اخراجات ٹیکسوں کی شرح میں کمی اور روزگار کے نئے مواقع فراہم کرنا ہوں گے

ماہرین معاشیات و ٹیکسیشن اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کی پری بجٹ فورم میں گفتگو


بجٹ سازی میں بزنس کمیونٹی اپنی تجاویز پر عمل درآمد چاہتی ہے۔ فوٹو : فائل

پاکستان کے معاشی مسائل روز بروز شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔

ماہرین معاشیات بد انتظامی کو اس کی بڑی وجہ قراردیتے ہیں۔ سرکاری مشینر ی بجٹ سازی کے عمل میں مصروف ہے۔ بجٹ سازی میں بزنس کمیونٹی اپنی تجاویز پر عمل درآمد چاہتی ہے۔ ریونیومیں اضافہ، اخراجات، ٹیکسوں کی شرح میں کمی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کو بجٹ سازی میں اولین ترجیح دی جائے۔

معاشی منصوبہ بندی تما م سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے بنائی جائے جس میں بزنس کمیونٹی کی تجاویزکو اہمیت دی جائے۔ سرکلر ڈیٹ،تجارتی خسارہ،کرپشن ختم کرنے کیلئے اہم عہدوں پراہل لوگوں کو تعینات کیا جائے۔ پلی بارگین،ایمنسٹی سکیموں کا خاتمہ کیا جائے۔ اس حوالے سے ''ایکسپریس''نے پری بجٹ فورم کا انعقاد کیاجس میں ماہر معاشیات، ٹیکس امور کے ماہر اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں نے شرکت کی جس کی تفصیلات نذر قارئین ہیں۔



ڈاکٹر قیس اسلم
(ماہر معاشیات)
حکومت بجٹ میں ریونیوبڑھانے اور اخراجات کم کرنے پر توجہ دے لیکن کوئی بھی نیا ٹیکس لگانے سے گریز کرے۔ معاشی پالیسی سازی کا کا م سیاستدانوں اوربیوروکریٹس کی بجائے معاشی ماہرین کے سپردکیا جائے۔ خسارے میں چلنے والی کارپوریشنز کو بیل آوٹ پیکج دینے کی بجائے انہیں منجمد کردیا جائے۔

ان ڈائریکٹ ٹیکس ختم کر دیئے جائیں۔نفع کی بجائے آمدن پر ٹیکس لگایا جائے۔ روزگار کے نئے مواقع پیدا،شرح سود سنگل ڈیجٹ پر لائی جائے۔ نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ہیلتھ انشورنس سکیم متعارف کرائی جائے۔ سرکلر ڈیٹ ،کرپشن کا خاتمہ کیا جائے۔ انٹرا انڈسٹریل بجلی کی فروخت کی اجازت دی جائے۔ جب کسی چیز کی طلب بڑھتی ہے تو اس کو پورا کرنے کے لئے سپلائی بڑھتی ہے جس سے منافع بھی بڑھتا ہے اور روزگار کے مواقع میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

منافع مصنوعی نہیں ہونا چاہیے بلکہ سپلائی اور ڈیمانڈ کے مطابق ہونا چاہیے اس کے لئے ضروری ہے کہ انٹرسٹ ریٹ کو سنگل ڈیجٹ تک لایا جائے جب تک انٹرسٹ ریٹ سنگل ڈیجٹ تک نہیں آئے گا بہتری نہیں آئے گی۔ ٹیکس منافع پر نہیں آمدن پر لگنا چاہیے۔ ہم نے ہر چیز پر سیلز ٹیکس لگائے ہوئے ہیںدنیا بھر میں خام مال پر سیلز ٹیکس نہیں لگتا تیار مال پر لگتا ہے جب تیار چیز پر سیلز ٹیکس لگائیں گے تو وہ خود بخود خام مال پر بھی لگ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں معاملہ دنیا بھر سے الٹ ہے یہاں غریب ٹیکس دے کر امیروں کو کھلارہے ہیں اور امیر ٹیکس نہیں دے رہے۔ دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں انکم ٹیکس 50سے 52فیصد ہے۔ پاکستان میں اس وقت 5لاکھ روپے سالانہ آمدن والے پر افراد پر ٹیکس ہے اسے اوپر لے جائیں۔

اگر کوئی بندہ 30کروڑ روپے سالانہ کماتا ہے تو اس کا انکم ٹیکس 50فیصد تک بھی لے جائیں۔ سیلز ٹیکس کے علاوہ تمام ان ڈائریکٹ ٹیکسز ختم کردیئے جائیں۔ ہم نے ٹیکس کے علاوہ بہت سی چیزیں کی ہوئی ہیں جن میں غریبوں کے نام پر امیروں کو سہولت دے رہے ہیں۔ سی این جی صرف چھوٹی گاڑیوں کیلئے ہونی چاہیے ہمیں لگژری گاڑیوں کو سی این جی نہیں دینی چاہیے، ہاں بسوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو دیں جس میں عام آدمی نے سفر کرنا ہوتا ہے۔

اگر ہم مقامی قدرتی وسائل پر انرجی سیکٹر کو لے جائیں بجلی بنانے کیلئے فرنس آئل استعمال نہ کریں تو بجلی سستی بن سکتی ہے۔ پانچ بڑی قومی کارپوریشنز کو فریز کریں ان کو بیل آؤٹ دینا بند کریں، ان کے ڈائریکٹرز ان کارپوریشنوں کو چلانے کیلئے لگائے جاتے ہیں اگر وہ کام نہیں کرتے اور نقصان کرتے ہیں تو ان کی تنخواہوں سے نقصان پورا کیا جائے۔

ڈیفنس بجٹ کو فریز کرکے کم کردیں اور جو قرضہ دیتے ہیں وہ بھی فریز کردیا جائے اور یہ پیسہ غربت کے خاتمے، تعلیم اور صحت پر لگایا جائے۔ اس وقت صحت کی سہولیات اتنی مہنگی ہوگئی ہیں کہ عام آدمی افورڈ ہی نہیں کرسکتا، عام آدمی کے لئے صاف پانی بھی نہیں ملتا، صنعتی فضلے کو دریاؤں میں پھینکتے ہیں جس سے بیماریاں بڑھتی اور ادویات کے اخراجات بھی بڑھتے ہیں جس سے معیشت پر بھی اثرات پڑتے ہیں اس کیلئے پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ کرپشن اور گورننس پر بھی آئین سازی کرنا پڑے گی۔

کرپشن کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ اگر کوئی کرپشن میں ملوث ہو تو بجائے اس کے کہ اسے پلی بارگین کرکے چھوڑ دیا جائے اس کی جائیداد بھی ضبط کرلی جائے، یہاں پلی بارگین ہوتی ہے جو کرپشن کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، کرپٹ بندے کو حوصلہ ملتا ہے کہ اگر پکڑا گیا تو پلی بارگین کے ذریعے کرپشن کا کچھ حصہ دے کر چھوٹ جائے گا۔ اس کے علاوہ جو سزائیں بھی دی جاتی ہیں وہ بھی مناسب نہیں ۔ معاشی پالیسی میں اہم مسئلہ انرجی کرائسس ہے اس کے لئے سرکلرڈیبٹ کم کریں فوری طور پر امن و امان کی صورتحال بہتر کریں۔

انڈسٹری کو اگر خود بجلی بنانے کی اجازت دے دیں اور اسے اجازت ہو کہ اپنے ارد گرد کی انڈسٹری اور شہریوں کو بجلی فراہم کریں تو ایسے لائن لاسز بہت حد تک کم ہوجائیں گے۔ اس وقت ملک کو بجلی کی شدید کمی کا سامنا ہے اورآئندہ چندسالوں میں پانی کی شدید کمی ہونے کا خدشہ ہے آج اگر ہم نے پانی کو محفوظ نہیں کیا توہمیں شدید خشک سالی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب موقع ہے کہ اتفاق رائے سے کالا باغ ڈیم بنالیں تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

اس سے بجلی بھی ملے گی اور پانی بھی محفوظ ہوگا۔ دوسرا اہم مسئلہ نوجوان نسل کا ہے 2015تک کئی ملین پڑھے لکھے نوجوان ہوں گے جن کو ٹریننگ دینے کی ضرورت ہوگی جس کے لئے ابھی سے پلاننگ کی ضرورت ہے۔

