عام آدمی کا دشمن ٹیکس نظام

عمران خان حکومت ٹیکسوں کے بوسیدہ سسٹم کی اوورہالنگ سے مہنگائی تلے پستے عوام کو ریلیف فراہم کر سکتی ہے


سید عاصم محمود September 09, 2018
عمران خان حکومت ٹیکسوں کے بوسیدہ سسٹم کی اوورہالنگ سے مہنگائی تلے پستے عوام کو ریلیف فراہم کر سکتی ہے۔ فوٹو: فائل

وطن عزیز میں نئی حکومت نے عوام کے دلوں میں اُمید کی جوت جلادی جنہیں مہنگائی نے سب سے زیادہ تنگ کررکھا ہے۔ کھانے پینے اور روزمرہ استعمال میں آنے والی اشیا کی قیمتیں بھی آسمان کو باتیں کررہی ہیں۔

اس مہنگائی کا ایک بڑا سبب ظالمانہ ٹیکس نظام ہے۔وطن عزیز میں رائج ٹیکس نظام واضح طور پر عوام دشمن ہے۔اس کے ذریعے عوام پر تو ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا گیا جبکہ وہ طبقہ بالا کو اپنی گرفت میں لانے میں ناکام رہا ہے۔پچھلے برسوں کی ٹیکس ڈائرکٹریاں دیکھ لیجیے،قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے بیشتر ارکان نے اتنے کم ٹیکس دئیے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔

عمران خان حکومت یہ استحصالی ٹیکس نظام بدل کر غریب عوام کی دعائیں سمیٹ سکتی ہے۔دنیا بھر میں حکومتیں شہریوں پر مختلف ٹیکس لگا کر سرکاری خزانہ بھرتی ہیں۔ ٹیکس کی دو بنیادی اقسام ہیں: براہ راست (Direct)ٹیکس اور دوسرا بالواسطہ (Indirect) ٹیکس۔براہ راست ٹیکس امیر افراد اور کمپنیوں پر لگائے جاتے ہیں۔ ایسے ٹیکسوں میں انکم ٹیکس، کارپوریشن ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، گفٹ ٹیکس، ویلتھ ٹیکس اور ان ہیرٹنس ٹیکس نمایاں ہیں۔بالواسطہ ٹیکس مملکت میں آباد ہر شخص کو دینا پڑتا ہے چاہے اس کی آمدن ماہانہ تین ہزار روپے ہی ہو! ایسے ٹیکسوں میں سیلز ٹیکس، سروس ٹیکس، ایکسائز ڈیوٹی اور ود ہولڈنگ ٹیکس وغیرہ شامل ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں حکومتوں کی سعی ہوتی ہے کہ بالواسطہ ٹیکس کم سے کم لگائے جائیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ یہ ٹیکس امیر اور غریب کے مابین فرق نہیں کرتے... ہر کسی کو یہ ٹیکس ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اسی لیے ترقی یافتہ اور فلاحی ممالک میں کل ٹیکسوں میں صرف ''20 تا 25 فیصد'' ٹیکس بالواسطہ ہیں۔ حکومتیں اپنی 75 تا 80 فیصد آمدن براہ راست ٹیکسوں سے حاصل کرتی ہیں۔

پاکستان میں الٹا حساب ہے... یہاں حکومت کو 65 سے 70 فیصد آمدن بالواسطہ ٹیکسوں سے ملتی ہے۔ المیّہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ود ہولڈنگ ٹیکس کو براہ راست ٹیکس کے زمرے میں شامل کررکھا ہے۔ اگر براہ راست ٹیکسوں سے ود ہولڈنگ ٹیکسوں کی آمدن نکال دی جائے، تو پاکستانی حکومت کو تقریباً ''90 فیصد'' آمدن بالواسطہ ٹیکسوں سے حاصل ہوتی ہے۔

یاد رہے، حکومت نے پاکستانی قوم پر 75 مختلف اقسام کے ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کررکھے ہیں۔پاکستان میں بالواسطہ ٹیکسوں کی بہت زیادہ شرح ہی نے عوام کا جینا محال کررکھا ہے۔ وجہ یہی کہ یہ ٹیکس امیر اور غریب کے مابین تمیز نہیں کرتے۔ ایک دیہاڑی دار مزدور یا ڈرائیور اپنے کھانے پینے کی اشیا سے لے کر بجلی، گیس، موبائل فون وغیرہ کے بلوں پر لگائے گئے جو مختلف ٹیکس ادا کرتا ہے، ارب پتی پاکستانی بھی لگ بھگ اسی شرحِ رقم میں وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ایسا ٹیکس نظام قطعاً عدل و انصاف کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا بلکہ اسے عام آدمی پر ظلم کے مترادف سمجھنا چاہیے۔

بالواسطہ ٹیکسوں کی زیادتی کے باعث عام استعمال کی اشیا بھی دگنی تگنی مہنگی ہوجاتی ہیں۔عائد کردہ ٹیکس ایک عام شے کی قیمت بھی بڑھا دیتے ہیں۔ امیر تو یہ اشیا باآسانی خرید لیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس پیسا ہوتا ہے، مگر غریبوں کو دال روٹی پانے کے لیے بھی بہت جان مارنا پڑتی ہے۔ تیس چالیس سال پہلے پاکستان میںبالواسطہ ٹیکسوں کی شرح کم تھی، اسلئے غریب آدمی تھوڑی آمدن میں بھی آسانی سے گزر بسر کرلیتا تھا کیونکہ چیزیں سستی تھیں۔

لیکن ا ب بالواسطہ ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار کے باعث عام آدمی کو جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی خاطر سارا دن تگ ودو کرنا پڑتی ہے کہ دال بھی مہنگی ہو چکی۔یہ مسلسل مصروفیت پاکستانیوں کو مشین بنا رہی ہے اور وہ جذبات واحساسات سے عاری ہوتے چلے جا رہے ہیں۔پاکستان میں بالواسطہ ٹیکسوں کی کثرت اسلئے ہے کہ خاص طور پہ امیر پاکستانی براہ راست ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ان امیر پاکستانیوں سے گلہ کیا جائے تو وہ یہ دہائی دیتے ہیں کہ ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کی رقم حکمران طبقہ کھا جاتا ہے۔

یا پھر وہ اس کے اللوں تللوں پر خرچ ہوتی ہے۔لہٰذا وہ ٹیکس کیوں دیں؟ بہت سے امرا ٹیکسوں کی رقم فلاحی وسماجی تنظیموں کو دینا پسند کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے ،پاکستان میں کئی ممالک کے مقابلے میں لوگ زیادہ چندے دیتے ہیں۔حکمرانوں کی کارکردگی دیکھی جائے، تو محب وطن امیر پاکستانیوں کی شکایت بجا لگتی ہے۔ اس وقت پاکستان پر27 ہزار ارب روپے کا قرضہ چڑھ چکا اور یہ بڑھتا جارہا ہے کیونکہ حکومت ان قرضوں کا صرف سود ادا کرنے کی خاطر عالمی و قومی مالیاتی اداروں سے مزید قرضے لے رہی ہے۔ظاہر ہے، قرضوں کی یہ بدترین آفت نااہل اور کرپٹ حکمرانوں کے کرتوتوں کی وجہ سے پاکستانی قوم پر ٹوٹی۔انھوں نے عالمی و قومی مالیاتی اداروں سے بطور قرض جو کھربوں روپے لیے، وہ غیر اہم ترقیاتی منصوبوں پر لگے یا حکمران طبقے کی کرپشن کی نذر ہو گئے۔قرضوںکا یہ پھندا ملک وقوم کی بقا تک خطرے میں ڈال سکتا ہے۔انتہائی حیرت ہے کہ ہماری سلامتی کے محافظ سکیورٹی ادارے بھی قرضوں کا جال بڑھتا دیکھ کر خاموش رہے اور حکمرانوں کے ہاتھ باندھنے کی کوششیں نہیں کی گئیں۔

اب عمران خان حکومت کی یہ بھر پور کوشش ہونی چاہیے کہ وہ پاکستانی ٹیکس گزاروں کا نئی حکومت پر اعتماد بحال کرے۔ وہ انہیں یقین دلائے کہ ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کا پیسہ عوام دوست اور بامقصد و مفید ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوگا۔ وہ حکمرانوں کی جیب میں نہیں جائے گا اور نہ ہی کرپشن کی نذر ہوگا۔ پاکستانیوں کو یہ یقین دلانا اشد ضروری ہے کہ ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کی رقم ملک و قوم کی ترقی و بہتری پر خرچ ہوگی۔ یہ اعتماد و یقین بحال ہونے کے بعد ہی پاکستانی ایمان داری سے ٹیکس دینے پر آمادہ ہوں گے۔

ابھی تو بائیس کروڑ پاکستانیوں میں سے صرف آٹھ تا تیرہ لاکھ پاکستانی انکم ٹیکس اور دوسرے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔یہ انتہائی مایوس کن تعداد ہے۔یہ ہماری آبادی کا نصف فیصدی حصہ بھی نہیں بنتی۔ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح بہت زیادہ ہے۔اسکینڈے نیویا کی فلاحی مملکتوں میں 40 تا 50 فیصد آبادی ٹیکس دیتی ہے۔حتی کہ ہمارے پڑوسیوںبھارت ،بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی کل آبادی کا 2 تا 5 فیصد حصہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔ مزید براں پاکستان میں مشہور ہے کہ بیشتر لوگ پورے ٹیکس نہیں دیتے اور ہیر پھیر سے رقم بچالیتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کم از کم ایک کروڑ پاکستانی ٹیکس دے سکتے ہیں۔ اگر یہ پاکستانی اپنے حصے کے ٹیکس ادا کرنے لگیں، تو حکومت پاکستان کی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہوجائے ۔ترقی یافتہ ممالک میں حکومتوں کی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ انکم ٹیکس ہے۔وہاں جو شہری جتنا زیادہ امیر ہو ،وہ اتنا ہی زیادہ انکم ٹیکس اور دوسرے ٹیکس بھی ادا کرتا ہے۔اکثر اوقات امرا کی پچاس فیصد سے بھی زیادہ کمائی ٹیکسوں کے ذریعے سرکاری خزانے میں پہنچ جاتی ہے۔یہ عدل وانصاف پہ مبنی ٹیکس نظام ہے۔یعنی امرا سے رقم لے کر نچلے طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے۔یہ نظام معاشرے میں دولت کا ارتکاز کسی حد تک روک دیتا ہے اور معاشی مساوات پیدا کرتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے ریاست مدینہ منورہ میں درج بالا معاشی نظام ہی قائم فرمایا تھا۔آپﷺ اس ٹیکس نظام کے بانی مبانی ہیں جسے مغرب کی مملکتوں نے اپنا لیا۔تعجب خیز بات یہ کہ ایسا ٹیکس نظام پاکستان سمیت کئی اسلامی ملکوں میں عنقا نظر آتا ہے۔گویا مغربی ملک تو مدینہ منورہ کی فلاحی مملکت کے ماڈل کی پیروی کر کے ترقی یافتہ اور خوشحال بن گئے مگر مسلم حکمرانوں نے اسے تج کر عالم اسلام کو زوال کی دلدل میں دھکیل دیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ دس بارہ لاکھ ٹیکس گذار پاکستانیوں میں اکثریت نجی وسرکاری اداروں سے بطور تنخواہ دار ملازم منسلک ہے۔ان کی آمدن سے مخصوص رقم بطور انکم ٹیکس کٹ جاتی ہے۔ٹیکس دینے والے صنعت کاروں،کاروباریوں اور دیگر امرا کی تعداد پندرہ سولہ ہزار ہے۔اب ہمارے ٹیکس نظام کی ایک اور بڑی خامی ملاحظہ فرمائیے۔صنعت کاروں اورکاروباریوں کا دعوی ہے کہ ٹیکس لینے والے سرکاری ادارے،ایف بی آر نے انھیں قربانی کا بکرا بنا لیا ہے۔وہ اس طرح کہ نجی کمپنیوں پر ٹیکسوں کی اتنی بھرمار کر دی کہ وہ ان کے بوجھ تلے سسکنے لگی ہیں۔

ٹیکسوں کے اعدادوشمار دیکھے جائیں تو صنعت کاروں اور کاروباریوںکی شکایت بجا لگتی ہے۔ترقی یافتہ ملکوں میں نجی کمپنیوں پر ٹیکسوں کی شرح 15 تا 20 کے درمیان ہے۔جبکہ پاکستان میں یہ شرح 30 تا 35 کے مابین پہنچ چکی۔نجی اداروں پر زیادہ ٹیکس لگانے سے ملک میں صنعت وتجارت اور کاروبار کی سرگرمیاں سست پڑ جاتی ہیں۔چناں چہ پاکستان بھی کچھ ایسی ہی بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔

دماغ کا دہی بنانے والا نظام

ممتاز ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مروجہ ٹیکس نظام کی ایک بڑی خامی اس کا پیچیدہ ہونا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے بھی ٹیکس لینے کے حق دار پائے۔ حتی کہ یونین کونسل کی سطح پر بھی نئے ٹیکس لگا دئیے گئے۔ مگر وفاقی، صوبائی اور مقامی سطح پر ٹیکس لگنے سے پاکستانی ٹیکس نظام بہت پیچیدہ ہوگیا۔ اس میں پیچیدگیاں اتنی زیادہ ہیں کہ تعلیم یافتہ ٹیکس گزار بھی انہیں سمجھ نہیں پاتے۔پاکستان میں ایف بی آر کا ادارہ ٹیکسوں کی رقم جمع کرتا ہے۔ یہ ایک دیوہیکل سرکاری ادارہ ہے جس میں تیس ہزار سے زائد افراد کام کرتے ہیں مگر اس کی کارکردگی تسّلی بخش نہیں۔

