ہالینڈ کی گستاخی اور پاکستان
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ خاکوں کا معاملہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے آیندہ اجلاس میں اٹھایا جائے گا۔
چند دنوں پرانی ہی بات ہے جب نعوذباللہ ہالینڈ کی طرف سے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی خاکہ نگاری کی بات چل رہی تھی، ناموس رسالتؐ کی حفاظت کے لیے پاکستان نے بھرپور کردار ادا کیا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ خاکوں کا معاملہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے آیندہ اجلاس میں اٹھایا جائے گا۔ اس کے علاوہ پاکستان نے ہالینڈ کی فریڈم پارٹی کے لیڈر کی جانب سے اس ناپاک جسارت پر ہالینڈ کے ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرلیا تھا اور شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں نے آواز اٹھائی، اپنے پیارے نبیؐ سے بے پناہ عقیدت اور محبت کے نتیجے میں تمام مسلمانوں نے غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔ ہالینڈ کے اسلام مخالف قانون دان گیرٹ ولڈرز نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ دیگر افراد کی زندگیوں کے خطرے اور قتل کی دھمکیوں کے بعد وہ گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ اگر مسلمانوں میں اتحاد ہو تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت مسلمانوں کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچاسکتی۔
سیاسی ماحول کا جہاں تک تعلق ہے تو مولانا فضل الرحمن صدارتی امیدوار کے طور پر ہر لمحہ کوشاں تھے اور ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے، بقول پیپلز پارٹی فضل الرحمن (ن) لیگ کو راضی کرنے کے بجائے خود امیدوار بن کر سامنے آئے ہیں، اس کے ساتھ ہی انھوں نے سابق صدر آصف زرداری سے اپنے لیے حمایت کی درخواست بھی کی تھی اور دوسری سیاسی پارٹیوں کو راضی کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتے رہے۔ صدر بننے کی خواہش تو ان کی کامیاب نہ ہوسکی۔
کالم لکھ ہی رہے تھے کہ صدارتی انتخاب پایہ تکمیل کو پہنچا اور نتیجہ بھی آگیا۔ پی ٹی آئی کے صدارتی امیدوار عارف علوی 353 ووٹ لے کر صدر کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ اﷲ نے پی ٹی آئی کو بڑی کامیابی سے سرفراز کیا ، اب موجودہ حکومت کا اولین فرض ہے کہ وہ مشاورت کے ذریعے ایسے فیصلے کرے جو ملک و قوم کے لیے مثبت ہوں اور اختلاف کی گنجائش پیدا نہ ہوسکے، لیکن ابھی حکومت کو بنے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں کچھ ایسے حالات بھی پیدا ہوئے جو پی ٹی آئی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتے ہیں۔ لہٰذا انھیں دانش مندی اور حکمت عملی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ تحریک انصاف کا حکومت میں آنا بڑی کامیابی ہے۔
اس وقت مجھے ایران اور روم کی حکومتوں کا عروج و زوال یاد آگیا۔ اس کی وجہ حال ہی میں، میں نے مفتی تقی عثمانی کی تحریر کردہ تفسیر پڑھی تھی، سورۂ روم کا ایک خاص پس منظر ہے، جس وقت آنحضرتؐ کو نبوت عطا ہوئی، ان دنوں دنیا میں دو بڑی طاقتیں ایران اور روم کی تھیں، ایران کی حکومت مشرق کے خطے میں پھیلی ہوئی تھی اور اس سلطنت کے ہر بادشاہ کو کسریٰ کے نام سے پکارا جاتا تھا، یہ لوگ آتش پرست تھے، یعنی آگ کو پوجنے والے اور روم کی حکومت مکہ مکرمہ کے شمال اور مغرب میں قائم تھی، شام، مصر، ایشیائے کوچک اور یورپ کے علاقے اسی سلطنت کے ماتحت تھے اور اس کے ہر بادشاہ کو ''قیصر'' کہا جاتا تھا اور ان میں اکثر عیسائی مذہب کے ماننے والے تھے، جس وقت یہ سورہ نازل ہوئی اس وقت ان دو بڑی طاقتوں کے درمیان شدید قسم کی جنگ جاری تھی اور اس جنگ میں ایران کا پلہ بھاری تھا، گویا جیت اس کی ہی نظر آرہی تھی اور ایرانی فوجوں نے روم کی فوج کو شکست دے کر بڑے بڑے شہر فتح کرلیے تھے، یہاں تک نوبت آگئی تھی کہ انھوں نے بیت المقدس میں عیسائیوں کا مقدس ترین کلیسا تباہ کرکے رومیوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا تھا اور روم کا بادشاہ ہرقل بے یار و مددگار ہوکر پناہ کی تلاش میں تھا۔
ایران کی حکومت چونکہ آتش پرست تھی، لہٰذا مکہ مکرمہ کے بت پرستوں کی حمایت انھیں حاصل تھی اور جب ایران کی فتح کی خبر سنتے تو وہ خوشی سے جھوم اٹھتے تھے، اور مسلمانوں کو چڑانے کے لیے کہتے کہ عیسائی مسلسل شکست کھا رہے ہیں، چونکہ عیسائی آسمانی کتاب بائبل پر یقین رکھتے تھے اور ایران کے لوگ ہماری ہی طرح کسی پیغمبر یا آسمانی کتاب پر یقین نہیں رکھتے ہیں، اس نازک ترین موقع پر اﷲ رب العزت نے یہ سورہ نازل کی اور اس میں اس بات کی پیش گوئی کی گئی کہ روم کے لوگ اگرچہ اس وقت شکست کھا گئے ہیں لیکن چند ہی برسوں میں وہ فتح حاصل کرلیں گے اور ایرانیوں پر غالب آجائیں گے۔ مسلمان مکہ کے مشرکین پر فتح منائیں گے۔ اور اﷲ کے حکم سے دونوں پیش گوئیاں درست ثابت ہوئیں۔
جنگ بدر میں حضور اکرم ﷺ کو بہت بڑی کامیابی نصیب ہوئی اور دوسری طرف ایرانیوں کی فتوحات کا دائرہ وسیع تر ہوتا چلا گیا اور یہاں تک کہ وہ قیصر کے پایہ تخت قسطنطنیہ کی دیواروں تک پہنچ گئے۔ ان حالات میں قیصر ہرقل نے صلح کرنی چاہی جسے ایرانیوں نے ٹھکرا دیا۔ ہرقل تیونس کی طرف بھاگنے کا منصوبہ بنانے لگا، لیکن اﷲ کے حکم سے حالات نے عجیب طرح سے پلٹا کھایا اور ہرقل نے مجبور ہوکر ایرانیوں پر عقب سے حملہ کردیا، اس میں اسے بڑی کامیابی نصیب ہوئی اور جنگ کا پانسا ہی پلٹ گیا۔ لہٰذا اﷲ رب العزت جب چاہتا ہے وہ ہواؤں کا رخ بدل دیتا ہے۔
پاکستان کی تعمیر و تشکیل بھی کسی معجزے سے کم نہیں تھی اور معجزوں کا رونما ہونا بھی اﷲ ہی کے حکم سے ہوتا ہے۔ پاکستان تباہی کی سرحد پر پہنچ گیا تھا، امریکا، اسرائیل اور ہندوستان پاکستانی غداروں کے ذریعے اسے دنیا کے نقشے سے مٹانے کے لیے تلے ہوئے تھے، لیکن پھر اﷲ نے اپنے بندوں کی کیسے مدد فرمائی۔ یہ حقیقت سب کے سامنے ہے۔ ان دنوں وزیراعظم عمران خان کی جان کو بے حد خطرہ ہے، دشمن قوتیں سرگرم عمل ہیں، سی آئی اے نے پاکستان اور محب وطن پاکستانیوں خصوصاً حکمران طبقے کے لیے اپنا جال بچھا دیا ہے اور ان کا ٹارگٹ ملک کا وزیراعظم ہے۔ چونکہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، صہیونی طاقتوں، کفار و نصاریٰ کو مملکت اسلامیہ کی ترقی اور کامیابی ایک آنکھ نہیں بھاتی ہے، اسی وجہ سے وہ دنیا کے کئی ممالک کو تہہ و بالا کرچکے ہیں۔
عرصہ دراز سے پاکستان میں CIA تازہ دم ہے۔ ملکی اداروں میں بھی لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اپنے جاسوس چھوڑ دیے ہیں جو آئے دن پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں، ان لوگوں کی حمایت کرنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں جنھوں نے پاکستان کے وقار کو ٹھیس پہنچائی اور اسے کمزور کیا۔ آج پوری دنیا میں پاکستانیوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، حکمرانوں کی نااہلی اور مفاد پرستی نے عوام کو بہت سی مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ تنگ دستی، بھوک اور افلاس نے اچھے اچھے لوگوں کو برائیوں کی طرف مائل کردیا ہے۔
دوسرے ممالک میں جاکر بھی یہ لوگ اکثر اوقات ایسی حرکتیں کر جاتے ہیں جن کی وجہ سے پاکستانیوں پر اعتماد اٹھ چکا ہے، یہ لوگ چوری چکاری سے لے کر بھیک تک مانگتے ہوئے ہرگز نہیں شرماتے ہیں۔ پاکستان اور خصوصاً سندھ کی بدحالی کا یہ حال ہے کہ سندھ میں 300 دیہات قحط زدہ قرار دیے گئے ہیں، اگر ان دیہاتوں میں پانی کا معقول انتظام کیا جاتا تو فصلیں اور زمین سوکھنے کے بجائے سرسبز و شاداب ہوتیں، خوب اناج اگتا اور تھرپارکر اور سندھ کے دوسرے علاقے بھوکے پیاسے رہ کر زندگی کی بازی ہرگز نہ ہارتے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے پاکستان کی نئی حکومت پاکستانیوں کو کن کن مسائل سے نجات دلا سکے گی۔ 100 دنوں میں بہت سے کام کرنے ہیں۔ یقیناً اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہوتا ہے۔ نیت صاف منزل آسان۔