آموں کا موسم ہے
آج کل آموں کا موسم شباب پر ہے، جگہ جگہ پیلے پیلے آم ٹھیلوں پر بڑی شان کے ساتھ جلوہ افروز ہیں اور پھر چاندی کے چسپاں۔۔۔
آج کل آموں کا موسم شباب پر ہے، جگہ جگہ پیلے پیلے آم ٹھیلوں پر بڑی شان کے ساتھ جلوہ افروز ہیں اور پھر چاندی کے چسپاں ورقوں نے ان کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیے ہیں، کچے پکے آموں کے درختوں پر کوئل اور پپیہے اپنی سریلی، مدھر اور رسیلی آوازوں میں کوک رہے ہیں، ان کے نغموں میں اداسی بھی ہے اور اپنوں سے بچھڑنے کا انوکھا سا غم بھی، جسے سن کر تلخ و شیریں یادیں دل و دماغ میں آ کر ٹھہر جاتی ہیں۔ بچھڑے ہوئے لوگ یاد آتے ہیں اور جھولے میں جھولنے والوں کو وہ بڑھتی کم ہوتی پینگیں یاد آتی ہیں۔ ہر سال یوں ہی ہوتا ہے، موسم آتا ہے موسم جاتا ہے۔ وقت کا پہیہ یوں ہی گھومتا رہتا ہے، عمریں ڈھلتی جاتی ہیں اور انسان سوئے منزل روانہ ہو جاتا ہے اور یہی زندگی ہے۔
ایک خبر کے مطابق یومیہ 800 ٹن سے زائد آم سبزی منڈی میں لایا جا رہا ہے، اور آم کی پیٹی 350 سے 450 روپے تک کی فروخت ہو رہی ہے۔ ان پیٹیوں میں ایک اندازے کے مطابق 5 کلو سے 10 اور 10 سے بیس کلو تک آم باآسانی محفوظ کر لیے جاتے ہیں۔ لیکن بات پھر وہی ملک کی آ گئی، ملک میں غربت بہت ہے، پھل کھانے کے لیے غرباء و مساکین کے پاس اتنی رقم نہیں کہ وہ موسم کا پھل خرید سکیں اور خاص طور پر پھلوں کے بادشاہ تک رسائی ہو، لیکن صاحب حیثیت اور باثروت حضرات پھلوں کے بادشاہ کو آسانی سے خرید لیتے ہیں اور خوب خوب اس کی رونمائی ہوتی ہے۔ عنقریب بننے والے وزیر اعظم نواز شریف کو ہی لے لیجیے، انتخابات کے موقعے پر اپنے انتخابی نشان ''شیر'' کی اس طرح تشہیر کی کہ اپنے ذاتی شیر کو ہی سڑکوں، شاہراہوں اور مختلف علاقوں میں گشت کروایا گیا اور وہ بے چارا، محلوں میں رہنے والا اور پرآسائش زندگی کا عادی جانور سخت گرمی اور دھوپ میں جھلس کر بے جان ہو گیا۔ بے جان تو بے چارے ایک نہیں کئی شہری بھی ہو چکے ہیں وہ سخت گرمی کی تاب نہ لاسکے اور اﷲ کو پیارے ہو گئے، اور ہر سال موسم انسانوں کو موت کی دلدل میں اتارتا ہے۔
آموں کے موسم میں ٹھیلوں کے اردگرد بے چارے معصوم ننھے منے خوبصورت بچوں کو اکثر منڈلاتے دیکھا ہے، آموں کی خوشبو اور ٹھیلوں پر ان کی سجاوٹ دیکھ کر یہ سڑکوں پر زندگی گزارنے والے بچے دوڑے چلے آتے ہیں، جہاں کسی شخص نے آدھا آم کھایا اور گٹھلی سمیت اچھال دیا یہ بچے اسی سمت دوڑ لگا دیتے ہیں، کچرے میں سے بھی یہ سڑے گلے آم اٹھااٹھا کر کھاتے ہیں۔ اﷲ کی مہربانی سے وہ بیماری سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ شاید ان کا معدہ گلی سڑی چیزیں کھانے کا عادی ہو چکا ہوتا ہے اور پھر اﷲ جس کو صحت مند رکھے اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے۔
آم مرزا اسد اﷲ خان غالب کو بھی بہت پسند تھے، اپنے خطوط میں انھوں نے اپنے پسندیدہ آموں کی تعریف بارہا کی ہے ان کا کہنا ہے کہ آم میٹھے رس بھرے اور زیادہ ہوں۔ مرزا غالب نے ایک مثنوی بعنوان ''آموں کی تعریف میں'' قلمبند کی ہے، فرماتے ہیں:
مجھ سے کیا پوچھتا ہے کیا لکھیے
نکتہ ہائے خرد فزا لکھیے
بارے آموں کا کچھ بیاں ہو جائے
خامہ نخل رطب فشاں ہو جائے
مجھ سے پوچھو تمہیں خبر کیا ہے
آم کے آگے نیشکر کیا ہے
نہ گل اس میں نہ شاخ و برگ نہ بار
جب خزاں ہو تب آئے اس کی بہار
صاحب شاخ برگ و بار ہے آم
ناز پروردہ بہار ہے آم
خاص وہ آم جو نہ ارزاں ہو
نو بر نخل باغ سلطاں ہو
جہاں مرزا غالب آموں کی قصیدہ خوانی کرتے نظر آتے ہیں وہیں وہ موسم برسات کے دکھ و الم بھی بیان کرتے ہیں، کہیں چھت کے ٹپکنے کا ذکر ہے کہیں مکان کی خستہ خالی اور برسات کی فتنہ سامانی کا تذکرہ ہے۔ اور آج کل جب کہ شدید گرمی ہے لیکن آسمان پر ہلکے ہلکے نیلے پیلے، اودے بادل بھی سمندر کی لہروں کی مانند تیرتے نظر آتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آسمان پر کسی نے چھتری لگا دی ہے اور چھتری لگانے والا بھلا کون ہے، وہ ہمارا تمہارا رب جو موسموں کو پل بھر میں بدل دیتا ہے ابھی دھوپ، تو ابھی برسات، کبھی بادسموم تو کبھی نرم و ٹھنڈی فرحت بخش ہوائیں، تو کبھی طوفان۔ طوفان سے یاد آیا کہ حال ہی میں امریکا کی ریاست اوکلاہاما میں طوفان نے تباہی مچا دی، اس طوفان میں نہ صرف 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے بلکہ 35 ارب ڈالر کا نقصان بھی ہوا۔
عمارتیں منہدم ہو گئیں اور چلتی ہوئی گاڑیاں الٹ گئیں، اسی طرح موسموں کی سنگینی و رنگینی آئے دن خوبصورت ودلنشیں نظارے بھی پیش کرتی ہے اور جان و مال کی بربادی کی داستان بھی رقم کرتی ہے۔ بہرحال برسات کا موسم قریب تر ہوتا جا رہا ہے، اب بھی بوندا باندی، ہلکی بارش کے امکانات تو نظر آ رہے ہیں لیکن جون جولائی میں تو خوب خوب بادل چھاتے اور دھوم مچاتے ہیں۔ منیر شکوہ آبادی کا قصیدہ ''رت ہے برسات کی بہت پیاری'' سے چند شعر گرمی کو کم کرنے کا باعث ضرور بنیں گے۔ بشرطیکہ اشعار کے احساس کو قلب و نظر میں اتار لیا جائے۔
رت ہے برسات کی بہت پیاری
موجزن جھیلیں ندیاں جاری
بدلیاں چھا رہی ہیں گردوں پر
اودی اودی سنہری زنگاری
کیا ہری دھوپ جنگلوں میں ہے
سبز مخمل سے بھی سوا پیاری
ننھی برستی ہیں بوندیں
روح پر ہوتی ہے خوشی طاری
بارش جہاں تازگی و فرحت مہیا کرتی ہے وہاں مشکلات میں بھی اضافہ ہوتا ہے اس کی وجہ وہ ہی پرانی ہے، یعنی لاپرواہی، اپنے فرائض سے چشم پوشی، برسات کی آمد سے قبل ہی نالے، نالیوں، گڑھوں اور نشیبی جگہوں کی اگر مرمت ہو جائے تو یقینا حادثات کم سے کم ہوں، گٹر کے کھلے ڈھکن موت کا پروانہ لے کر آتے ہیں اور شہریوں کو اجل تقسیم کرتے ہیں، ایک طرف لوڈشیڈنگ کی وجہ سے گھپ اندھیرا، تو دوسری طرف سڑکوں اور چوراہوں پر بھرا ہوا پانی، راہ گیروں کو برسات کے گدلے پانی سے گزرتے ہوئے اندازہ ہی نہیں ہوتا ہے کہ کب اس کا پیر گٹر میں اتر جائے یا منہ کھلے نالے میں۔
ایک طرف پانی کے جل تھل ہونے کے مسائل ہیں تو دوسری طرف بجلی کے ننگے تار بے قصور لوگوں کو موت کی دعوت دیتے ہیں۔ کے ای ایس سی نے تو حد ہی کر دی ہے، لوڈشیڈنگ کے باوجود بل کی رقم میں اضافہ اور بجلی کے کھلے ٹوٹے اور لٹکتے ہوئے تار شہریوں کی زندگیوں سے خوب خوب کھیلتے ہیں کاش! یہ اہم ادارے اپنی ذمے داریوں کو سمجھیں۔