ہر سال وہ اپنا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے اور مطلوبہ آمدن جمع نہیں کر پاتا۔ ایف بی آر کے افسروں پر یہ الزام بھی لگتا ہے کہ وہ کرپٹ ہیں۔وہ بے ایمان ٹیکس گزاروں سے ''مک مکا'' کرکے ان پہ کم ٹیکس لگاتے اور یہ بد حرکت کرنے کے عوض بھاری رقم پاتے ہیں۔ گویا جو رقم سرکاری خزانے میں پہنچنی چاہیے، ان کی تجوریوں میں جا پہنچتی ہے۔اس کرپٹ روش کے باعث سرکاری خزانے کو ہر سال اربوں روپے سے محروم کیا جاتا ہے۔

مسئلے کا حل کیا؟

حکمران جماعت، تحریک انصاف نے اپنے منشور میں دعویٰ کررکھا ہے کہ وہ برسراقتدار آکر پاکستانی قوم سے 8 ہزار ارب کے ٹیکس وصول کرے گی۔(فی الوقت ایف بی آر سالانہ ٹیکسوں سے پونے چار ہزار ارب روپے اکھٹے کرتا ہے)۔ یہ دعویٰ اسی وقت پورا ہوسکتا ہے جب عمران خان حکومت قومی ٹیکس نظام میں انقلابی تبدیلیاں لائے اور نئی اصلاحات متعارف کرائی جائیں۔ سرکاری خزانے میں پیسا آنے کے بعد ہی عمران خان پاکستان کو مدینہ منورہ جیسی فلاحی مملکت میں ڈھال سکیں گے۔ لیکن خالی سرکاری خزانہ انہیں بھی بھکاری بنا کرعالمی و مقامی مالیاتی اداروں کے دروازے پر پہنچا دے گا۔ٹیکسوں کی آمدن بڑھانے کے سلسلے میں پہلا قدم تو یہی ہے کہ عمران خان حکومت ٹیکس گزاروں کا اعتماد بحال کرے۔ انہیں یقین دلائے کہ ان سے وصول شدہ رقم جائز سرکاری سرگرمیوں پر خرچ ہوگی۔ دوسرا قدم ٹیکس نظام میں اصلاحات لانا ہے۔

اس ضمن میں بعض ماہرین معاشیات کا مشورہ ہے کہ ایف بی آر ختم کرکے ایک نئے ادارے ''نیشنل ٹیکس ایجنسی'' کی بنیاد رکھی جائے۔ یہی ادارہ وفاقی، صوبائی اور مقامی سطح پر پاکستانی قوم سے ٹیکس اکھٹے کرے اور اس سلسلے میں اینٹلی جنس کی بنیاد پر ایک مربوط و منظم نظام تشکیل دیا جائے۔نیشنل ٹیکس ایجنسی کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ وفاقی، صوبائی اور مقامی سطح پر ٹیکس لینے والے جو مختلف ادارے کام کررہے ہیں، ان کی پھر ضرورت نہیں رہے گی۔ تب کراچی سے لے کر خیبر تک ہر پاکستانی کو علم ہوگا کہ صرف ایک ادارہ (نیشنل ٹیکس ایجنسی) ہر قسم کے ٹیکس لینے کا ذمے دار ہے۔

یوں قومی ٹیکس نظام کی پیچیدگی کم ہوگی اور پاکستانی قوم میں ٹیکس دینے کے رجحان میں اضافہ ہو گا۔نیشنل ٹیکس ایجنسی کا قیام صوبائی حکومتوں کے مشورے سے عمل میں لایا جائے تاکہ آمدن کی تقسیم کا میکنزم اتفاق رائے سے جنم لے سکے۔ماہرین کی تجویز ہے کہ نیشنل ٹیکس ایجنسی کی افرادی قوت کے لیے ایک نئی سرکاری سروس،''کل پاکستان ٹیکس سروس''کی بنیاد رکھی جائے۔اس سروس میں اکائونٹس، قانون،آئی ٹی اور انتظام (ایڈمنسٹریشن) میں طاق مردوخواتین بھرتی کیے جائیں ۔انھیں پھر ٹیکس نظام کا ماہر بنایا جائے تاکہ وہ بخوبی ٹیکس افسر کی خدمات انجام دے سکیں۔نئے ٹیکس نظام میں کمپنیوں پہ کارپوریٹ ٹیکسوں کی شرح 20 فیصد ہو۔نیز دولت مند افراد پہ 10 فیصد انکم ٹیکس لگایا جائے،نیز کل دولت پر بھی 2.5 فیصد ویلتھ ٹیکس عائد کیا جائے۔سیلز ٹیکس کی شرح 10 فیصد رکھی جائے جو فی الوقت 17 فیصد ہے۔تاہم دیگر ٹیکسوں کی شمولیت سے یہ شرح اکثر اشیا پر خاصی بڑھ جاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں