پاکستان ہو شیار باش
اب بھی امریکا کو اگر امریکیوں کا ڈر نہ ہو تو وہ پوری دنیا کے ہر کونے میں جنگی محاذ کھول لے۔
امریکا اور مغربی ممالک کے حکمران سیاستدان اور دانشور سبھی بار بار اس راز سے پردہ اٹھا چکے ہیںکہ سوویت یونین کے اختتام کے بعد اب اسلام اور مسلمان ہی اس کے دشمن ہیں۔
مسلمانوں کو ا س پر ہنسی آتی ہے کبھی وہ اپنی کمزورفوجی ذہنی اور اقتصادی حالت کو دیکھتے ہیں اور کبھی عالمی طاقت اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے اپنے بارے میں یہ الزام سنتے ہیں تو انھیں اپنے بدن کوکاٹ کراور چٹکی بھر کر دیکھنا پڑتا ہے کہ وہ خواب میں یہ سب سن رہے ہیں یا ہوش میں ہیں، لیکن امریکی بلاک جس طرح مسلمانوں پر بار بار ٹوٹ رہا ہے اور ان کی زندگی کے ہر شعبے پر حملہ آور ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی اسلام کو واقعی اپنا دشمن سمجھتے ہیں ۔
پاکستانیوں کے سمجھنے کے لیے یہ ایک آسان مثال ہے کہ بھارت ایٹمی میدان میں جتنی بھی ترقی کرتا رہے قابل قبول مگر اس کا پڑوسی پاکستان اس میدان میں کمزور سا قدم بھی رکھے تو امریکا اور مغرب سراپا احتجاج بن جاتے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ امریکا کا کوئی دشمن نہ ہوتا تو اسے اپنا کوئی دشمن وضع کرنا پڑتا مگر اسے آسانی کے ساتھ ایک دشمن مل گیا جو دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلا ہوا ہے اور ایک سپر پاور کو وسیع و عریض میدان ِکارزار فراہم کرتا ہے ۔
صلیبی جنگیں کیوں زندہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ادبار اور زوال کے جہنم میں جھلستے ہوئے مسلمانوں کو کیوں اپنا دشمن قرار دے کر مارا جا رہاہے ۔ یہ ہمارے مسلمان دانشوروں کے سوچنے کی باتیں ہیں اور انھیں تاریخ انسانی کے اس عدیم النظیر موڑ کے بارے میں بہت کچھ سوچنا چاہیے اور اسے ریکارڈ پر لانا چاہئے ورنہ ہم مسلمانوں میںتو شاید ہی کوئی حکومت ایسی ہو جو سرتابی کی مجال رکھتی ہو اور شاید ہی کوئی سیاستدان اور لیڈر ایسا ہو جس نے وائٹ ہائوس کی سمت اپنا قبلہ راست نہ رکھا ہو۔
اسلام اور مسلمان دشمنی کے ان عزائم کے باوجود امریکا کی موجودہ حکمت عملی یہ ہے کہ عالم اسلام کو اس قدر کمزور رکھا جائے کہ وہ اس کے لیے کوئی خطرہ نہ بن سکے۔ اس کے لیے وہ اقتصادی حربے بھی استعمال کرتا ہے اور ہمتوں کو توڑنے کے لیے مسلح کاروائیوں کی دھمکیاں بھی دیتا ہے ۔ اس نے پہلے افغانستان اور بعد میں عرب دنیا پر جو ظلم ڈھائے ہیں یہ پاکستان جیسے اسلامی ملکوں کو تنبیہ ہے کہ پاکستان نے اگر ایٹمی توانائی کے بارے میں امریکی خواہشات پر عمل نہ کیا تو اس کے لیے ایسا کرنا مشکل بنا دیا جائے گا اور اس میں کسی پاکستانی کو شک نہیں ہونا چاہیے ۔
