دل جلتا ہے تو جلنے دے
دل جلتا ہے تو جلنے دے کے ریکارڈز سارے ہندوستان میں اس طرح فروخت ہوئے تھے کہ اس نے سارے پچھلے ریکارڈ توڑ دیے تھے۔
انڈین فلم انڈسٹری میں اونچے سروں کے گلوکار محمد رفیع کے بعد ایک دھیمی سروں کے ساتھ گانے والا گلوکار مکیش آیا تھا جس نے اپنی سریلی آواز سے لاکھوں دلوں کو موہ لیا تھا اور مکیش اپنے پہلے ہی گیت کے بعد سارے ہندوستان میں چھا گیا تھا، اور جس شاعر کا لکھا ہوا مکیش نے اپنے کیریئر کا پہلا گیت گایا تھا وہ شاعر تھے صفدر آہ سیتا پوری اور فلم تھی ''پہلی نظر'' اس دور کے ایک مشہور اداکار مظہر خان اس فلم کے پروڈیوسر تھے۔ فلم ''پہلی نظر''جس ایک گیت کی وجہ سے فلم بینوں میں پسند کی گئی اور کامیاب ہوئی تھی اس گیت کے بول تھے۔
دل جلتا ہے تو جلنے دے، آنسو نہ بہا فریاد نہ کر
تو پردہ نشین کا عاشق ہے، یوں نام وفابرباد نہ کر
ہم آس لگائے بیٹھے ہیں تم وعدہ کرکے بھول گئے
یا صورت آکے دکھا جاؤ یا کہہ دو ہم کو یاد نہ کر
دل جلتا ہے تو جلنے دے
اس گیت کی موسیقی انل بسواس نے دی تھی، جہاں اس فلم میں مکیش کو روشناس کرایا گیا تھا، وہاں اسی فلم میں منور سلطانہ کو بطور ہیروئن پہلی بار پیش کیا گیا تھا۔ یہ گیت اداکار موتی لال پر عکس بند کیا گیا تھا اور پس منظر میں منور سلطانہ کو بھی دکھایا گیا تھا۔ پھر فلم ''بابل'' میں منور سلطانہ دلیپ کمار کے ساتھ ہیروئن آنے کے بعد صف اول کی اداکاراؤں میں شامل ہوگئی تھی، اب میں پھر پہلی نظرکے گیت کی طرف آتا ہوں۔
دل جلتا ہے تو جلنے دے کے ریکارڈز سارے ہندوستان میں اس طرح فروخت ہوئے تھے کہ اس نے سارے پچھلے ریکارڈ توڑ دیے تھے اور اس دورکی گراموفون کمپنی کے وارے نیارے ہوگئے تھے اور اس بات کا کریڈٹ کچھ صفدر آہ سیتا پوری کو بھی جاتا ہے۔ ابتدا میں صفدر سیتا پوری نثر نگار تھے اور انھوں نے کئی ڈرامے بھی لکھے، افسانے اورکہانیاں بھی لکھیں مگر جب شاعری کی طرف توجہ دی تو شاعری زندگی کا حصہ بنتی چلی گئی اور ڈاکٹر صفدر سیتا پوری، ڈاکٹری چھوڑ کر آہ سیتا پوری ہوگئے تھے۔
یہ دور مشہور رائٹرز وجاہت مرزا چنگیزی، آغا جانی کاشمیری اورکمال امروہوی کا دور تھا۔ ڈاکٹر صفدر آہ سیتا پوری نے اپنی صلاحیتوں سے فلم انڈسٹری میں اپنا ایک جدا گانہ مقام بنایا، ان کی قابل ذکر فلموں میں ''عورت، وشواس، روٹی، عمر خیام اور مان تھیں'' فلم مان کے لیے لکھے گئے آہ سیتا پوری کے کئی گیت اس زمانے میں بڑے مشہور ہوئے تھے جس کے بول تھے۔
٭ میرے پیار میں تجھے کیا ملا مرے دیوتا مجھے بھول جا۔
٭گزرا ہوا الفت کا زمانہ یاد کرکے روئیںگے۔
٭ اﷲ بھی ہے، ملاح بھی ہے ،کشتی ہے کہ ڈوبی جاتی ہے۔
ہم ڈوب تو جائیںگے لیکن دونوں ہی پر یہ تہمت آتی ہے۔
اسی دوران صفدر آہ سیتا پوری، ہدایت کار محبوب خان کی پروڈکشن میں بلا لیے گئے تھے، ان دنوں وہ فلم ''روٹی'' بنا رہے تھے۔ روٹی کا موضوع سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک تازیانہ تھا فلم کی کہانی بڑی پروگریسو تھی۔ ہدایت کار محبوب، ممبئی فلم انڈسٹری میں ایک جداگانہ سوچ کے مالک تھے، ان کی بنائی ہوئی فلموں ''عورت، بہن اور پدر ، مدر انڈیا'' نے بھی برصغیر میں بڑی شہرت حاصل کی تھی ان کی فلموں کے موضوع بڑے سلگتے ہوئے ہوتے تھے۔ فلم روٹی کے لیے صفدر آہ سیتا پوری کی سوچ بھی ہدایت کار محبوب خان سے ملتی جلتی تھی۔ ہدایت کار محبوب فلم ''روٹی'' کے لیے ایک منفرد قسم کا گیت چاہتے تھے۔ فلم روٹی میں یہی دکھایا گیا تھا کہ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ صرف روٹی ہے، اگر اسے روٹی نہ ملے تو وہ گھاس پتھر کھانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ فلم کا تھیم سانگ تھا ہمت تیری چھوٹی آ، بھوکے گگن کے تارے کھا
شاعر نے اس گیت میں انسان کی بھوک اور بے بسی کو چند لفظوں میں سمیٹ کر بے حس معاشرے کو ایک آئینہ دکھایا تھا۔ ''روٹی'' اپنے دورکی ایک اچھی فلم تھی اور بڑی پسند کی گئی تھی۔ صفدر آہ سیتا پوری ایک نئی سوچ کے شاعر تھے ان کے بعد آنے والوں میں ساحر لدھیانوی کا انداز بھی ان سے ملتا جلتا تھا اور ساحر لدھیانوی بھی فلم انڈسٹری پر چھا گیا تھا۔ اس دوران صفدر آہ سیتا پوری نے بے شمار فلموں کے لیے گیت لکھے، کچھ فلموں کے مکالمے بھی تحریر کیے مگر زیادہ دھیان گیتوں ہی کی طرف رہا تھا۔ ذیل میں ان کی لکھی ہوئی چند فلموں کے نام اور ان کے گیتوں کے مکھڑے بھی شامل ہیں:
غریبوں پر دیا کرو (فلم: روٹی)
سنو پنچھی سے راگ (فلم:عورت)
کاہے کرتا دیر باراتی (فلم: عورت)
انسان کیوں روتا ہے (فلم: عمر خیام)
خیام ہے اﷲ والا متوالا (فلم: خیام)
ان کا اشارا جان سے پیارا (فلم:جوانی)
دل نے تجھے یاد کیا (فلم: جوانی)
خان کابل سے آیا (فلم:جوانی)
عورت ایک کہانی یہاں (فلم: وشواس)
اک کھیل یہ سنسار ہے (فلم: پراتھنا)
آیا ساون، آیا ساجن (فلم:پراتھنا)
گجرے والی نجریا ملائی جا (فلم: پراتھنا)
کاہے نیناں لگاکے (فلم: پراتھنا)
لکھنے کو ان کے اور بھی بہت سے گیت ہیں ،اس دور میں جنھیں بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی میں اگر سب گیتوں کا تذکرہ کرنے لگوں تو پھر میرے کالم کا دامن ہی چھوٹا پڑجائے گا، اب آخر میں ان کی لکھی ہوئی اور پروڈیوس کی ہوئی ایک فلم کا اور تذکرہ کرتا ہوں ۔ اس فلم کی کہانی، مکالمے اورگیت ان کے لکھے ہوئے تھے، فلم کا نام تھا ''بھوک'' اور جیساکہ نام سے ظاہر ہے کہانی کا سبجیکٹ ہی منفرد اور جدا تھا ۔ فلمی دنیا میں اکثر دیکھا گیا ہے جو بھی شاعر اپنی ڈگرکو چھوڑ کر دوسری ڈگر اپناتا ہے۔
میری مراد یہ ہے کہ وہ فلمسازی کے میدان میں بھی اتر جاتا ہے تو یہ ایک آزمائش اور امتحان ہوتا ہے۔ آہ سیتا پوری فلمسازی کے امتحان میں بری طرح ناکام ہوگئے تھے اور فلم انڈسٹری میں انھوں نے جوکچھ کمایا تھا وہ سب اپنی فلم پر لگادیا تھا جب ان کی فلم بری طرح ناکام ہوئی تو پھر صفدر آہ سیتا پوری بھی بڑے دل برداشتہ ہوئے تھے پھر یہ آہستہ آہستہ فلموں سے کنارہ کشی اختیارکرنے لگے تھے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہ بالکل گوشہ نشین ہوگئے تھے۔ اپنی فلم بھوک میں انھوں نے ایک گیت لکھا تھا جس کے بول تھے۔
آنکھوں میں کیوں ہیں اشک
آہ سیتا پوری کو اب اپنے اشکوں سے پیار ہو چلا تھا۔ فلم انڈسٹری میں انھوں نے بڑے بڑے نامور فلمسازوں اور ہدایت کاروں کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے تھے۔ ایک طویل عرصہ فلم انڈسٹری میں ایک کامیاب مکالمہ نگار اور گیت نگار کی حیثیت سے گزارا تھا۔ انھیں اب کوئی غم نہیں تھا بلکہ اس بات کی خوشی ہوتی تھی کہ ان کے بعد جو لوگ فلم انڈسٹری میں آرہے ہیں وہ بہتر انداز میں ادب کو فلموں کا حصہ بنا رہے ہیں ۔
اس دوران آنے والوں میں شکیل بدایونی، ساحر لدھیانوی، جاں نثار اختر، راجہ مہدی علی خان ، کیفی اعظمی، جاں نثار اختر اور مجروح سلطان پوری جیسے قد آور شاعروں نے فلموں کے دامن کو ادب سے بھر دیا ہے۔ آہ سیتا پوری نے بے شمار فلموں کے لیے لکھا اگر وہ اتنا زیادہ نہ بھی لکھتے تو ان کا لکھا ہوا پہلی نظر کا ایک گیت ہی کافی ہے جسکی بازگشت فلمی دنیا میں ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی اور آہ سیتا پوری کا نام بھی سدا زندہ رہے گا۔