سورج کی گرمی روک لو

اس منصوبے پر عمل درآمد کا نتیجہ خوراک کی شدید قلت کی صورت میں نکل سکتا ہے۔


Mirza Zafar Baig September 09, 2018
ماہرین ارضیات کھیتیوں کے جل جانے کے خطرے سے خوف زدہ۔ فوٹو: فائل

سورج کی گرمی کے حوالے سے ہم ایک طویل عرصے سے پڑھتے چلے آرہے ہیں کہ اس کی تپش وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلسل شدید قسم کی حدت اختیار کرتی جارہی ہے جو دنیا والوں کے لیے اس حد تک ناقابل برداشت ہوچکی ہے کی اس گرمی نے نہ صرف ہمارے گلیشیئر پگھلادیے بلکہ صدیوں سے منجمد برف کے ذخائر بھی اتنی شدت سے ختم کرڈالے کہ اب تو اس بات کا خدشہ بھی پیدا ہوگیا ہے کہ آنے والے دنوں میں دنیا والوں کے لیے پینے کا صاف پانی ملے گا بھی یا نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ آئندہ کی جنگیں ہی پانی پر لڑی جائیں گی جو اب لگتا ہے کہ بہت جلد ہونے جارہا ہے۔

سورج کی گرمی نے جہاں جہاں اپنی حدت کے جلوے دکھائے ہیں، ان سے ہمارے ماہرین تو واقف ہیں ہی، ہمارے لوگ یعنی عام آدمی بھی اس کی قیامت سامانی کو محسوس کررہے ہیں اور اسی لیے دنیا میں پانی کی کمی کے باعث ہونے والی ہول ناکیوں کا بھی اچھی طرح اندازہ ہوچکا ہے۔

ہمارے ارضیاتی اور سائنسی ماہرین اس ضمن میں کسی سے پیچھے نہیں، یہ تو قبل از وقت ہی متعدد خطرات کا اندازہ لگالیتے ہیں۔ یہ ماہرین کافی طویل عرصے سے اس بات کی نشان دہی کرتے چلے آرہے ہیں کہ سورج کی تیز اور گرم ترین شعاعیں ہمارے کرۂ ارض کو جلائے ڈال رہی ہیں اور ان کی تباہ کاری کے باعث زمین پر اگر انسان کے لے زندگی گزارنا محال ہورہا ہے تو دوسری ارضی حیات کی بقا کے بھی مسائل اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

ساتھ ساتھ یہ اندیشہ بھی پیدا ہوگیا ہے کہ اگر سورج کی تیز اور جھلسادینے والی شعاعیں اسی طرح زمین پر قہر نازل کرتی رہیں تو کہیں زمین پر پائی جانے والی اور لاکھوں کروڑوں انسانوں کی خوراک کا آسرا بننے والی یہ فصلیں بھی جل بھن کر کر خاکستر نہ ہوجائیں اور اس صورت میں اہل دنیا کے لیے خوراک کے بہت سے سنگین مسائل اٹھ کھڑے ہوں گے۔

دنیا کو پہلے ہی خوراک کی قلت کا سامنا ہے، اس صورت میں جب ہماری فصلیں بھی جل جائیں گی یا گرمی کی شدت انہیں کھانے کے قابل بھی نہیں چھوڑے گی تو پھر حضرت انسان کا کیا ہوگا؟ اس ضمن میں ہمارے ارضیاتی ماہرین اور سائنس داںطویل عرصے سے اس فکر میں ہیں کہ کسی طرح زمین پر اگنے والی ان ہری بھری فصلوں کو تحفظ فراہم کیا جائے جو ہماری زمین کے لاکھوں کروڑوں باسیوں کے لیے خوراک کا سب سے اہم اور بنیادی ذریعہ ہیں۔

