبی عدالتوں کے معاملات میں بادشاہ بھی مداخلت کی جرأت نہ کر سکتے تھے سرمایہ داری نظام ایک عظیم سماجی انقلاب تھا جس نے فیوڈل ازم کے تینو ں ستون ملوکیت، نوابیت اور کلیسائیت گرا دیے۔

مگر یہ سماجی انقلا ب ذہنی انقلاب کے بغیر ممکن نہ تھا سرمایہ داری نظام اس بات کی دلیل تھا کہ معاشرہ اب پرانی ڈگر سے بیزار ہو چکا ہے اور فیوڈل ازم لوگوں کو مطمئن کرنے سے قاصر ہے مارٹن لوتھر کی رومن کلیسا کے خلاف بغاوت جس کی وجہ سے آدھی مسیحی دنیا پر و ٹسٹنٹ ہو گئی۔ چھا پے خانے کی ایجاد نے رو من کلیسا کی روحانی اور تعلیمی اجارہ داری ختم کر دی۔ اسپائی نووا کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ انسان آزاد و خود مختار ہے لاک، روسو اور مان تس کی تحریروںنے جس میں یہ دعویٰ کیاگیا کہ حاکمیت کا سر چشمہ عوام ہیں اور ساتھ ہی گوئٹے، شلر، شیلے، بالزک، ایمانوئل زولا، ہرزن اور بے شمار ادیبوں کی تخلیقات نے اہل مغرب کے نظام فکر و احساس کا پرانا ڈھانچہ ہی بدل دیا۔ اس کے بعد پیرس کے مزدروں اور طالب علموں نے حکومت کی غیر جمہوری کارروائیوں کے خلاف جو مظاہرے کیے ان کو فوج بھی نہ دبا سکی لہذا بادشاہ لوئی کو تخت سے دستبردار ہو نا پڑا اس کے بعد آسٹریا کے درالسطنت ویانا میں بغاوت پھوٹ پڑی اور میٹرنک جیسے جابر وزیر اعظم کو جو 39 سال سے سلطنت کا سیاہ و سفید کا مالک بنا ہوا تھا اسے ملک چھوڑ کر بھا گنا پڑا۔

ہنگری میں انقلاب آ گیا اور اسی دن جرمنی کی کئی ریاستوں میں بھی لوگ اٹھ کھڑے ہوئے کاشتکاروں نے نوابوں کے محلوں میں آگ لگا دی رہن اور قر ضوں کے کا غذات جلا ڈالے اور لگان دینے اور بیگار کر نے سے انکار کر دیا۔ خود برلن میں مشتعل شہریوں اورفوجی سپاہیوں میں ساری رات جھڑپیں ہوتی رہیں اور بادشاہ فریڈرک ولیم اتنا ڈرا کہ ا س نے لوگوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے علاقہ ربائن کے ایک لبر ل سیاست دان کو وزیر اعظم مقرر کر دیا اور فو ج کو برلن سے باہر بیرکوں میں بھیج دیا اس کے بعد آسٹریلیا نے بو ہیمیا (''چیکو سلواکیہ'') کی خود مختاری تسلیم کر لی اور اٹلی کے شہر میلان کے لوگوں نے آسٹریا کی فوج کو مار بھگایا اور شہر وینس آزاد اور ری پبلک بن گیا یورپ میں غیر جمہوری حکومتوں کے دن پورے ہو گئے اور ہر ملک میں سماجی انقلاب آ گیا آج یورپ دنیا کا سب سے زیادہ خوشحال، آزاد، ترقی یافتہ خطہ ہے۔

جب کہ دوسر ی جانب آج پاکستان وہاں ہی کھڑا ہے جہاں صدیوں پہلے یورپ کھڑا ہوا تھا پاکستان میں بعض عناصر اسلام کے نام کو اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور ایک سازش کے تحت انتہاپسندی اور دہشت گردی کی آگ میں دھکیل رہے ہیں وہ ایک مخصو ص مسلک کو پورے ملک پر مسلط کرنے کے درپے ہیں وہ اپنے سوا باقی مسلمانوں کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے ہیں یہ مخصو ص عناصر انتہا پسندی کے ذریعے پاکستان کے عوام کو یرغمال بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ عناصر کسی نہ کسی صورت میں پاکستان کے عوام کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں یہ عناصر خوف اور نفرت کا خو بصورتی کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں پاکستان میں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے بعض عناصر اپنے مخصوص مقاصد کے لیے ہر بات کو امریکا سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ دنیا کے اہم ترین مسلم ملک پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں آج پاکستان ایک نہایت اہم موڑ پرکھڑا ہوا ہے۔

ایک طرف انتہا پسند پاکستانی معاشرے سے ٹکرا رہے ہیں اور اسے اپنا طابع بنانا چاہتے ہیں دوسری جانب مہنگائی، بیروزگار ی، غربت اور جہالت جیسے سنگین مسائل میں ہم ان حالات میں پاکستان کو خوشحال، آزاد، اعتدا ل پسند ملک صرف اور صرف قائد اعظم کے نظریات پر عمل پیرا ہو کر ہی بنا سکتے ہیں اور ساتھ ہی انتہا پسندی کی جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے پاکستان کے عوام اپنی آزادی کو کسی کو بھی چھیننے کی اجازت نہیں دیں گے ہر حال میں آخری فتح ہمیشہ عوام کو ہی حاصل ہوتی ہے ۔ جیسا کہ یورپ کے عوام کو حاصل ہو چکی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں