یقین نہیں آرہا

انتہائی ادب سے جواب دیا۔ سر،آپ اس ملک کے بالکل صدرہیں۔اگلی بات قدرے مشکل تھی


راؤ منظر حیات September 10, 2018
[email protected]

جنرل ضیاء الحق سخت طیش کی حالت میں تھا۔ بار بار گھنٹی بجاکراردلی کوپانی لانے کاحکم دے رہا تھا۔وہ شخص جو عام حالات میںغیرمعمولی ٹھنڈے اعصاب کامالک تھا، جذبات قابو میں رکھنے کاگُرجانتاتھا۔اسٹاف کے لیے صدرِ پاکستان کواتنے اضطراب میں دیکھنابے حدعجیب تھا۔ خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ اسٹاف کوایک اورخطرہ بھی لاحق تھاکہ کہیں اس غصے کانشانہ ان میں سے کوئی نہ بن جائے۔صدرکے کمرے کے باہر مکمل سکوت تھا۔تمام لوگ دبکے بیٹھے تھے۔صدرنے اردلی کوطلب کیااورحکم دیاکہ ملٹری سیکریٹری کوبلاؤ۔ چند منٹ بعد، ایم ایس صدرکے کمرے میں پہنچ گیا اور ساکت کھڑاہوگیا۔ ضیاء الحق کاپارہ انتہائی بلندی پرتھا۔ملٹری سیکریٹری سے پوچھاکہ کیامیں اس ملک کاصدرنہیں ہوں؟اتنے عجیب وغریب سوال پرایم ایس پریشان ہوگیا۔

انتہائی ادب سے جواب دیا۔ سر،آپ اس ملک کے بالکل صدرہیں۔اگلی بات قدرے مشکل تھی۔میں کیساصدرہوںکہ اپنے مالی کی سرکاری نوکری میں توسیع نہیں کرسکتا۔ایک نائب قاصدتک نہیں رکھوا سکتا۔ ایم ایس ذہین آدمی تھا۔فوراًمعاملے کی گہرائی تک پہنچ گیا مگر خوف اورادب کی ملی جلی کیفیت میں وہیں کھڑارہا۔جنرل ضیاء الحق نے اس سے بات کرنی شروع کردی۔جونیجوکومیں نے وزیراعظم بنایا۔اسے گمنامی سے نکال کرملک کی سب سے بڑی کرسی پربٹھادیااورآج وہ مجھے ہی آنکھیں دکھاتا ہے۔

نائب قاصداورمالی کی نوکری کی چھوٹی سطح کے کام اسے کہے،مگروہ کہتاہے کہ یہ میرا اختیار نہیں ہے کہ میں اس طرح کی سفارشیں کروں۔جونیجومیرے سامنے کیسے دم ماررہا ہے۔ اسے واپس سندھڑی بھجوا سکتا ہوں۔ملٹری سیکریٹری ہربات جان چکاتھا۔جواب دینے کی ہمت نہیں تھی۔کیونکہ تلخ حقیقت یہی تھی کہ انتظامی طاقت اوراختیاروزیراعظم کے پاس تھا۔ طویل ترین صدررہنے کے باوجود،ضیاء الحق،قانونی طورپر کافی حدتک کمزورہوچکے تھے۔صدرنے اپنی بھڑاس نکالنے کے بعدحکم دیاکہ آپ جاسکتے ہیں۔ملٹری سیکریٹری نے سیلوٹ مارااوراپنے کمرے میں چلا گیا۔ یہ1988ء کے شروع کا واقعہ ہے۔صدرضیاء الحق ،آرمی کے سربراہ بھی تھے۔انکے پاس حکومت ختم کرنے کااختیاربھی تھا۔وہ قطعاً کمزور صدر نہیں تھا۔سول ملٹری تعلقات اس حدتک بگڑگئے کہ جنرل ضیاء نے جونیجوکی حکومت ختم کردی۔جونیجو صاحب،بہترین وزیراعظم ہونے کے باوجود،تاریخ کاحصہ بن گئے۔

1988ء ہی کیا،جب سے ملک وجودمیں آیا ہے۔ عسکری اداروں اورمنتخب وزراء اعظم اورصدورکے درمیان اچھے تعلقات نہیں رہے۔کشیدہ کالفظ استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ مگرسچ یہی ہے کہ قیامِ پاکستان سے لیکر2018ء تک ان تعلقات پرسوالیہ نشان ہی رہاہے۔مگراب پہلی بارصورتحال انتہائی مختلف نظرآرہی ہے۔سول ملٹری تعلقات ناقابل یقین حدتک بہترین ہیں۔یہ سب کچھ جمہوریت کے لیے،بلکہ پورے ملک کے لیے خوش آئند ہے۔عمران خان کووزیراعظم منتخب ہونے کے بعد جی ایچ کیومیں طویل بریفنگ دی گئی۔ بریفنگ اپنی حیثیت میں حددرجہ اہم توہے ہی۔ مگر اس کا ظاہری پہلوبھی بے حداہم ہے۔آرمی چیف نے وزیراعظم کوسیلوٹ مارا۔ بلکہ انکے تمام اسٹاف افسروں نے وزیراعظم کوسیلوٹ مارکر خوش آمدیدکہا۔پھرباقاعدہ اس لمحہ کوتصویرکی شکل میں نمایاں طریقے سے میڈیا پر ریلیزکیاگیا۔

آپ پوچھ سکتے ہیں کہ کیاسیلوٹ مارنااوراسے عوام تک دکھانااہم ہے۔آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگرسیلوٹ نہ ماراجائے توکیافرق پڑتاہے۔صرف یاداشت کے لیے عرض کرتاہوں کہ متعددبارایسے ہواہے کہ آرمی چیف نے منتخب وزیراعظم کوسیلوٹ نہیں مارا۔استدعاہے کہ آپ اس نازک معاملے کی تحقیق خودہی کرلیجئے۔دوسری بات بھی اہم ہے۔عمران خان اورانکی ٹیم کواس کمیٹی روم میں بریفننگ دی گئی،جہاں آرمی چیف بذات خود،کورکمانڈرز کی نشست کی سربراہی کرتے ہیں۔یہ محفوظ ترین کمرہ ہے اوراس میں جوبھی گفتگوہوتی ہے،وہ امانت کی حیثیت رکھتی ہے۔ فوجی سربراہ نے پہلی بار،اپنی کرسی کووزیراعظم کے لیے استعمال ہونے کی اجازت دی۔کم ازکم تیس برس میں یہ واقعہ پہلی بار دیکھاہے۔

آرمی چیف نے عمران خان کی سربراہی میں چھ سات گھنٹے کی طویل میٹنگ کی۔اس میں عسکری اورسویلین قیادت پیہم موجودرہی۔یہی ناقابل یقین حقیقت، 6ستمبر کو بھی دیکھنے میں آئی۔جب فوج نے "یومِ شہداء"پرعمران خان کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے اس تقریب میں مدعوکیا اور پھر آرمی چیف کی تقریرکے بعد،منتخب وزیراعظم کوتقریرکرنے کی دعوت دی۔آج تک کی تاریخ میں انتہائی یقینی طریقے کہا جاسکتاہے کہ منتخب وزیراعظم اورعسکری اداروں کے باہمی تعلقات حددرجہ اعتماداوریقین پرہیں۔اس طرح کے خوشگوارتعلقات پہلے کبھی بھی دیکھنے کونہیں ملے۔

اس سے پہلے کہ بات کوآگے بڑھاؤں۔ان دانشوروںاورلکھاریوں کی داخلی صورتحال پربات کرنا چاہتا ہوں۔جنکامفادہی تلخ اوربگڑے ہوئے سول ملٹری ریلیشن شپ پرہے۔ان میں سے اکثریت،اداروں کے درمیان جھگڑے کوہوادیتے ہیں اوراس کے بعدایک فریق کے ہمدردبن کر مراعات لیتے ہیں۔کبھی یہ''سویلین بالادستی'' کو مرکزی نکتہ بناکر پارلیمنٹ کوطاقت کا مرکز قراردینے کی بحث میں پورے نظام کوخطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ان کامقصد کسی منتخب وزیراعظم کی طاقت کوبڑھاناہوتاہے نہ ہی یہ جمہوریت کے خیرخواہ ہوتے ہیں۔ان میں سے اکثریت، اپنے مفادات کے تابع ہوتے ہیں ۔نتیجہ اکثریہی ہوتاہے کہ ایک فریق مشکل میں پھنس جاتاہے۔حکومت ختم ہوجاتی ہے یا کردی جاتی ہے۔اس کے بعد،یہی دانشور اپناپراناچورن نئے خریداروں کوبیچنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ مگریہ پہلی بار ہورہاہے کہ سویلین اورفوجی قیادت باہمی اعتمادکے رشتے میں پیوست نظرآرہے ہیں۔یہ طبلچی حضرات،اس مثبت صورتحال پرحددرجہ بے قرارنظرآرہے ہیں۔

ان کی بے صبری اس وقت قیامت بن کرانہی کوذہنی مشکل میں ڈال رہی ہے۔ انھیں سمجھ نہیں آرہاکہ کیاکریں۔لہٰذا، ان قصے کہانیوں کو پھیلارہے ہیں جن کاکوئی وجودہی نہیں ہے۔یہی فقیدالمثال یگانگت، امریکی وزیرخارجہ کے دورہ میں بھی دیکھنے میں آئی۔پہلی بار پاکستانی قیادت نے کسی قسم کی مالی امدادکی بات نہیں کی۔یہ بھی امریکی توقعات کے بے حدبرعکس تھا۔ خیر، معاملات بہترطریقے سے حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔توقع ہے کہ متعدد سنجیدہ معاملات حل ہوجائیںگے۔

جس طرح بہترین سول ملٹری تعلقات ناقابل یقین ہیں۔بالکل اسی طرح بطور،وزیراعظم عمران خان کاذاتی طرزِعمل،ہماری پرانی منفی روایات کے بالکل برعکس ہے۔ پہلی بارکسی وزیراعظم نے یہ بتانے کی جرات کی ہے کہ اس کی سرکاری رہائش گاہ میں کتنے ملازم ہیں۔کتنی بیش قیمت گاڑیاں ہیںاورغریب ملک کاوزیراعظم،کس شاہانہ اندازمیں رہتا ہے۔ عمران خان نے نہ صرف عیش وعشرت کے اس پوشیدہ پہلو کو عیاں کیابلکہ اس کے ساتھ ساتھ،اس پرتعیش ماحول سے کنارہ کشی بھی اختیارکرلی۔جوحضرات فرمارہے ہیں کہ ایم ایس کا چارکنال کاگھر،وزیراعظم ہاؤس جتناآراستہ اوربہترین ہے۔معذرت کے ساتھ وہ مبالغہ آرائی فرمارہے ہیں۔

وزیراعظم ہاؤس کی شان وشوکت کے سامنے،ایم ایس کی رہائش گاہ حددرجہ سادہ ہے۔مگریہاں یہ بھی عرض کرناچاہتا ہوں کہ مغربی ممالک میں صدوراوروزراء اعظم بہت زیادہ سادہ سی سرکاری زندگی گزارتے ہیں۔ آسٹریلیاسے لیکر یوکے اور سویڈن سے لیکرجرمنی تک تمام مقتدرلوگ عام آدمی کی طرح زندگی میں رواں دواں نظرآتے ہیں۔

جرمنی کی خاتون چانسلر، آج بھی گھرکاذاتی سود اسلف،اپنے شوہرکے ساتھ جاکر خود خریدتی ہے۔ اپناسامان خوداُٹھاتی ہے۔ذاتی گاڑی خود چلاتی ہے۔کسی پروٹوکول کے بغیرساراذاتی کام کرتی ہے۔ مگرایک بات کاوہاں بھی اَزحدخیال رکھاجاتاہے۔سادگی اپنی جگہ، مگر صدر اور وزیراعظم کی سیکیورٹی انتہائی حددرجہ سخت ہوتی ہے۔سادگی کی طرف جوقدم عمران خان نے اُٹھایا ہے، وہ ہمارے جیسے ملک کے لیے اجنبی ہے۔مگرمغرب توبہت عرصے سے اپنے حکمرانوں کوسادگی کی طرف مائل کرچکا ہے۔ ہمارے اندرونی حالات میں یہ سادگی، بہرحال قابل تعریف ہے اورقابل تقلید بھی۔یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کیایہی جذبہ صوبائی حکومتوں کی سطح پربھی موجزن ہوتاہے یا نہیں۔ سندھ اوربلوچستان کی حدتک توکہا جا سکتا ہے کہ وہاں سرکاری سطح پرسادگی کوترویح دیناناممکن ہے۔ بہرحال کبھی کبھی ناممکن کام بھی وقوع پذیرہوجاتے ہیں۔

بالکل اسی طرح پانی اورسستی بجلی مہیاکرنے کی مہم بھی حددرجہ اہم ہے۔ڈیم کی ضرورت سے کون انکارکر سکتا ہے۔مگرسوال اُٹھتاہے کہ گزشتہ حکومتوں نے اس کواہمیت کیوں نہیں دی۔عرض کرتاچلوںکہ آبی ذخائر کو ''سی پیک کا حصہ''کیوں نہیں بنایاگیا۔کیا''اورنج ٹرین'' ایک ڈیم سے زیادہ ضروری تھی۔مگراب گلہ کرنا فضول ہے۔ڈیم کے لیے چندہ کی مہم چلاناانتہائی ضروری ہے۔تارکین وطن کواس میں شامل کرنا بے حداہم ہے۔تمام کام اس خلوص نیت سے پہلی بارہورہے ہیں کہ لگتاہے کوئی خواب دیکھاجارہاہے۔یقین فرمائیے! اچھائی کے ان بنیادی کاموں پریقین نہیں آرہا!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں