چوروں کی بارات
وہ جتنا جمع کرتاہے اتنا ہی اس کا جنون اور بڑھ جاتا ہے اس کی بے چینی اور بڑھ جاتی ہے۔
چین کے قانون پسند جنہوں نے قبل مسیح دورکی آخری صدیوں میں بڑا اثرو رسو خ حاصل کیا وہ بادشاہوں کے کان میں یہ بات ڈالا کرتے تھے کہ ہر شے اور ہر شخص کو ریاست کی خدمت کرنی چاہیے۔ انسانی تاریخ میں ایسی بہت سے ریاستوں کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے خودکو اور فلسفیوں نے خوشحالی کے فروغ کے علمبردار وں کے طور پر پیش کیا ہے۔
سقراط کا دولت کو مشترکہ بنانے کا مقصد صرف کسی ایک طبقے کو خوش وخرم کرنا نہیں بلکہ مجموعی طور پر پوری قوم کے لیے ہرممکن حد تک زیادہ خوشی ومسرت حاصل کرنا تھا۔ اشوک بھی اپنے ایک کتبے میں''سب کے لیے تحفظ، خود پر قابو، عدل اور خوشی'' کی خواہش کرتا نظرآتا ہے ، جب کہ اہل مغرب نے ایسے تصورات صدیوں بعد وضع کیے، امریکا کے اعلان آزادی میں زندگی ، آزادی اور خو شی کی تلاش کا نعرہ دیاگیا ۔ 1793ء کے فرانسیسی آئین میں نئی قوم کو اس قرارداد پر متفق کرنے کی کوشش کی گئی کہ معاشرے کا مقصد مشترک خوشی ہے۔
برطانوی مفکر جیری بینھتم نے یہ فلسفہ دیا کہ اچھی حکومت وہ ہوتی ہے جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے زیادہ سے زیادہ خوشی کا اہتمام کرے ۔ تمام کی تمام مغربی حکومتیں اپنے فرائض میں لوگوں کے تحفظ ،خوشحالی، فلاح وبہبود،انصاف اورسائنس اورتعلیم کی صورت میں علم فراہم کرنے کا وعدہ کرتی ہیں اور اس پر پورا اترنے کی ہرممکن کوششیں کرتی ہیں ، ان کے انتخابی معرکے اکثروبیشتر تحفظ کے تقدم اور فلاح وبہبود کے تقدم کے حق میں بحث و مباحثوں میں بدل جاتے ہیں ۔
قدیم ایتھنزکے پاس بھی یہ ہی دو راستے تھے جب چاندی کے نئے ذخائر دریافت ہوئے تو تھیمس ٹوکلینر نے کہا کہ اسے 200 نئے جنگی جہاز بنانے کے لیے استعمال کیا جائے مگر دیگر لوگوں کا موقف تھا کہ نہیں ہر خاندان کو دس دس درہم تقسیم کیے جانے چاہییں ۔ ریاستیں اس وقت مضبوط ہوتی ہیں جب ریاست کے لوگ خوشحال ہوتے ہیں اور جب وہ خوشحال ہوتے ہیں تو وہ خوش وخرم بھی ہوتے ہیں نجی زندگی میں خدمت ذاتی ہوتی ہے لیکن قومی زندگی میں یہ ہماگیر ہوتی ہے اور سب شہریوں کا احاطہ کرتی ہے حکومتوں کے لیے مثالی چیزیہ ہے کہ حکمران کے اپنے مفاد کے بجائے مشترکہ مفاد میں حکومت چلائی جائے۔
سیسرو لکھتا ہے کہ جو شخص شہریوں کے صرف ایک گروہ کی دیکھ بھال کرتا ہے اور بقیہ کو نظر اندازکر دیتا ہے وہ شہر میں مہلک ترین عنصر متعارف کرانے کا ارتکا ب کرتا ہے جس سے میری مراد فساد اور منافرت ہے۔
اسی لیے جیمز میڈیسن کہتا ہے کہ تمام حکومتوں کا دارومدار رائے پر ہوتا ہے ریاستیں بلندو بالا عمارتوں،آئینوں اور فوجوں سے بڑی دکھائی پڑتی ہے مگر ان کا سارے کا سارا انحصار اسی بات پر ہوتا ہے کہ آیا عوام ان پر اعتماد کرتے ہیں یا نہیں۔ ذہن میں رہے ریاستوں کے سربراہ اور عہدے دار اپنا استحقاق ثابت کیے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتے ، اگر پاکستان کے بیس کروڑ لوگوں سے ان کے حکمرانوں کے بارے میں رائے لی جائے تو ان کا متفقہ فیصلہ کرامازن والا ہی ہوگا جب روس کے تاریخ کے نامور مصنف کرامازن سے اپنے پیغام کا خلاصہ بیان کرنے کو کہا گیا تواس نے صرف ایک لفظ بولا تھا "Voruiut"یعنی''سب چور ہیں'' ہمارے حکمرانوں کی اکثریت اور چوروں میں تھوڑا ہی فرق ہو گا۔
آئیں ! چوروں کی خصوصیات کو جانتے ہیں چور ہر چیزکو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا ہے اس پرکبھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ، وہ ہر موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھانے میں دیر نہیں لگاتا ۔ وہ اپنے آپ کو چور تسلیم کرنے پر کبھی راضی نہیں ہوتا۔ وہ اپنے آپ کوچور کہنے پرآپے سے باہر ہو جاتا ہے ۔ اسے چوری کرکے ہی تسکین ملتی ہے وہ ہمیشہ منظم گروہ پر یقین رکھتا ہے ایمانداری ، دیانت داری، شرافت سے نفرت اس کی فطرت میں شامل ہو جاتی ہے۔ چوری اس کاپیشہ بن جاتا ہے وہ دولت جمع کرنے کے جنون میں مبتلا ہو جاتا ہے اور وہ جنون اس کو ہر وقت بے چین رکھتا ہے ۔
وہ جتنا جمع کرتاہے اتنا ہی اس کا جنون اور بڑھ جاتا ہے اس کی بے چینی اور بڑھ جاتی ہے وہ اپنے اور ساتھیوں کے علاوہ کسی کو خوش نہیں دیکھنا چاہتا ۔ دوسروں کو خوشحال دیکھ کراس کی آنکھوںمیں خون اتر آتا ہے ۔ چور کو اس کے کارناموں سے پہلے پہچاننا ناممکن ہوتا ہے وہ ہمیشہ اپنے کارناموں کے بعد پہچانا جاتا ہے ہر چور اپنے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا شاطر اور چالاک سمجھتا ہے چوری کرتے وقت وہ یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ کوئی ثبوت نہیں چھوڑ رہا ہے لیکن اصل میں وہ جگہ جگہ ثبوتوں کو چھوڑ رہا ہوتا ہے۔
ہمارے ستر سال گواہ ہیں کہ ہمیں حکمرانوں کی صورت میں چوروں کی پوری بارات بھگتنے کو ملی ہے۔ ساری زندگی ہم نے ایسی ہی باراتوں کی خدمتوں میں گزار دی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان باراتوں کو دعوت بھی ہم نے ہی دی۔ ایسی باراتوں کی خدمت کاانتخاب بھی ہمارا خود کا تھا اور دعوتیں بھی ہم نے انھیں بڑی عزتوں کے ساتھ دیں تو پھر ظاہر ہے باراتوں نے دعوتوں کا خوب مزا اڑانا ہی تھا اور دعوتوں کے بعد مال سمیٹ کر بھاگ جانا ہی تھا ، چوروں کا مقصد ہی صرف اپنے اور اپنے ساتھیوں کو خوش رکھنا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے یا تو وہ اپنے آپ کو خوش اور خوشحال رکھتے یا پھر بیس کروڑ لوگوں کو ۔
اگر انھوں نے صرف اپنے اور اپنے ساتھیوں کو خوش اور خوشحال رکھنے کا فیصلہ کیا تو ان پر غصہ کیوں کیا جائے ۔ انھیں برا بھلا کیوں کہاجائے وہ اس کے علاوہ اورکر بھی کیا سکتے تھے اس لیے ان پر غصہ کرکے اپنی طبیعت اور خراب کرنے کا خطرہ ہرگز مول نہ لیاجائے اور آپ اپنے دکھ و درد،غموں، بدحالی میں خوش رہنا جتنی جلدی سیکھ لیں گے آپ کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا۔