چناں چہ ماہرین نے اس ضمن میں کافی غوروخوض کیا اور باہمی گفت و شنید کے بعد سب نے متفقہ طور پر یہ تجویز بھی پیش کی کہ اگر ہم زمین کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے سورج کی شعاعوں کو زمین تک نہ پہنچنے دیں یا یوں کہہ لیں کہ ان گرم شعاعوں کے راستے میں کوئی ایسی رکاوٹ کھڑی کردی جائے کہ یہ تیز حدت والی شعاعیں زمین تک نہ پہنچ سکیں تو نہ صرف ہماری زمین محفوظ رہے گی بلکہ اس پر پیڑ پودوں، نباتات اور دیگر اشیا کو بھی تحفظ ملے گا اور ساتھ ہی ان سب کی پیداوار بھی بڑھے گی اور ہماری دنیا کے رہنے والوں کے لیے فاضل مقدار میں خوراک بھی میسر آسکے گی۔

گویا ہمارے ماہرین کا یہ خیال ہے کہ سورج کی تیز شعاعوں کی مضرت رسانیوں سے کرۂ ارض کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اور اس زمین کو گلوبل وارمنگ کے نقصانا ت سے بچانے کے لیے ہمیں اسے سورج اور سورج کی شعاعوں سے بچانا ہوگا جس کے بعد یہ کرۂ ارض ٹھنڈا ہوکر محفوظ ہوجائے گا اور یہاں بہت سی ایسی مخلوقات کی پیدائش ممکن ہوسکے گی جو بہ صورت دیگر نہیں ہوپارہی۔ مگر کچھ اور دیگر ماہرین نے اس خیال کو مسترد کردیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس حکمت عملی سے زمین پر اگنے والی فصلوں کو پہنچنے والے نقصان میں کوئی کمی نہیں ہوسکے گی۔

ہمارے یہ ماہرین کہتے ہیں کہ بے شک سولر جیو انجینئرنگ زمین کے درجۂ حرارت کو کم تو کردے گی جس کے بعد ہیٹ اسٹریس یا یوں کہہ لیجیے کہ گرمی کے باعث ہونے والی شدت تو کم ہوجائے گی، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ عمل ایک اور بڑا نقصان یہ کرے گا کہ اس کی وجہ سے فوٹوسینتھیسس کا عمل بھی گھٹ جائے گا یا کم ہوجائے گا۔

یہ بات برکلے، کیلی فورنیا کی یونی ورسٹی میں ہونے والے ایک تحقیقی مطالعے کے دوران بتائی گئی۔ اس مطالعے کے دوران حاضر افراد اور شرکاء کو یہ بھی بتایا گیا کہ کچھ عرصہ پہلے فضائی اور سائنسی ماہرین نے زمین کی حدت اور شدت کو کم کرنے کے لیے یہ تجاویز پیش کی تھیں کہ اگر زمین کے بالائی ماحول میں سلفیٹ ایروسولز کو انجیکٹ کردیا جائے تو اس سے نہ صرف یہ بالائی فضائی ماحول بلاک ہوجائے گا، بلکہ سورج کی روشنی اور اس کی شعاعیں بھی بکھر جائیں گی ۔

جس سے عالمی درجۂ حرارت میں کمی ہوجائے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری فصلوں کی پیداوار بڑھ جائے، کیوں کہ بہ صورت دیگر گرمی کی یہ شدت ہمارے پیڑ پودوں اور ہماری فصلوں کو نڈھال کیے دے رہی ہے اور ان کی پیداوار میں مسلسل کمی ہورہی ہے جو نہ صرف کرۂ ارض کے لیے ایک بڑے خطرے کی علامت ہے، بلکہ اس کی وجہ سے اہل دنیا کے لیے خوراک کی کمی ایک بہت بڑی اور مشکل صورت حال پیدا کردے گی۔

یہ تو تجاویز پہلے دی گئی تھیں اور ان کے فوائد بھی بتادیے گئے تھے، مگر بعد میں ہونے والی ایک نئی اسٹڈی نے فوری طور پر یہ ظاہر کیا ہے کہ گرمی کی اس شدت میں کمی سے ہمیں وہ فوائد حاصل نہیں ہوں گے جن کی ہمیں توقع ہے، بلکہ اس سے الٹا نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ خاص طور سے سورج کی روشنی کا راستہ روکنے سے پودوں کے فوٹو سینتھیسس کا عمل بھی کم یا سست ہوجائے گا جس کا الٹا نقصان یہ ہوگا کہ زمین کے نسبتاً سرد درجۂ حرارت کی وجہ سے کوئی بہتری آنے کے بجائے الٹا نقصان ہوسکتا ہے اور وہ پیداوار کم یا بالکل ختم ہوسکتی ہے، کیوں کہ اس سے زمین کا ماحول اور اس کا کرۂ ہوائی تباہ ہوسکتا ہے۔

ماہرین کی ٹیم نے اپنے اس تجزیے کی بنیاد دو سابقہ آتش فشانی دھماکوں کے اثرات پر رکھی تھی۔

اگر یہ آتش فشانی دھماکے فضا میں ایروسولز کے باعث زمین کو ٹھنڈا کرسکتے تھے تو ہم بھی ایک مقصد کے تحت کرۂ ہوائی میں ایروسولز کو انجیکٹ کرسکتے ہیں جس سے ہمارا کرۂ ارض ٹھنڈا ہوسکتا ہے اور ہم آب و ہوا کی تبدیلی کے ناموافق اثرات سے بھی محفوظ ہوسکیں گے۔

دوسری جانب اسی یونی ورسٹی میں بحث کے دوران کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سے فصلوں کی پیداوار پر کوئی اچھا یا مثبت اثر ہرگز نہیں پڑے گا، گویا ان کا کہنا تھا کہ یہ خاصا مشکل کام ہے، مگر یہ ایک فضول اور بے مقصد کوشش ہوگی۔ سورج کی حدت یا تیزی والی شعاعوں کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ایک ماہر نے تو یہ بھی کہا کہ جب ہم اپنے کرۂ ارض کے اوپر کسی بھی طرح کا سایہ کردیں گے تو اس سے واقعی اس مسئلے پر قابو پانے میں مدد تو ملے گی اور ہماری فصلیں بہتر انداز سے اُگیں گی۔

مگر دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پیڑ پودوں اور فصلوں کو بھی اگنے کے لیے سورج کی اور اس کی روشنی یا شعاعوں کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ دھوپ کو بلاک کرنے سے ان کی پیداوار پر منفی اثر پڑے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اسی طرح سے ہے جیسے آپ کسی ایسے مریض کے علاج کے لیے اس پر ایسا تجربہ کرنے کی کوشش کریں جس کے اثرات کا آپ کو پہلے سے کوئی علم نہ ہو یا اس کی ایسی سرجری کرنے کی کوشش کریں جس کے نتیجے میں اس کی جان بھی جانے کا اندیشہ ہو۔ بہت ساری نامعلوم باتیں ہر معقول انسان کو بھی پریشان کردیتی ہیں اور خاص طور سے جب بات عالمی پالیسیوں کی ہو تو ہر انسان کوئی فیصلہ لینے سے پہلے سو بار سوچتا ہے کہ میں کیا کروں، پھر جو بھی کرتا ہے، اس کے نتائج کی پروا نہیں کرتا۔

اپنے طویل بحث و مباحثے کے دوران ماہرین نے یہ بھی کہا کہ زمین پر اُگنے والی فصلوں کو سورج کی تیز شعاعوں اور گرمی کے باعث پہنچنے والے نقصان سے بچانے کے لیے سب سے اچھا اور مناسب راستہ یہ ہے کہ ہم اپنی اس پیاری اور حسین دنیا کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے خوف ناک اخراج سے بچائیں جس کے بعد ہماری فصلیں بھی بہتر پیداوار دینے کے قابل ہوں گی اور اس کرۂ ارض پر بسنے والوں کی زندگیوں کا معیار بھی بہتر ہوسکے گا اور وہ محفوظ زندگیوں کی طرف آئیں گے اور خوش حالی کی راہ پر گام زن ہوسکیں گے۔

یہی ہماری دنیا کے مستقبل کے لیے بھی بہتر ہوگا اور اسی سے ہماری زمین کے باسیوں کو بھی سلامی کا احساس ہوگا۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کی دنیا کو قدرت نے ایک سسٹم کے تحت تخلیق کیا ہے جس میں دخل اندازی کرنے کا انسان کو کوئی حق نہیں، اگر انسان ایسا کرتا رہا تو بہت سی پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں جس سے زمین پر زندگی کی بقا مشکل ہوجائے گی، بلکہ الٹا انسانی زندگی کے لیے خطرات بڑھ جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں