نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
خدا نظر بد سے بچائے حکومت پاکستان بھی اپنا سکہ بٹھا بٹھا کر اسی مقام پر آ چکی ہے جس سے آگے سقے کے سکے شروع ہوتے ہیں۔
بڑی جانکاہ بے پناہ اور مبنی بر آہ آہ قسم کی خبریں آرہی ہیں جو اتنی اشک آور ہیں کہ ہمیں مجبوراً رومال کی ضرورت پڑ گئی حالانکہ رومال چھتری اور چادر گم کرنے میں جب گھر والوں نے دنیا کا ریکارڈ ہولڈر پایا تو یہ چیزیں ہمارے اوپر یوں بین ہو گئیں جس طرح '' ببل ملا'' کو میاں گان سوات نے اپنے حجرے میں ''بین'' کیا ہوا تھا۔ لیکن ببل ملا کی شخصیت کو فی الحال پینڈنگ رکھتے ہیں کیونکہ یہ کردار اتنا بڑا ہے کہ سفینہ چاہیے اس بحر بیکروں کے لیے۔ لیکن نہایت تواتر سے آج کل دل خراش جگر پاش اور گردے قاش قاش قسم کی خبریں آرہی ہیں۔
ان کے پیش نظر ہم نے بھی گھر والوں کو انسانی ہمدردی کا واسطہ دے کر رومال رکھنے کی اجازت لے ہی لی لیکن گم کرنے کی صلاحیت ہمارے اندر اب بھی برقرار ہے، اس لیے ایک رومال کو ہم گلے میں لٹکائے رکھتے ہیں جیسے بچوں کو رال بہانے کی وجہ سے گلے میں ایک کپڑا لگایا جاتا ہے، یا انگریز اور ان کے نما لوگ کھانا کھاتے وقت اپنے آپ کو پھانسی لگا دیتے ہیں۔
اور دوسرا رومال احتیاطً کمر پر بھی لپیٹ لیا کہ نہ جانے کس اخبار میں کب کوئی ''کہرام'' ہو جائے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ ابھی ہم ملکہ شراوت اور راکھی ساونت کی اس خبر پر اشک فشاں تھے جس کے مطابق ڈاکٹروں نے ان پر پابندی لگائی ہے کہ کبھی کبھی کوئی کپڑا پہن بھی لیا کریں ورنہ جلد ۔ سوری ۔ تو نظام ''سقے کا سکہ'' رائج ہو جائے گا ۔ اب آپ نظام سقے کے سکے کے بارے پوچھیں گے اور آپ پوچھیں اور ہم نہ بتائیں ایسے تو حالات نہیں۔
نظام ایک سقہ یعنی ماشکی تھا جو پانی لوگوں کے گھر لانے کا کام کرتا تھا، اب بچہ سقے سے اس کا کیا رشتہ تھا اس کا ہمیں پتہ نہیں لیکن پاکستانی حکومت سے جو رشتہ ہے وہ ہمیں معلوم ہے کہ چمڑے کے سکے کا رشتہ ہے۔ کیونکہ خدا نظر بد سے بچائے حکومت پاکستان بھی اپنا سکہ بٹھا بٹھا کر اسی مقام پر آ چکی ہے جس سے آگے سقے کے سکے شروع ہوتے ہیں۔ ہوا یوں کہ نظام سقے نے ہمایوں کو ڈوبنے سے اپنی مشک کے ذریعے بچایا تو ہمایوں نے اس کی خواہش پر اسے ایک دن کے لیے بادشاہ بنایا اور اس نے اپنے ٹریڈ مارک مشک کے چمڑے سے سکے بنا کر چلا دیے تھے۔ کاش ہمارے ہاں بھی چمڑے کے بلکہ سقے کے سکے ایک ہی دن کے لیے چلتے۔
تو بات کو سمیٹ سمٹا کر یوں کر دیتے ہیں کہ ڈاکٹروں نے ملکہ شراوت اور راکھی ساونت کو بھی ڈرا دیا ہے کہ کبھی کبھی اگر کپڑا نہیں پہنوگے تو تمہاری حالت نظام سقے کا سکہ جیسی ہو جائے گی، جیسے پاکستانی کم قیمت کے سکے کی حالت ہو گئی ہے کہ اسے اب بچے اور بھکاری بھی لینے کو تیار نہیں ہوتے۔
لیکن ابھی ہم اس المیے کی گرفت میں تھے کہ اوپر سے ایک اور دل دوز جگر دوز اور پھیپھڑے سوز خبر آگئی کہ حضرت مدظلۂ العالی نے وزراء کالونی یا منسٹرز ہاؤسز کا وہ بنگلہ خالی کردیا جو تیرہ سال سے ان کے سایہ عاطفت کے نیچے مرجع خلائق تھا ۔ آہ بلکہ آہ کے بعد آہ۔
بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشاؔؔء
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں
لیکن انشا اللہ خان انشا نے صرف اس پر بس نہیں کیا تھی بلکہ ''سیاسی'' دنیا کے کچھ اور پہلوؤں پر بھی بات کی تھی جن میں سے یہ ایک بات تو جیسے اسی موقع کے لیے کہی گئی تھی جو ''تیرہ سال'' کے ''قلیل عرصے'' تک وزارت فرمانے کے بعد اپنا سامان باندھ رہے ہوں گے
نہ چھیڑ اے نگہت ''باغ سیاسی'' راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
وہ تو اچھا ہوا کہ ہم اس وقت وہاں موجود نہیں تھے ورنہ شاید زمانے کے اس ظلم عظیم پر آنسوؤں کے ساتھ ہمارے جگر کے ٹکڑے بھی بہہ جاتے۔ اتنا انرت اتنا ظلم صرف تیرہ سال؟
تب ناز گراں مائیگی اشک بجا ہے
جب لخت جگر دیدہ ٔ خوں بار میں آئے
شاید بہت سوں کو علم نہیں ہوگا اور ہمارا تو کام ہی اپنے پڑھنے والوں کو تحقیق کرکے جانکاری دینا ہے تو قصہ یوں ہے کہ حکومت پاکستان چاہے کسی کی بھی ہو گاؤ کی ہو یا بے سینگے کی۔ اس کا اولین کام بلکہ اولین ترجیح یہ ہوتی ہے کہ ''نوالوں'' کے لیے کہیں نہ کہیں سے کسی نہ کسی طرح کوئی نہ کوئی ''منہ'' تلاش کرے۔ اس عظیم کام کے لیے نا جانے کتنے جتن کرکے کتنی کھوپڑیاں کٹوا کے، کتنی عصمتیں تار تار کروا کے، یہ مملکت خداداد بنائی گئی تھی تا کہ کسی غیر یعنی ہندو مسلم سکھ عیسائی کی مداخلت کے بغیر آرام سے نوالوں کے لیے منہ پیدا کر کے ثواب دارین حاصل کریں۔
پہلے تو وزارتوں مشاورتوں وغیرہ کے ذریعے یہ کام کیے جاتے ہیں لیکن پھر بھی جب نوالے بچ جاتے ہیں تو ان کے لیے طرح طرح کی ''کمیٹیاں'' (یہ پاکستان کی سب سے بڑی پیداوار ہے) بنائی جاتی ہیں اور ان کے چیئرمینوں کو ''وزارت'' کے نوالے کھلاتی ہے۔
حضرت مدظلۂ العالی کے لیے بھی مشیروں کے امیر بہ عہدہ وزیر کا دستر خوان مخصوص کیا گیا۔
اور کشمیر کے بارے میں تو ہر کوئی جانتا ہے کہ اس سے زیادہ سدا بہار ثمر بار اور گل دار مسٔلہ اور کوئی نہیں۔ اگر اس کی اہمیت کا اندازہ لگانا ہو توکسی دن حیات آباد کے کارخانو مارکیٹ کا وزٹ کریں پیرانومارکیٹ میں ان ہو جائیں، سامنے ہی وہ دکان نظر آئے گی جس پر یہ بورڈ لگا ہوا ہے۔ کہ ''مسٔلہ کشمیر حل ہونے تک ادھار بند ہے'' ہم حساب کتاب میں نالائق ہیں ورنہ آسانی سے یہ حساب پیش کر دیتے کہ مسٔلہ کشمیر پر آج تک جتنا خرچہ اٹھا ہے اس سے ایک دگنے رقبے کا جزیرہ مڈغا سکر وغیرہ میں خریدا جا سکتا تھا جہاں بے چارے کشمیری بھی لٹکی تلوار کے بجائے آرام سے جی رہے ہوتے ویسے بھی کشمیر کی آدھی آبادی تو انگلینڈ اور دوسرے مقامات منتقل ہو ہی چکی ہے باقی کے لیے بھی کہیں ٹھکانہ ڈھونڈا جا سکتا۔
لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ حضرت مدظلہ العالی کے کمیٹی کے چیئرمین یا وزیر بننے کے بعد کشمیر کے مسٔلے کو چار چاند لگ ہی چکے ہیں۔ اگر تیرہ سال اور رہتے تو یہ چاند آٹھ بلکہ زیادہ بھی ہو سکتے تھے کیونکہ سنا ہے جب سے وہ اس کمیٹی کے کرتا دھرتا بنے ہیں دن رات کشمیر کے لیے دعائے خیر کرتے رہتے تھے ساتھ ہی اس کمیٹی کے ممبران جو شاید دس پندرہ تو ہوں گے اور آدھے وزیر کی حیثیت رکھتے ہوں گے زور سے آمین ثم آمین کہتے تھے۔
یہاں پر ہمیں اپنے گاؤں کے کشمیر نامی ایک شخص اور اس کی بیوی زوری (زہرہ) اس زہرہ بائی ہاروت ماروت والی سے کم نہ تھی جو خود تو جا کر آسمان میں ناچتی پھرتی ہے اور بیچارے ہاروت ماروت کو کنوئیں میں لٹکاگئی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ہمارے گاؤں کی زوری عرف زہرہ نے اپنے شوہر کشمیر کے ساتھ کیا تھا لیکن یہ کہانی پھر سہی۔ فی الحال تو ہمیں رونے دیجیے کیونکہ ہم اپنے محترم مدظلہ العالی کے اس فراق بنگلہ اور وزارت پر بہت دکھی ہیں
ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا جو نہ ''جاتا'' کوئی دن اور