گزارا کیوں نہیں ہوتا
معیار زندگی بلند دکھانے کے لیے ہم میں سے اکثر لوگ ظاہری نمود و نمائش پر اتر آتے ہیں
آج آپ جس سے بھی ملیں وہ اپنے گھریلو اخراجات کے حوالے سے مطمئن نظر نہیں آتا، کوئی کہتا ہے کہ گزارا نہیں ہوتا، کوئی کہتا ہے کہ بس دال دلیا چل رہا ہے۔ کسی ملازمت پیشہ فرد سے مہینے کی آخری تاریخوں میں کچھ پیسے ادھار قرض کے طور پر مانگیں تو اس کا جواب ہوتا ہے کہ 'ارے بھئی میرے پاس تو پٹرول کے پیسے بھی نہیں، تمھیں مہینے کے آخر میں کہاں سے دے دوں؟' اس قسم کے جوابات ان تمام افراد کی طرف سے سننے میں آتے ہیں جن کی تنخواہ یا ماہانہ کمائی پندرہ ہزار بھی ہے، پچاس ہزار بھی ہے اور لاکھ سے اوپر بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ بات یہ ہے کہ جوں ہی کسی کی تنخواہ میں اضافہ ہوتا ہے وہ اپنے گھر کے اخراجات میں فوراً اضافہ کرلیتا ہے۔
اپنا 'لیونگ اسٹینڈرڈ' یعنی معیار زندگی بلند دکھانے کے لیے ہم میں سے اکثر لوگ ظاہری نمود و نمائش پر اتر آتے ہیں اور خوب سے خوب تر زندگی گزارنے کے لیے وہ اشیاء خریدتے اور استعمال کرتے ہیں جو ان کی بنیادی ضرورت نہیں، یعنی وہ اپنی خواہشات کو ہی بنیادی ضرورت سمجھنے لگتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے بغیر ان کی زندگی ادھوری ہے۔ ہمارے ایک جاننے والے جو پہلے اتوار بازار سے کپڑے خرید کر استعمال کرتے تھے، تنخواہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ مہنگے کپڑے خریدنے لگے، اب وہ برانڈڈ کپڑے خریدتے ہیں اور اب وہ جتنی رقم میں ایک پینٹ شرٹ لیتے ہیں پہلے ان ہی پیسوں میں ان کی اور گھر والوں کی عید کے کپڑوں کی خریداری ہوجاتی تھی۔ یہ سب اس سوچ کا نتیجہ ہے جو میڈیا اور اس پر صبح و شام آنے والے پروگرام اور اشتہارات دیکھنے پر پیدا ہوتی ہے۔ ایسا کیوں ہورہا ہے، آیئے مختصر جائزہ لیں۔
صنعتی انقلاب کے بعد جب اشیا بڑے پیمانے پر تیار ہونے لگیں تو انھیں متعارف کرانے کے لیے بھی کئی افراد یا ایسے ذرائع کی ضرورت محسوس ہوئی جن کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک رابطے کرکے انھیں اپنی اشیا متعارف کرائی جاسکے تاکہ لوگ ان اشیا کو خرید سکیں۔
اس اہم دوراہے پر مارکیٹ اور اشتہاری کمپنیوں نے ان اشیا تیار کرنے والے اداروں کو اپنی خدمات کی پیشکش کی اور انھیں یقین دلایا کہ وہ ان کے کاروبار کو ترقی دینے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، جس سے نہ صرف خریدار اشتہارات سے متاثر ہو کر ان کی اشیا خریدیں گے بلکہ وہ سرپلس (اضافی) اشیا بھی خریدیں گے، جو خریدار کی بنیادی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن بات یہیں ختم نہ ہوئی اور مزید تعداد میں اشیا فروخت کرکے زیادہ منافع کے حصول کے لیے اشتہارات میں ایک نئی اصطلاح Stealth Advertising وجود میں لائی گئی، جس میں درپردہ خفیہ طور پر صارف کو اشیا کی ضرورت محسوس کراتے ہوئے انھیں اشیا کی خرید پر مجبور کیا جانے لگا۔
اشتہارات کے نقصانات کے سامنے آنے کے بعد امریکا میں فیڈرل کمیونیکیشن کمیشن اور فیڈرل ٹریڈ کمیشن نے مارکیٹنگ اور اشتہارات کے مشترکہ کردار سے پہنچنے والے ممکنہ تقصانات سے تحفظ دینے کے لیے قوانین نافذ کیے۔ اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مارکیٹنگ اور اشتہارات کے ادارے سرمایہ داروں کے لیے منافع اور کاروبار کے فروغ کے لیے وہ خدمات پیش کررہے ہیں جو ان کے تصور میں بھی نہیں آسکتی۔ ایک امریکن کمپنی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ہم اسٹور میں امید اور خواب فروخت کرتے ہیں، گویا خواب بھی اپنے مفاداتی نقطہ نظر سے تخلیق کرتے ہیں، مگر یہ خواب صارفین اپنا لیتے ہیں، باالفاظ دیگر صارفین کے خواب تخلیق کرنے میں اشیا فروخت کنندہ، مارکیٹنگ اور اشتہاری ادارے شامل ہوتے ہیں، یہ خواب صارفین کو دکھا کر ہی اشیا کی فروخت بڑھائی جاتی ہے، یعنی کاروبار میں فروخت کو بڑھا کر سرمایہ لگانے والے کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے، خواہ اس میں صارف کا کسی قدر بھی نقصان ہو۔
ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایک اشتہار دیکھنے سے صارف اپنا فیصلہ کسی اشیا کے حق میں دے دیتا ہے؟ ایسا نہیں ہے، لیکن انسان کی یادداشت میں وہ چیزیں آجاتی ہیں جو بار بار اس کے سامنے آئیں، چنانچہ اس حکمت عملی اور نفسیاتی حربے کو بھی استعمال میں لایا جاتا ہے اور صارفین کے سامنے بار بار اشیا پیش کرکے اس کے فیصلے کو اشتہار کے حق میں لایا جاتا ہے۔
اشتہارات میں جو کچھ ثقافت و ماحول دکھایا جاتا ہے اس کا اثر لامحالہ معاشرے پر بھی پڑتا ہے۔ ایک امریکی ماہر کے مطابق امریکی معاشرے کی اقدار کو اشتہارات خراب کر رہے ہیں۔ امریکا میں بھی زیادہ تر ماڈرن اشتہارات میں طرز زندگی کے رویے کو نمایاں کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ غور کیا جائے تو اب صرف امریکا نہیں بلکہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اشتہارات ماڈرن طرز زندگی کے رویے کو نمایاں کرکے پیش کر رہے ہیں اور دنیا بھر میں لوگوں کو وہ خواب دکھا رہے ہیں کہ جن کو دیکھ کر ہر فرد خوب سے خوب تر پرآسائش زندگی گزارنے کا نہ صرف خواہش مند ہے بلکہ اس کے لیے اپنی زندگی کو ہی اجیرن کیے ہوئے ہے۔ یہ بات حقیقت ہے اور اس کو آپ اور میں باآسانی جان سکتے ہیں۔
اگر ہم آج کی زندگی کا گزشتہ تیس برس سے پہلی زندگی سے موازنہ کریں، مثلاً آج سے کوئی تیس برس پہلے گھروں میں پینے کے پانی کے لیے مٹی کے مٹکے ہوا کرتے تھے، پورے محلے میں کسی ایک گھر میں لینڈ لائن کا ایک فون ہوا کرتا تھا اور دو تین ہی گھروں میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی ہوا کرتا تھا۔ کسی گھر میں ائیرکنڈیشنڈ نہیںہوتا تھا۔ صرف ان چند اشیائے ضرورت کا موازنہ آج کے دور سے کریں تو معلوم ہوگا کہ آج ہر گھر میں ایک نہیں کئی کئی فون ہر فرد کے پاس ہیں اور پھر بھی ہر تھوڑے عرصہ بعد کسی نئے موبائل فون کو حاصل کرنے کی تڑپ ہمارے اندر گردش کرتی ہے، حالانکہ ہم میں سے اکثریت کی ضرورت کیا ہے؟ یہی کہ بات چیت ہوجائے، اطلاع فراہم کردی جائے۔ یہ ضرورت تو ایک سستے (کی پیڈ والے) موبائل سے بھی ہوجاتی ہے۔
اسی طرح جس کے گھر میں آج رنگین ٹی وی ہے وہ بھی خواہش رکھتا ہے کہ ٹی وی اٹھا کر پھینک دے اور بڑا سا ایل ای ڈی لاکر دیوار میں لگا دے، حالانکہ ایک رنگین ٹی وی بھی وہی کچھ دکھائے اور سنائے گا جو کہ پرانے ماڈل کا ٹی وی دکھاتا اور سناتا ہے۔
مٹکا آج شہر کے کسی گھر میں شاید ہی استعمال ہوتا ہو، واٹر کولر کی سہولت کے بعد فریج بھی گھر میں آجائے تو آج یہی خواہش ہوتی ہے کہ فریج کے ساتھ ڈیپ فریزر بھی ہو، فریج بھی کسی نئے ماڈل کا ہو، گھر میں صرف ڈرائنگ روم ہی نہیں ہر بیڈ روم میں بھی ایک عدد اسپلٹ بھی ہو۔ غرض جتنی خواہشیں اتنے ہی 'ٹارگٹ' اور اس کو حاصل کرنے میں زندگی کا سکون برباد۔ اور برباد کیوں نہ ہو کہ ہر گھر میں میڈیا موجود ہے، جو ان سب پر اکسا تا ہے کہ یہ بھی خریدو، وہ بھی خریدو، ہر چیز تمھاری زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ کون جانے کہ یہ عمل خواہشات کو بنیادی ضرورت دکھانے کا عمل ہے کہ جس سے میڈیا اور سرمایہ دار کا جس جس قدر سرمایہ بڑھتا ہے، انسان کا سکوں اسی قدر برباد ہوتا چلا جاتا ہے، گویا ''ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے''۔ اور ہم دن رات روتے ہیں کہ گزارا نہیں ہوتا۔ آیئے غور کریں۔