ڈیڑھ مہینے میں پانچ شہر
یورپ امریکا عزیز دوستوں کی موٹر میں بیٹھے اچانک پاکستان میں سڑکوں پررواں دواں ٹریفک کو تصور میں لائیں تو شرمندگی ہوتی۔
اب تو پاکستان کے امراء کے دوسرے ممالک میں کاروبار ہی نہیں مکان بھی ہیں اور وہ موسم اور مواقع کے مطابق بیرون ملک جاتے رہتے ہیں۔ بہت سے سمجھدار لوگوں کے بچے تعلیم کے حصول یا ملازمت کے لیے ترقی یافتہ ممالک گئے اور پھر وہیں سکونت اختیار کر لی۔
غیر مسلم ممالک کی اس سلسلہ میں پالیسی اور دریا دلی قابل ستائش ہے۔ اگرچہ کسی حد تک اس پالیسی میں ان کا اپنا مفاد بھی شامل ہوتا ہے۔ شہریت نہ دینے پر مسلم ممالک کی پالیسی پر البتہ سوال اٹھتا ہے۔ جن پاکستانیوں کے دوست رشتہ دار اور بچے یورپ برطانیہ امریکا کینیڈا اور دیگر ممالک نقل مکانی کر گئے ہیں ان کا بھی سیر و تفریح اور ملاقات کے لیے باہر جانا رہتا ہے۔ جبکہ ایسے والدین جن کے غیر ملکی بچے انھیں خوش دلی سے برداشت کر لیتے ہیں۔
ہر سال پاکستان کے سخت موسم میں یا اداسی دور کرنے بچوں کے پاس جاتے رہتے ہیں۔ ایسی بھی مثالیں موجود ہیں کہ غیر ممالک کے شہری بچوں نے والدین کو Sponsor کر کے مستقل اپنے پاس بلا لیا۔ ایسی بہت سی اولادیں ہیں جنھوں نے ایسا فرض سمجھ کر کیا۔ بیحد خوشی پائی اور نیکی کمائی لیکن کئی بدقسمتوں کے گھروں میں ایسا عمل میاں بیوی کے درمیان باعث فساد ہوا۔ بہت سوں نے اس کا خمیازہ وقت آنے پر خود بھگتا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔
باہر گئے لوگ جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کم ہے اپنے میزبان کے مرہون منت ہوتے ہیں کہ وہ کب کام سے واپس آئے اور ان کو گھمانے پھرانے لے جائے یا پھر ہفتہ اتوار کی چھٹی کے دن کا انتظار کرتے ہیں۔ یورپ امریکا عزیز دوستوں کی موٹر میں بیٹھے اچانک پاکستان میں سڑکوں پر رواں دواں ٹریفک کو تصور میں لائیں تو شرمندگی ہوتی اور خود پر غصہ آتا ہے۔ میں نے بیٹی کو قذافی سٹیڈیم لاہور کے اردگرد خود ڈرائیونگ سکھائی تھی۔
یہاں مشی گن میں اس کے ساتھ کار میں بیٹھے دیکھا کہ ہر کوئی اپنی لین میں ا جا رہا تھا کوئی دوسروں کو اوورٹیک نہیں کر رہا تھا۔ سرخ اور سبز ٹریفک سگنل کی پاسداری کرتا تھا۔ کسی نے انڈیکیٹر دیے بغیر لین بدلی نہ ٹرن لیا، کسی کے ہارن کی آواز نہ سنی۔ ہر کوئی موڑ اور کراسنگ پر رکتا پھر چلتا تھا۔ کوئی لائٹیں مار کر آگے والے سے رستہ نہیں مانگتا تھا۔ اپنی اور دوسروں کی سیفٹی کی غرض سے لوگوں نے دن کو بھی موٹروں کی بتیاں جلا رکھی تھیں۔
شہر کے اندر فل لائٹیں جلا کر کسی کو کار ڈرائیونگ کرتے نہ پایا۔ نہ اپنے آگے جانیوالی دو کاروں کے درمیان میں سے خطرناک طریقے سے رستہ بنا کر نکلتے دیکھا۔ رائٹ ہینڈ ٹریفک لین سے اچانک کسی کو لیفٹ لین میں گھستے نہ پایا، کسی نے پارکنگ کی مخصوص جگہ کے علاوہ کار پارک نہ کی تھی اور حیرت کا باعث یہ بات تھی کہ میرے تمام ڈرائیونگ میزبان پاکستانی تھی لیکن ٹریفک رولز کی مکمل پابندی کرتے تھے جبکہ پاکستان آتے ہی دوسروں کے رنگ میں رنگے جاتے اور ٹریفک رولز کی دھجیاں بکھیرنے میں صرف دو تین دن لیتے تھے اور پھر واپس جاتے ہی تیر کی طرح سیدھے ہو جاتے۔ شاید اسی کو کہتے ہیں جیسا دیس ویسا بھیس۔
کہیں سے ٹکٹ لینا ہو کسی اسٹور سے خریداری کے بعد رقم کی ادائیگی کرنی ہو بس میں سوار ہونا ہو کہیں سے معلومات کے حصول کے لیے متعلقہ شخص سے بات کرنے کی ضرورت پڑ جائے۔ ایسے میں جہاں زیادہ تعداد میں لوگ موجود ہوں تو فوراً قطار بن جاتی ہے اور کوئی شخص قطار کے اصول کو نہیں توڑتا۔ پیچھے کھڑا شخص آگے والے سے فاصلہ رکھ کر کھڑا ہوتا ہے، کوئی آگے کھڑے سے یا پیچھے والے کو چھوتا تک نہیں۔ ہمارے ہاں قطار بنتی ہی نہیں بن بھی جائے تو آگے پیچھے کی بجائے دائیں بائیں کھڑے ہو کر بنتی ہے تا کہ کسی بھی وقت دائو لگا لینے کا چانس موجود رہے۔
اس بار امریکا میں اب تک پانچ شہروں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ یہاں کے بڑے بڑے Malls کے باہر سینکڑوں گاڑیاں پارکنگ ایریا میں کھڑی ملتی ہیں۔ ہر گاڑی کو دو لائنوں کے درمیان پارک کرنا ہوتا ہے تا کہ کسی دوسرے کو دقت نہ ہو۔ مذکورہ پانچ شہروں میں بیسیوں شاپنگ مال دیکھے، کسی کار کا پہیہ سفید لائن پر نہ دیکھا۔ مال کا دروازہ اگر آپ سے آگے داخل ہونے والے نے کھولا تو وہ آپ کو پیچھے آتا دیکھ کر از خود بند ہو جانے والے دروازے کو پکڑے رکھتا ہے تا کہ آپ بھی اندر داخل ہو جائیں۔ مجھے یاد آیا کہ پاکستان میں میں نے ایک بینک میں داخل ہونے کے لیے دروازہ کھولا تو مجھ سے پہلے میرے بازو کے نیچے سے نکل کر ایک شخص اندر گھس گیا تھا۔
صفائی کو پیش نظر رکھ کر موازنہ کیا جائے تو پاکستان کے سب سے بڑے اور خوشحال شہر کا جو نقشہ ہمارے ہی ٹی وی چینل طویل عرصہ سے کچرے کے ڈھیر دکھا کر ساری دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں ہماری صفائی پسندی کی عادات اور حالت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کراچی کو چھوڑیے کسی بھی شہر کے گلی محلوں میں گھوم دیکھئے کسی بھی مکان میں داخل ہو کر اس کے کچن اور ٹائیلٹ کا معائنہ کر لیں۔ یہاں سڑکیں، گلیاں، بازار، پرائیویٹ اور سرکاری عمارات کے اندر اور باہر مکمل صفائی دیکھنے کو ملے گی۔ پبلک لیٹرین جسے Rest Room کہتے ہیں صاف شفاف ملے گا۔ کموڈ صاف فلش سسٹم بہترین منہ ہاتھ دھونے کے لیے وافر گرم اور ٹھنڈا پانی، ٹشو پیپر اور شکل دیکھنے کے لیے آئینہ موجود جبکہ ہمارے ہاں پبلک لیٹرین مفقود یا غلاظت سے بھرپور، یہاں تک کہ عبادت گاہوں کی ٹائیلٹ تک خدا کی پناہ۔ امریکا کے Rest Rooms یوں تو صفائی اور سہولیات کے لحاظ سے قابل دید و تعریف سہی لیکن جس ٹائیلٹ میں مسلم شاور یا لوٹا نہ ہو وہ ریسٹ کے لیے Room تو ضرور ہو سکتا ہے، ٹائیلٹ یا لیٹرین نہیں کہلا سکتا۔
ہمارے موٹر سواروں کی تیزیوں کا حال منیرؔ نیازی نے اپنے شعر میں بیان کیا ہے کہ
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
ہمارے موٹر سوار پیدل چلنے والوں کے حوالے سے انتہائی بدلحاظ ہیں۔ لیکن امریکا اور یورپی ممالک میں اگر کوئی غلط جگہ سے بھی سڑک کراس کر رہا ہو تو موٹر سوار گاڑی روک کر پیدل سوار کو گزرنے دیتا ہے۔ فٹ پاتھ ہو یا مارکیٹ، کوئی شاپنگ مال ہو یا پُر ہجوم فنکشن، کوئی شخص دوسرے سے نہیں ٹکراتا۔ قطار لگی ہو تو ہر کوئی دوسرے سے فاصلہ رکھ کر کھڑا ہوتا ہے۔ حقوق اللہ تو خدا اور بندے کا معاملہ ہے۔ حقوق العباد کے سلسلے میں ہمارے لوگ جہالت کے بلند مقام پر فائز ہیں۔ اسی طرح اگرچہ ہم صفائی کو نصف ایمان تو مانتے ہیں لیکن عملاً ہمیں صفائی سے چڑ ہے۔ یہاں ایک شعر پھر یاد آ گیا جو حسب حال نہیں لیکن شعر اچھا ہے۔ آپ اس میں سے مرضی کا مطلب خود نکال لیجیے۔
دیکھا ہے بتکدے میں جو اے شیخ کچھ نہ پوچھ
ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا