جوہن مک کین سراپا امریکی
آج امریکا کی عالمی قیادت اور وہ اصول خطرے میں ہیں، آزاد دنیا میں امریکا جن پر قائم رہا۔
جوہن مک کین جیسا سپاہی ایک ایسے وقت میں دنیا سے رخصت ہوا ہے جب اس کا ملک امریکا ایک خطرناک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ذاتی طور پر میرے لیے جمہوریت اور آزادی کا دفاع کرنے والا یہ سرتاپا امریکی ، امریکیوں کے اس تشخص اور کردار کی علامت تھا، جس کا مظاہرہ دو عالمی جنگوں کے دوران اور بعد میں دیکھنے میں آیا۔ کہنا یہ مقصود نہیں کہ یہ کردار اب وہاں مفقود ہوچکا، اب بھی غالب اکثریت یہی طرز فکر رکھتی ہے لیکن اب اس کے مظاہرے کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔
آج امریکا کی عالمی قیادت اور وہ اصول خطرے میں ہیں، آزاد دنیا میں امریکا جن پر قائم رہا۔ یہ جمہوریت کی حکمرانی، انفرادی حقوق کا تحفظ اور قانون کی نظر میں برابری کے اصول تھے۔ لیکن جوہن مک کین کے رخصت ہونے کا اثر بقول میرے دوست اور اٹلانٹک کونسل کے صدر فریڈ کمیپ یہ ہوگا،'' ان کی موت یا تو ایک دور کا خاتمہ ہے یا امریکی اہداف کی مشعل روشن کرنے کا موقعہ۔''
فوجی افسر اور سیاست دان، 1987سے ایریزونا سے امریکی سینیٹر جوہن سڈنی مک کین سوم 81برس کی عمر میں 25اگست 2018کو چل بسے۔ مک کین کے ہم نام والد اور دادا بحریہ میں ایڈمرل کے عہدے پر فائز رہے، بحریہ سے اپنے خاندانی تعلق کی روایت کو نبھاتے ہوئے انھوں نے 1958میں امریکا کی نیول اکیڈمی سے گریجوئیشن مکمل کیا۔
بحریہ کے فضائی شعبے سے وابستگی کے بعد زمینی حملوں کے لیے طیارہ بردار جہازوں سے پروازیں اڑائیں۔ اکتوبر 1967میں ویت نام جنگ کے دوران آپریشن ''رولنگ تھنڈر'' میں حصہ لیا اور کارروائی کے دوران شدید زخمی حالت میں شمالی ویت نامیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ 1973 تک وہ قید میں رہے اور تشدد سے گزرے، ویتنام نے خیرسگالی کے اظہار کے لیے انھیں قبل از وقت رہا کرنے کی پیش کش بھی کی، اس وقت مک کین کے والد ویتنام کے لیے امریکی بحریہ کی کمانڈ کررہے تھے، لیکن مک کین نے یہ پیش کش ٹھکرا دی۔ جنگ کے دوران لگنے والے زخموں کی وجہ سے وہ زندگی بھر کے لیے کئی جسمانی معذوریوں میں مبتلا ہوگئے۔اس کے باوجود انھوں نے بطور سینیٹر ویتنام سے سفارتی تعلقات بحال کرنے کے لیے مہم چلائی۔
1981میں بطور کیپٹن بحریہ چھوڑنے کے بعد وہ ایریزونا منتقل ہوگئے اور 1982میں امریکی ایوان نمایندگان کے لیے منتخب ہوئے۔ دو ادوار مکمل کرنے کے بعد 1987 میں امریکی سینیٹ کا انتخاب جیتا اور 2016تک پانچ مرتبہ منتخب ہوئے۔ ری پبلکن پارٹی میں وہ ''آزاد طبع'' ہونے کی شہرت رکھتے تھے اور پارٹی کی پالیسی کے برخلاف 2002 میں مالیاتی اصلاحات کے لیے مشترکہ طور پر مک کین، فینگولڈ ایکٹ پیش کیا۔ اپنی غلطیوں اور کم زوریوں کے اعتراف کے لیے تیار رہنا ان کی (سیاسی) زندگی میں ایک انتہائی غیر معمولی خصوصیت تھی۔ 2000میں وہ ری پبلکن پارٹی کی جانب سے صدارتی انتخابات کی نامزدگی کے لیے جارج بش کے مقابلے میں ناکام رہے، 2008میں وہ اپنی پارٹی کے امیدوار بنے۔ اس انتخاب میں انھیں ڈیموکریٹک امیدوار بارک اوباما سے شکست ہوئی۔
انھوں نے صدر اوباما کے اکثر اقدامات ، بالخصوص خارجہ پالیسی کی مدلل اور مہذب انداز میں مخالفت کی۔ اپنے سابق سیاسی حریف کی آخری رسومات میں اظہار خیال کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا '' جوہن غیر متوقع رہنا چاہتے تھے، وہ عام چلن سے ہٹ کر رہنے والے تھے۔
وہ کبھی پہلے سے طے شدہ چیزوں میں دلچسپی نہیں لیتے تھے، جو کہ بطور سینیٹر انھیں کرنا چاہیے تھا، اور وہ اپنے لیے ایسی یادگاری تقریب تک نہیں چاہتے تھے جو پہلے سے طے شدہ ہو۔ میں اور صدر بش ان چند خود نصیبوں میں سے ہیں جنھیں اعلیٰ سطح پر جوہن کے سیاسی مقابلے کا موقع ملا۔ انھوں نے ہمیں بہتر صدر بنایا۔ بالکل اسی طرح جیسے انھوں نے سینیٹ کو بہتر بنایا، اسی طرح جیسے انھوں نے ملک کو بہتر بنایا۔ اس لیے اگر جوہن جیسا شخص آپ سے اپنی زندگی میں کہے کہ اس کے گزرنے کے بعد اس کی یاد میں آپ کو کچھ کہنا ہوگا تو اس سے بڑھ کر انمول اور منفرد اعزاز کیا ہوگا۔'' اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مک کین کو خود پر کس قدر اعتماد تھا کہ وہ زندگی بھر سیاسی حریف رہنے والوں کو اپنے کردار و دیانت پر بات کرنے کی دعوت دے گئے۔
بعض امریکی خاندان واقعی بہت عظیم ہیں، یہی امریکا کی سب سے بڑی طاقت ہیں۔ مک کین کی سو برس سے زائد عمر کی والدہ ، ان کی اہلیہ سنڈی اور نیوی و مرین کی وردیوں میں ان کے بیٹوں کو ان کی آخری رسومات میں دیکھنا میرے لیے متاثر کُن منظر تھا۔ مک کین خاندان کو دیکھ کر مجھے پیرٹ خاندان کی یاد آتی ہے۔ روز پیرٹ جونیئر ایسٹ ویسٹ انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین اور میرے قریبی دوست ہیں، راقم کو ان کے والد روز پیرٹ سینیئر سے ملنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
ارب پتی ہونے کے باوجود پیرٹ خاندان میں دادا، بیٹے اور پوتے امریکی فوج میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ صدارتی امیدوار مک کین کی طرح انھوں نے بھی 1970کی دہائی میں ایران میں قید ہونے والوں کی بازیابی کے لیے بنائی گئی کمپنی کے ملازمین کے لیے پوری لگن سے کام کیا۔ مک کین، پیرٹ اور ان کی طرح کئی امریکی خاندان اپنے ملک کے لیے دیگر امریکیوں کی طرح پُرخلوص خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں، چاہے ان کی مالی حیثیت و مرتبہ کچھ بھی ہو۔ ترقی کے یکساں مواقع اور اس کے پیدایشی وطن کو زیادہ اہمیت نہ دینا امریکا کی طاقت ہے۔
جوہن مک کین کی موت کے بعد ان کے قریبی دوست نے ان کا الوداعی پیغام پڑھ کر سنایا، '' اکثر صرف جمہوریت خاطر دوسروں کے خوابوں میں جھانکنے کا جی چاہتا ہے کہ کیوں ان کی جدوجہد ہم سے مختلف ہے۔۔۔ لیکن دوستو! آج میں صرف اس خیال کے ساتھ آپ سے رخصت چاہوں گا، اسے یوں دیکھیے: آزاد افراد کی حیثیت سے ہم پر لازم ہے کہ ہم اس تقسیم سے بالا تر ہوکر دیکھیں۔
انسانی عظمت کی لڑائی میں بے عملی کے مشوروں اور دلائل سے قطع نظر ، اس تصور سے جُڑے رہنا ہی ہمیں متحد رکھتا ہے، اور: انسانی روح کی کائناتی آرزؤں ، برداشت اور یکساں مواقع کے تصورات سے اظہارِ یکجہتی بھی یہی کام کرتے ہیں۔ جب ہم کسی دیوار کو گرانے کے بجائے اس کی آڑ لیتے ہیں، جب ہم کسی فکر میں پائی جانے والی تبدیلی کی دائمی قوت پر اعتماد کرنے کے بجائے، اس پر شبہات وارد کرتے ہیں تو ہم اس اتحاد کو کمزور کردیتے ہیں۔''
مک کین انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل لیڈرشپ سے تعلق رکھنے والے سفیر کلنٹ ولیئمسن اور جولیا فروم ہولز نے اکتوبر 2017میں میرے گھر تشریف لاکر عزت افزائی کی اور اہل خانہ و دوست احباب کے سامنے مجھے سینیٹر جوہن مک کین کی دستخط شدہ تصویر عنایت کی جس پر جوہن مک کین نے لکھا تھا ''جمہوریت اور آزادی کے لیے آپ کی دلیرانہ خدمات کا شکریہ۔'' یہ میرے لیے انتہائی قابل فخر اثاثہ ہے۔ میں اس بڑے آدمی سے اپنے موازنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا لیکن ہم میں کئی باتیں مشترک تھیں، دونوں فوج کے سپاہی ، ایوی ایٹر اور جنگی قیدی رہے، اسی تعلق کے سبب میں یہ نقصان بھی محسوس کرسکتا ہوں۔
میں مک کین انسٹی ٹیوٹ اور جولیا فروم ہولز کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے یکم ستمبر کو واشنگٹن میں آنجہانی جوہن مک کین کی آخری رسومات میں شرکت کی دعوت دی لیکن شرکت نہ کرنے کے سبب دلی افسوس ہے اور ٹی وی پر براہ راست یہ تقریب دیکھ کر یہ احساس مزید گہرا ہوگیا۔
ان رسومات کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ خیال آتا تھا کہ قومیں کس طرح اپنے ہیرو کو عزت دیتی ہیں، دوستوں اور حریفوں کی جانب سے کس طرح امریکی قوم کے لیے اس ہیرو کی خدمات کو یاد کیا گیا اور کوئی بھی اختلاف یا رنجش اس اعتراف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکا۔ یہ دنیا سے رخصت ہوجانے والے کسی شخص کی یاد گاری تقریب سے زیادہ ایک ایسے آدمی کی زندگی کا جشن تھا جس نے عزت و وقار، حوصلے اور یکسوئی سے خود کو دنیا کے لیے مشعل راہ ثابت کیا۔ اے سپاہی اور سراپا امریکی جوہن مک کین، الوداع!
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)