ہمیں پیار ہے پاکستان سے
میزبان جنرل قمر جاوید باجوہ اور انکے رفقاء کے جھرمٹ میں جونہی وہ پنڈال میں داخل ہوئے تالیاں بجنا شروع ہو گئیں۔
چھ ستمبر کی شام جی ایچ کیو اسلام آباد کے سبزہ زار میں دور دور تک ہزاروں کی تعداد میں کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ شہداء اور غازیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جس شو کا اہتمام کیا گیا تھا اسکے آغاز کا وقت تو آٹھ بجے تھا مگر سات بجے سے پہلے اسّی فیصد نشستیں پر ہو چکی تھیں۔
منتظمین یعنی ISPR کے دوستوں نے کھیل اور فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں سے خصوصی طور پر مدعو کردہ مہمانوں کے لیے جو علاقہ مخصوص کیا تھا اسکے دائیں طرف وزیراعظم، آرمی چیف اور دیگر مہمانان خاص جن میں سینئر جرنیلوں، حکومتی وزراء، سپیکر قومی اسمبلی اور سپیکر سینٹ سمیت حزب مخالف کی دونوں پارٹیوں یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے سربراہان میاں محمد شہباز شریف اور بلاول زرداری بھٹو کا انکلوژر تھا۔ جب کہ بائیں جانب سینٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان کے لیے جگہ مخصوص کی گئی تھی۔
گزشتہ تین برس کی نسبت اس بار کھلاڑیوں اور فنکاروں کی تعداد زیادہ تھی جن میں سے نوجوان نسل کے بیشتر چہروں سے تو کسی نہ کسی حد تک آشنائی تھی مگر ناموں کا معاملہ زیادہ واضح نہیں تھا البتہ پرانے لوگوں سے ملاقات نے بہت مزا دیا کہ سب بوجوہ اپنے اپنے دائروں کے اسیر ہوکر رہ گئے ہیں۔
ایک ساتھ یاد رہ جانیوالے چہرہ و نام میں کرکٹر ظہیر عباس، معین خان، شاہد آفریدی، ہاکی کے کھلاڑی حسن سردار، شہباز سینئر، سکوائش کے چیمپئن جہانگیر خان اور اداکاری کے شعبے سے آصف رضا میر، فریال گوہر، ہمایوں سعید، صباء حمید، عمر شریف، عابد علی، فردوس جمال، عدنان جیلانی، شہریار زیدی، ایوب کھوسہ، رضا میر اور بہروز سبزواری جبکہ موسیقی کے متعلقین میں سے نیرہ نور، ناہید اختر، ٹینا ثانی، فاخر، عاطف اسلم، آئمہ بیگ اور ساحر علی بگا کے علاوہ اہل قلم حسینہ معین کے نام شامل ہیں۔
یہ سب اور شہداء کے ورثاء اور اہل خانہ اس وقت جس رشتے میں بندھے ہوئے تھے اس کے لیے ''ہمیں پیار ہے پاکستان سے'' کا خوبصورت اظہار اور نعرہ تجویز کیا گیا تھا۔ وزیراعظم کی آمد عین مقررہ وقت پر ہوئی۔ میزبان جنرل قمر جاوید باجوہ اور انکے رفقاء کے جھرمٹ میں جونہی وہ پنڈال میں داخل ہوئے تالیاں بجنا شروع ہو گئیں اور جب تک وہ اپنی نشستوں پر بیٹھ نہیں گئے یہ سلسلہ جاری رہا۔
قریب بیٹھے ہوئے ایک دوست نے کہا میں نے گزشتہ تقریباً 30 برس میں پہلی بار آرمی چیف اور سربراہ مملکت کو کسی ایک ہی محفل میں ایک ساتھ خوشدلی سے مسکراتے دیکھا ہے۔ تلاوت کلام پاک اور قومی ترانے کے بعد پاکستان کی تاریخ، 1965ء کی جنگ، دہشتگردی کے خلاف مہم اور شہداء کی قربانیوں کے حوالے سے خصوصی طور پر تیار کردہ کچھ نغمے، ویڈیوز کی شکل میں پیش کیے گئے۔
ISPR نے گزشتہ چند برسوں میں فلم، ڈرامے، ڈاکیومینٹری اور خصوصی نغموں کی پیشکش کے سلسلے میں معیار اور مقدار دونوں حوالوں سے براہ راست اور بالواسطہ بہت کام کیا ہے البتہ موضوع، میوزک اور سکرپٹ کے حوالے سے کبھی کبھی یکسانیت اور تکرار کا احساس غالب آ جاتا ہے جسکی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ بیشتر گانوں کی دھنیں، استعمال شدہ ویڈیو شاٹس اور بول ایک ہی جیسے محسوس ہونے لگ جاتے ہیں۔
یہ تاثر اس حوالے سے مزید گہرا اور واضح ہوا کہ پروگرام کے دوران اور پس منظر میں بجنے والی موسیقی میں 65ء کی جنگ کے حوالے سے جو گیت سنائے اور بجائے گئے ان میں سے ہر ایک اپنی میلوڈی، جذباتی شدت اور اعلیٰ اور برمحل شاعری کے اعتبار سے اپنی مثال آپ تھا۔ عاطف اسلم کا پروگرام کی مرکزی تھیم ''ہمیں پیار ہے پاکستان سے'' پر بنایا گیا گیت سب سے آخر میں پیش کیا گیا جو گائیکی، کمپوزیشن اور سکرپٹ تینوں حوالوں سے سب سے اچھا، پر جوش اور جذبات سے معمور تھا۔
جہاں تک حاضرین کی توجہ، دلچسپی اور جذباتی وابستگی کا تعلق ہے وہ سارے پروگرام میں نہ صرف قائم اور برقرار رہی بلکہ آخری حصے میں عروج پر پہنچ گئی اور آرمی چیف اور وزیراعظم عمران خان کی تقریروں نے جو سماں باندھا اس کو فوجی پریڈ کی پروفیشنل مہارت اور بینڈ کی شاندار پرفارمنس نے اس مقام پر پہنچایا جہاں فضا میں چاروں طرف ''ہمیں پیار ہے پاکستان سے'' کی خوشبو جیسے پھیلتی ہی چلی گئی۔
تقریب کے اختتام پر حسب معمول ایک خصوصی طور پر بنائی گئی لوکیشن پر شو میں شامل فنکاروں اور ہم مہمانوں کی ملاقات جنرل باجوہ صاحب سے کروائی گئی جسکی خصوصیت یہ تھی کہ انھوں نے تقریباً ہر فنکار سے اسکے کام کے کسی ریفرنس سے بات کی جو اس اعتبار سے بہت دلچسپ اور فنکاروں کے لیے حوصلہ افزا تھی کہ انھیں عوامی مقبولیت کے ساتھ ساتھ خواص کی بھی بھرپور توجہ اور پذیرائی حاصل ہے۔
کرکٹ اور کرکٹرز کے بارے میں انکی معلومات میرے لیے ایک خوشگوار انکشاف کا درجہ رکھتی تھیں کہ شعر و ادب کے بعد میری دلچسپی کا دوسرا سب سے بڑا شعبہ بھی یہی ہے لیکن انکی یادداشت کی جس خوبی نے حیران کن حد تک متاثر کیا وہ واقعات اور مواقع کے بارے میں وہ تفصیلات تھیں جن میں سے کئی ایک متعلقہ کرداروں کے لیے بھی ایک گم گشتہ منظر بن چکی تھیں۔ انھوں نے معین خان کو ویسٹ انڈیز کے خلاف کسی میچ میں انکے چھوڑے ہوئے دو کیچ یاد دلائے۔
شاہد آفریدی کو فرنٹ فٹ سے پل کرتے ہوئے بار بار آئوٹ ہونے کی یاد دہانی کرائی اور ظہیر عباس کو انکی پہلی ٹیسٹ ڈبل سنچری کی وہ تفصیلات بتائیں جو ان کے لیے بھی ایک خوشگوار حیرت کا منظر نامہ تھیں۔ گزشتہ ملاقات میں انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ ہمارے مرحوم ٹی وی پروڈیوسر دوست اور ساتھی رفیق وڑائچ کے بھانجے ہیں اور برسوں پہلے میرے کئی ڈراموں کی شوٹنگز بھی دیکھ چکے ہیں لیکن اس بار جو بات انھوں نے بتائی وہ بہت ہی دلچسپ تھی۔
کہنے لگے کوئی تیس برس پہلے آپ ایک ہوٹل میں اپنی فیملی کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے تو ایک شخص نے دخل اندازی کی معذرت کرنے کے بعد آپ سے پوچھا کہ یہ جو آپ کا ڈرامہ سیریل ''فشار'' چل رہا ہے تو اس لفظ ''فشار'' کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ اور آپ نے بتایا تھا کہ اس کا مطلب دبائو یعنی پریشر ہوتا ہے۔ آپ کو یاد ہے یہ سوال کرنیوالا شخص کون تھا؟ پھر مسکرا کر بولے ''وہ میں ہی تھا''۔
اس طرح کی محبت اور دلجوئی کی باتیں انھوں نے ہر مہمان سے کیں۔ سب کے ساتھ خوشدلی سے تصویریں بنوائیں اور کئی ایک سے انکی فیلڈ سے متعلق مسائل اور تاثرات بھی ڈس کس کیے جس سے یہ مختصر سی محفل ایک یادگار کی شکل اختیار کر گئی۔ رات (بلکہ آدھی رات) کا کھانا ISPR کے سربراہ میجر جنرل آصف غور کے گھر پر ہوا جس کی سب سے زیادہ قابل ذکر بات کھانے کے بعد وہ مختصر اور بنا پروگرام اور بغیر آلات موسیقی کے وہ محفل تھی جس میں بہت دنوں کے بعد ناہید اختر اور ٹینا ثانی کو سامنے بیٹھ کر سننے کا موقع ملا اور یوں ان شہدا اور غازیوں کے صدقے فوج اور عوامی قیادت کے نمائندوں کو ایک ساتھ مل بیٹھنے اور اپنے پیارے وطن پاکستان سے مل کر پیار کرنے کے اظہار کا ایک ایسا موقع ملا جس کا تسلسل اپنی جگہ پر ہمارے بہت سے مسائل کا حل بن سکتا ہے۔