امریکیوں کا منصوبہ یہ ہے کہ وہ ایک فرمانبردار پاکستان کو بھوکا بھی مرنے نہیں دیں گے بلکہ معاشی ترقی میں تعاون کریں گے لیکن امریکا اگر اس کا بس چلتا رہا تو پاکستان کو اپنے لیے خطرہ نہیں بننے دے گا۔ اگر دیکھا جائے تو امریکا کو پاکستان کی کوئی خاص ضرورت نہیں رہی روسیوں کی تباہی میں پاکستان نے اپنا امریکی کردار ادا کر دیا ہے اب چین کے لیے اسے بھارت کی ضرورت ہے امریکی کہتے ہیں کہ اسلام اور مسلمان تو اس کا مسئلہ ہیں لیکن ایک ملک تک محدود ہندو مت اور ہندو قوم اس کے لیے کوئی مسئلہ اور خطرہ نہیں ہے ۔ چین کے لیے بھارت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان ہے جس کو ڈرا دھمکا کر یا سمجھا بجھا کر امریکا چین سے دور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے مگر جتنا امریکا کوشش کرتا ہے پاکستان کا جھکائو اتنا ہی چین کی جانب بڑھ رہا ہے ۔
قدرتی بات ہے کہ ایک تو ہمسایہ ملک اور پھر دونوں ممالک دوستی کا بھرم بھی رکھتے ہیں اور اب تو چین پاکستان کے راستے گرم پانیوں تک بھی پہنچ رہاہے اور پاکستان جس نے امریکا کے ساتھ مل کرسوویت یونین کو گرم پانیوں تک رسائی سے پیچھے دھکیل دیا تھا اب پاکستان اور روس میں قربتیں بڑھ رہی ہیں جس کا علم امریکا کو بھی ہے چین پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے دنیاکے معروضی حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں ۔چین دنیا بھر کی معیشتوں کے خطرے کی علامت بن چکا ہے بلکہ کئی ایک ممالک تو اس کا شکار بھی بن گئے ہیں اس صورتحال میں امریکا کا جنوبی ایشیا میں کنٹرول کمزور پڑرہاہے کیونکہ چین تن کر کھڑا ہو چکا ہے۔
صورت ایسی بن رہی ہے کہ امریکا افغانستان سے اپنی جان چھڑانا چاہتا ہے لیکن افغانستان اس کے لیے کمبل بن چکا ہے جو کہ اس کی جان چھوڑنے کو تیار نہیں ۔ امریکیوں نے افغانیوں کو سمجھنے میں غلطی کی ہے افغانی جب سوویت امریکا جنگ میں امریکا کے ساتھی تھے تو اس وقت صورتحال مختلف تھی اب امریکا ان کا دشمن ہے اور وہ دشمن پر ٹوٹ پڑے ہیں اور دشمن کو دم دبا کر بھاگنے بھی نہیں دے رہے ۔
امریکا اس طویل جنگ سے اکتا چکا ہے لیکن اپنے سپر پاور نشے کو برقرار رکھنے کے لیے ہر سال کروڑوں ڈالر افغان جنگ میں جھونک رہا ہے اور حاصل وصول کچھ نہیں بلکہ کچھ نہ کچھ لاشیں ہی اس کے حصے میں آتی ہیں جس کو وہ امریکیوں کویہ کہہ کر مطمئین کرتا ہے کہ اگر افغان جنگ نہ لڑی جائے تواس کے یہ جنگجو امریکا پر حملہ کر دیں گے اور سادہ لوح امریکی اپنے لیڈروں کی بات پر یقین کر لیتے ہیں ۔ امریکی بے خبر ، لا علم اور بے فکر قوم ہیں ایک زمانہ تھا جب وہ کہتے تھے کہ ہمیں دنیا سے کیا کام ہمارے دونوں طرف سمندر ہے اور ہم دوسری دنیا سے دور ایک خاموش اور خوشحال ملک ہیں ان کی وزرات خارجہ کاکام صرف سرکاری کاغذات، معاہدوں کے مشورے اور اسی طرح کی سرکاری دستاویزیں سنبھال کر رکھنا تھا آج کی طرح دنیا پر حکمرانی کرنا نہیں تھا، اگرچہ عالمی جنگ میں شرکت انھیں دوسری دنیا کے قریب لے آئی اور یہ دوسری دنیا کے ایسے قریب آئے کہ دنیا کے مالک ہی بن بیٹھے ۔
اب بھی امریکا کو اگر امریکیوں کا ڈر نہ ہو تو وہ پوری دنیا کے ہر کونے میں جنگی محاذ کھول لے ۔ بہر حال امریکا دنیا میں جو مرضی کرتا پھرے ہمیں اپنے مستقبل کے لیے نہایت ہوشمندی اور ہوشیاری کے ساتھ امریکا کے ساتھ معاملات طے کرنا ہوں گے۔ سی پیک ابھی نامکمل ہے اور دشمن بھارت کے ساتھ دوسرے ہمسائیہ ممالک کو بھی ہماری یہ صورتحال سخت نا پسند ہے اور خاص طور پربھارت کو امریکا کی آشیر باد ہے۔