خواجہ شاہ زیب اکرم
(سابق چیئرمین پاکستاں فارما سیوٹیکل مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرزایسوسی ایشن)
نئے بجٹ سے ہمیں بہت سی توقعات ہیں ۔ فارما سیوٹیکل سیکٹر کے لئے ملک بھر میں یکساں پرائس پالیسی نافذ کی جائے۔ اسے سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے کیونکہ یہ واحد سیکٹر ہے جو سیلز ٹیکس ادا کرتا ہے لیکن واپس نہیں لے سکتا۔ سروسزسیکٹر کو بھرپور طریقے سے ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔

جب لوگ کسی کو منتخب کرتے ہیں تو اس سے ان کی توقعات بھی ہوتی ہیں کہ کوئی ان کی بات سننے والا ہو اور کسی کو اعلیٰ عہدے پر پہنچا کر عوام چاہتے ہیں کہ وہ ان کی آواز سنے۔ فارما سیوٹیکل سیکٹر میں پچھلے گزشتہ دس بارہ سالوں سے یکساں پرائس پالیسی نہیں آئی جس کمپنی نے جس طرح چاہا پالیسی بنالی۔

پچھلے کچھ عرصے سے فارما سیوٹیکل سیکٹر نے پاکستان میں ٹیکسٹائل سیکٹر سے بھی زیادہ ترقی کی ہے اور اس کی برآمدات بھی بڑھی ہیں مگر کمپنیوں کو مقامی طور پر اپنی پراڈکٹ کی مناسب قیمت نہی ملتی اس وجہ سے انہیں بیرون ملک بھی اپنی پراڈکٹ کی اچھی قیمت نہیں مل پاتی، اگر مقامی سطح پر ادویات کی مناسب قیمتیں طے کردی جائیں تو بین الاقوامی منڈیوں میں بھی اچھی قمیتیں ملیں جس سے نہ صرف ملک کو زیادہ زرمبادلہ ملے گا بلکہ روزگار میں بھی اضافہ ہوگا۔

اس وقت تمام لوگوں کی نظریں نومنتخب حکومت پر لگی ہوئی ہیں اور عوام ریلیف چاہتے ہیں۔ عالمی مسائل سے معاشی حالات، ڈالر ایکسچینج ریٹ سے عوام کا کوئی تعلق نہیں انہیں بجلی، گیس چاہیے مگر یہاں بجلی اور گیس کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ تباہ کن ہے۔

نئی حکومت سے بجٹ میں عوام اور کاروباری حضرات کو بہت سی توقعات ہیں۔ فارما سیکٹر کو ہمارے ہاں نظر انداز کیا جاتا ہے اور یہ واحد سیکٹر ہے جو سیلز ٹیکس دیتا ہے مگر اسے واپس نہیں لے سکتا۔ ہم ڈبل ٹیکسز دیتے ہیں پہلے خام مال پر اور اس کے بعد تیارمال پر دینا پڑتا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کاروبارتباہ ہوگئے ہیں۔

ہمارے پاس ڈیمانڈ ہوتی ہے مگر ادویات کی تیاری کے لئے بجلی نہیں ہوتی جس کے باعث سپلائی میں اکثر تاخیر ہوجاتی ہے۔ سرکاری سطح پر دی گئی ڈیمانڈ کی سپلائی میں دیر پر تو جرمانہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس دفعہ میاں صاحبان کو مرکز اور پنجاب میں جو واضح اکثریت ملی ہے اس سے انہیں فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ بزنس کمیونٹی کو اپنے ساتھ ملائیں اور پالیسیاں بناتے وقت ان سے مشاورت ضرور کریں۔ کوئی پالیسی بناتے وقت اس پالیسی کے سٹیک ہولڈرزسے رابطہ ضرور ہونا چاہیے۔

کیونکہ پالیسی پر عمل انہی سٹیک ہولڈرز نے کرنا ہوتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ حکومت ہم سے رابطہ کرے تاکہ ہم حکومت کو تجاویز دے سکیں۔ میں حکومت کو کچھ تجاویز بھی دینا چاہتا ہوں نئے ٹیکس لگانے کی بجائے نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ بہت سی سروسز پر ٹیکس نہیں ہے، اسی طرح ہوٹل کے کمرے پر تو ٹیکس ہے مگر ہستپال کا کمرہ جو اسی کرائے پر دیا جاتا ہے مگر اس پر ٹیکس نہیں، یہ زیادتی ہے کہ ایک صارف سے ٹیکس لیں اور دوسرے سے نہ لیں۔

میک اپ کرنے کیلئے ایک بیوٹی پارلر والے 35ہزار سے ایک لاکھ روپے تک وصول کرتے ہیں جو کہ چند گھنٹوں کے لئے ہوتا ہے مگر اس پر کوئی ٹیکس نہیں دیا جاتا، جو بندہ چند گھنٹوں کے ایک لاکھ دے سکتا ہے اسے ٹیکس بھی دینا چاہیے اور وہ آسانی سے دے بھی سکتا ہے۔ ایک گھنٹے کے فوٹو شوٹ کا سٹوڈیو والے 50ہزار تک لیتے ہیں مگر وہ بھی کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے، کیٹرنگ والے بھی لاکھوں روپے لیتے ہیں مگر وہ بھی کوئی ٹیکس نہیں دیتے۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ ٹیکس کی شرح بڑھانے کی بجائے نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میںلایا جائے اس سے لوگ ٹیکس دیں گے جس سے ریونیو میں بھی اضافہ ہوگا۔

ذوالفقار خان
(صدر پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن)
ایف بی آر بجٹ سازی کا سٹیک ہولڈر نہیں یہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس کا کا م ہے جس میں عوامی نمائندے شامل ہوتے ہیں ۔بیوروکریسی کے ہاتھوں عوام و کاروبار دوست بجٹ نہیں بن سکتا۔اس لیے بجٹ سازی کا کا م عوامی نمائندوں اور بزنس کمیونٹی کوسونپا جائے۔ چیئرمین ایف بی آر کا تقرر پارلیمنٹ کرے۔ نئے ٹیکس لگانے کی بجائے ٹیکسوں کی شرح میں کمی کر کے ٹیکس نیٹ میں نئے لوگوں کو شامل کیا جائے۔کلیدی عہدوں پر اہل افراد کو تعینات کیا جائے۔

انہوں نے تجویز دی کہ حکومت تمام ٹیکس ختم کرکے صرف اخراجاتی ٹیکس لگادے تو اسے سالانہ 72 کھرب روپے آمدن ہوسکتی ہے(اس حوالے سے کئی برس کی ریسرچ کے بعدہم نے ایک سسٹم بنایا ہے) کسی بھی ملک میں ٹیکس کا نظام ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ٹیکس کا مقصد ہوتا ہے کہ ٹیکس کی کلیکشن بتا سکے کہ ملکی اخراجات کیا ہیں۔



بدقسمتی سے ہمارے ہاں ٹیکس نظام بنانے کاکام پارلیمنٹ کی سینڈنگ کمیٹی برائے فنانس کرتی ہے جوکہ عوام کی نمائندہ ہوتی ہے مگر اقتصادی ماہر نہیں ۔ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے لوگ تجاویز لے کر جاتے بھی ہیں اورایف بی آر حکام ان کی بات سنتے بھی ہیں مگران کی تجاویز پر آج تک عمل نہیں ہوا بلکہ وہ اپنی مرضی کرتے ہیں۔ تجاویز صرف اتمام حجت کے لئے لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ عجیب معاملہ ہے کہ بجٹ میں ٹیکس لگاتے بھی خود ہیں اس پر اپیل بھی خود سنتے ہیں یہ طریقہ کار غلط ہے۔

ایف بی آر کو جب تک بجٹ بنانے سے الگ نہ کردیا جائے مسئلہ حل نہیں ہوگا، معاشی پالیسی بنانے کیلئے ماہر اقتصادیات کو ہونا چاہیے۔ کوئی شک نہیں کہ چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ بہت قابل اور پڑھے لکھے ہوتے ہیں مگر معاشی ماہر نہیں ہوتے وہ بہتر معاشی پالیسی نہیں بناسکتے۔ یورپی ممالک میں ٹیکس کا نظام بہت مضبوط اور بہتر ہے وہاں بھی ٹیکس کا ایسا ہی نظام ہے مگر وہاں ان کی نیت ٹھیک ہے۔ اس لئے وہاںسسٹم کامیابی سے چل رہا ہے۔

میں گزشتہ 40سال سے ٹیکس کی پریکٹس کررہا ہوں،2002ء میں 579آرڈیننس آیا تو یہ آسٹریلین ٹیکس سسٹم سے متاثرہ تھا۔ ٹٰیکس بڑھانے کے لئے پاکستان کے عوام اور زمینی حقائق کا خیال رکھنا ہوگا۔ ہمارے ہاں عام آدمی اور پارلیمنٹیرین کے لئے معاملات الگ الگ ہیں۔ اگر کوئی عام بندہ یا کاروباری شخصیت ٹیکس نادہندہ کی لسٹ میں آجائے تو اس کے دفاع میں چیئرمین ایف بی آر کبھی نہیں آتا تاہم اگر کوئی پارلیمنٹیرین اس لسٹ میں آجائے تو فوراً اس کے دفاع میں آجاتا ہے اس کو فوری این ٹی این جاری کردیا جاتا ہے جس طرح حالیہ الیکشن کے بعد منتخب ہونے والے افراد کا نام ٹیکس نہ دینے والوں کی لسٹ میں آیا تو فوراً ان کے این ٹی این جاری کردیئے گئے ، اگر کسی عام آدمی کے ساتھ ایسا ہوتا تو اس کو کئی ماہ تک بھی این ٹی این جاری نہیں کیا جاتا۔

ڈبل ٹیکسیشن کی اجازت نہیں ہونی چاہیے یہ ٹیکس قانون میں ہی نہیں ہے مگر یہاں ڈبل ٹیکسیشن بھی ہورہی ہے پہلے خام مال پر ٹیکس دینا پڑتا ہے اور پھر تیار مال پر بھی، یہ سراسر زیادتی ہے۔ ٹیکس نیٹ میں لوگ موجود ہیں، سروسز پر بھی ٹیکس ہے اگر کچھ لوگوں کا نام لسٹ میں نہیں ڈالا گیا تو سسٹم کی ناکامی ہے۔ عام بندہ اگر این ٹی این لینا چاہے تو کئی روز میں نہیں بنتا حالانکہ یہ صرف چند گھنٹوں کا کام ہے تاہم اگر ممبر پارلیمنٹ کو ضرورت پڑے تو ایک دن میں جاری کردیا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں مسائل اس لئے بھی ہیں کہ اہم پوسٹوں پر لوگ میرٹ پر تعینات نہیں کئے جاتے اگر درست آدمی کو درست سیٹ پر تعینات کیا جائے تو مسائل کافی حد تک کم ہوسکتے ہیں۔ لوگوںکو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے بڑا آسان طریقہ ہے کہ کار خریدنے پر 5فیصد ٹیکس لگے لوگوں کے یوٹیلٹی بل دیکھ لئے جائیں، ہزار یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرنے والے کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ ایف بی آر جن کو ٹیکس چور کہتا ہے وہ ٹیکس چور نہیں ہیںبلکہ وہ لوگ تو ٹیکس دینے کو تیار ہیں ایف بی آر کو لینا نہیں آتااگر وہ طریقہ کار کے مطابق لینا چاہیں تو سب ٹیکس دینے کو تیار ہیں، جتنے بھی ٹیکس لگادیئے جائیں آخری بوجھ صارف پر ہی پڑتا ہے۔

خواجہ خاوررشید
(چیئرمین سٹینڈنگ کمیٹی فیڈریشن آف پاکستان چیمبر زآف کامرس اینڈ انڈسٹری)
بجلی ،گیس کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے انڈسٹری سال میں صرف100دن چل رہی ہے ۔ایسے میں صنعت و تجارت نئے ٹیکسوں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ زرعی سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ سیلز ٹیکس کی شرح 10فیصد کی جائے۔ مشینری وآلات اورانڈسٹریل خام مال کی درآمد پر ڈیوٹٰی ختم کی جائے۔

پٹرول ،ڈیزل کی بچت اورآئل کا درآمدی بل کم کرنے کیلئے ہائبرڈ گاڑیوں کی امپورٹ پر ڈیوٹٰ کم کی جائے۔ بغیر این ٹی این کسی کو کاروبار کی اجازت نہ دی جائے۔ایس آر اوز کلچر کا خاتمہ کیا جائے۔ اس وقت انرجی کرائسس کی وجہ سے عام لوگ پریشان ہیں، بے روزگاری بے تحاشا بڑھ چکی ہے انڈسٹری بند پڑی ہے۔ مگر نئی آنے والی حکومت بزنس فرینڈلی حکومت ہے اس سے لوگوں نے بہت سی توقعات وابستہ کی ہوئی ہیں جن پر انہیں فوری کام کرنا ہوگا۔ حکومت کو نئے ٹیکس نہیں لگانے چاہیں بلکہ نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا چاہیے، سابق حکومت کا نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں نہ لاسکنا حکومت کی نااہلی ہے۔ نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میںلانا کوئی مشکل کام نہیں ہے بلکہ بجلی، گیس اور دیگر بلوں کے ذریعے بھی انہیںآسانی سے ٹیکس نیٹ میںلایا جاسکتا ہے۔

اس سے حکومت کا ریونیو بڑھے گا ۔ ملک میں جو بندہ بھی کمارہا ہے اسے ٹیکس سے چھوٹ نہیں ہونی چاہیے ، مختلف سروسز پر بھی ٹیکس ہونا چاہیئے چاہے کوئی ڈاکٹر ہے یا کوئی اور سروس دے رہا ہے۔ کوئی بھی کاروبار کرنے کے لئے چاہے کسی نے ریڑھی ہی لگانی ہو اس کے لئے لائسنس ہونا چاہیے جس کا این ٹی این نمبر ہو لائسنس کے بغیر کسی کاروبار کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میںلانے کے لئے گاڑیوں کی رجسٹریشن کا طریقہ بھی موجود ہے جو بھی بندہ مہنگی گاڑی خریدے اسے ٹیکس نیٹ میں شامل کرلیا جائے۔

اس وقت دنیا بھر میں انٹرسٹ ریٹ سب سے زیادہ پاکستان میں 18فیصد ہے مگر انرجی کرائسس کی وجہ سے فیکٹریاں سال کے 365میں سے صرف 100دن چل رہی ہیں اس طرح حساب لگائیں تو مارک اپ 18فیصد کی بجائے چالیس فیصد ہوجاتا ہے، اتنے مارک اپ کے ساتھ انڈسٹری نہیں چل سکتی۔ مارک اپ کو فوری طور پر 7فیصد تک لایا جائے۔

حکومت کو ریونیو چاہیے مگر اس طرح فائدہ نہیں ہوتا۔ سمگلنگ ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ٹیکس ختم کردیا جائے، سیلز ٹیکس 10فیصد تک کردیا جائے اور خام مال کی امپورٹ پر صفر فیصد کردیا جائے ، اس سے حکومت کو نقصان کی بجائے فائدہ ہوگا، ریونیو زیادہ ملے گا اور سمگلنگ بھی ختم ہوجائے گی۔ نگران حکومت نے بڑی گاڑیوں کو سی این جی نہ دینے کا جو نوٹیفکیشن جاری کیا ہے اور سیلز ٹیکس بڑھانے کا نوٹیفکیشن جسے صدر نے مسترد کردیا ہے یہ ان کا مینڈیٹ نہیں ہے، تاہم صدر کا اسے مسترر کردینا خوش آئند ہے۔ انرجی کرائسس کا خمیازہ صنعت بھگت رہی ہے، نئی حکومت کو ڈیزل اور فرنس آئیل پر ڈیوٹی کم کردینی چاہیے جس سے پیداواری لاگت کم ہوجائے گی اور بجلی کے ریٹ کم ہوں گے اور عوام کو ریلیف ملے گا۔

ایس آر اوز بھی ایک آفیشل سمگلنگ ہے 50فیصد خام مال ایسے ہیں جن پر ڈیوٹی مفت ہے۔ کیمیکل سیکٹر میں بھی یہی ہے حکومت کو چاہیے کہ خام مال کی درآمد پر ڈیوٹی صفر فیصد کردیں تاکہ حکومت کی ٹینشن بھی ختم ہو، جو خام مال پاکستان میں بنتا ہے اس کو اگر کوئی درآمد کرے تو اس پر 5فیصد ڈیوٹی ہونی چاہیے۔ مشینری کی درآمد پر بھی ڈیوٹی ہونی چاہیے، ہائبرڈگاڑیوں پر بھی ڈیوٹی کم کردی جائے اس سے ایندھن کی بچت ہوگی اور قیمتی زر مبادلہ بچے گا۔ ملک میں موجود کار انڈسٹری نے اجارہ داری قائم کررکھی ہے اور باہر سے گاڑی منگوانے پر اتنی زیادہ ڈیوٹی لگادی جاتی ہے جو گاڑی دبئی میں 8سے 9لاکھ روپے میں ملتی ہے وہی ہمارے ہاں 25 لاکھ روپے کی ملتی ہے، اندون ملک گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیاں یہ ڈیوٹی کم نہیں کرنے دیتیں اور اپنی تیار شدہ گاڑیوں کی اپنی مرضی کی قیمت وصول کرتی ہیں۔

ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی درآمد پر بھی بڑے مسائل ہیں پھر بھی اگر ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی درآمد نہ ہوتی تو جو گاڑی اس وقت 25لاکھ میں مل رہی ہے وہ 50لاکھ میں ملتی۔ ایس آراوز 98، 140، 154اور 221بزنس کمیونٹی کے انٹرسٹ میں ہیں ان کو واپس لایا جائے۔ اس وقت بینک سے رقم نکلوانے پر 0.2فیصد ٹیکس ہے اور اس کو بڑھا کر 0.3فیصد کرنے کی افواہیں ہیں،اگر حکومت اس طرح کی سوچ رکھتی ہے تو اسے بالکل نہیں ہونا چاہیے اگر ایسا ہوا تو اس سے بہت نقصان ہوگا، لوگ اپنے ساتھ نقد کیش رکھنا شروع کردیں گے جس سے وارداتوں میں اضافہ ہوگا۔

پہلے 50ہزار روپے نکلوانے پر ٹیکس دینا پڑتا ہے اس کو بھی بڑھا کر 1لاکھ کردیا جائے۔ کاروباری حضرات کے لئے چیک ریٹرن کا مسئلہ بھی بہت بڑا ہے پارٹیاں چیک دیتی ہیں جو کہ کیش نہیں ہوتے اس لئے چیک ریٹرن پر بھی ٹیکس ہونا چاہیے اس سے لین دین بھی صحیح ہوجائے گا۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی ملک میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں مگر اس کے لئے قوانین موجود نہیں ہیں اور وہ اپنے سرمائے کو محفوظ نہیں سمجھتے ،اس کے لئے باقاعدہ قوانین بنائے جائیں تا کہ تارکین وطن کے ساتھ فراڈٖ کرنے والے کو فوری سزا دی جائے تو ملک میں سرمایہ کاری ہوگی۔
طاہر ملک
(صدرپاکستان،افغانستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری )
ایکسپورٹ میں اضافہ کر کے پاکستان کے معاشی مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ ایکسپورٹ بڑھنے سے ریونیومیں خود بخود اضافہ ہو جائے گا ۔اس لیے حکومت ایکسپورٹ کو ٹیکس فری انڈسٹری قرار دے ۔ ملکی انڈسٹری کی بقاء اور ترقی کے لئے سمگلنگ کا خاتمہ کیاجائے، جس کے لئے کراچی اور خوست بارڈر کے کسٹم سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ کردیا جائے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے ڈیڑھ لاکھ خاندانوں کا روزگار وابستہ ہے۔ اس کی آڑمیں سمگکنگ کو روکنے کے لئے کنٹینرز کو ٹریکر لگا کر مانیٹر کیاجائے۔ توانائی بحران کے خاتمے کے لئے نجی شعبے کی پاور سیکٹر میں سرمایہ کار ی کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

زرمبادلہ کے ذرائع کو بڑھایا جائے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے اس میں کوئی شک نہیں کہ سمگلنگ ہورہی ہے مگر اس میں وہی ادارے ملوث ہیں جو اس کی روک تھام کے ذمہ دار ہیں۔ ریونیو اکٹھا کرنے والے ادارے ہی یہ سمگلنگ کرارہے ہیں عام عوام افغان ٹریڈ کے ذریعے سمگلنگ نہیں کررہے ہیں۔ اس ٹریڈ سے ڈیڑھ سے دو لاکھ خاندانوں کا روزگار وابستہ ہے اس لئے اسے بند کرنے کا سوچنا ان خاندانوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ اس طریقے سے سمگلنگ کی روک تھام کے لئے اہم چیز یہ ہے کہ کراچی کسٹم سے خوست بارڈر کو کمپیوٹرائزڈ کردیا جائے کہ جو گاڑی افغانستان کے لئے مال لے کر نکل رہی ہے اس کو ٹریکنگ میں لاکر چیک کیا جائے تو وہ افغانستان سے پہلے جہاں بھی رکے گی پتہ چل جائے گا اور اس کو پکڑا جاسکتا ہے مگر ادارے خودایسا نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ان کے اپنے مفادات ہیں۔

دوسری سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ کسی حکومت میں کوئی ایسا بندہ آج تک نہیں آیا جو ایکسپورٹ بڑھانے کے حوالے سے واضح ویژن رکھتا ہو اور وہ ملکی ایکسپورٹ کو بڑھانے کے لئے اقدامات کرسکے ۔آج تک کوئی حکومت ملک کی سب سے اہم ضرورت ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ میں بہتری نہیں لائی، ایکسپورٹ ہوگی تو فارن ایکسچینج آئے گا۔

جب تک لوگوں کو ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے تیار نہیں کریں گے تب تک کسی بھی سیکٹر میں بہتری نہیں آئے گی۔ ہمارے ہاں ٹیکسٹائل سیکٹر کو اہمیت دی جارہی ہے مگر ٹیکسٹائل سیکٹر کے بڑے بڑے ایکسپورٹ کے تمام یونٹ بند پڑے ہیں جن بڑے گروپس کے 3سو کنٹینر روز جاتے تھے وہاں صرف چند ایک جارہے ہیں، ایک فیکٹری جس میں 30ہزار لوگ کام کرتے تھے آج وہ گیس کی بجائے لکڑی پر چل رہی ہے اور وہ 25ہزار لوگوں کو نکال چکے ہیں وہاں صرف 5ہزار لوگ کام کررہے ہیں ان کو بجلی، گیس ملے گی تو وہ فیکٹری چلائیں گے۔ ہماری حکومت سے گزارش ہے کہ انڈسٹری کی وزارت ایسے بندے کو دیں جو ایکسپورٹ کو سمجھتا ہوجب تک ایکسپورٹ نہیں بڑھے گی تب تک زر مبادلہ نہیں بڑھے گا۔

ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ تمام سفارتخانوں میں بیوروکریٹ کمرشل اتاشی لگائے گئے ہیں وہ بزنس کمیونٹی سے تعاون نہیں کرتے، بیرون ملک کسی بزنس مین کی پے منٹ پھنس جائے تو اسے نکلوانے کے لئے تعاون کرنے کی بجائے اسے الٹا جرمانہ کردیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل کئی ٹیکسٹائل سیکٹرز نے اپنی بجلی بنانا شروع کی تھی تاکہ وہ انڈسٹری چلائیں اور اپنے اردگرد کی انڈسٹری کو بھی بجلی فراہم کریں مگر ان پر پابندی لگادی گئی کہ وہ اپنی پیدا شدہ بجلی پہلے نیشنل گرڈ کو دیں اور دوبارہ وہاں سے خریدیں اس سے نقصان یہ ہوا کہ وہ اپنی انڈسٹری بھی نہیں چلاسکے اور ارد گرد بھی بجلی نہیں دے سکے۔

ہمارے حکمران اور بزنس کمیونٹی دو الگ طبقے ہیں جن کی ذہنی ہم آہنگی نہیں ہے، سری لنکا ہمارا قریبی ملک ہے وہاں ہر وزیر ٹیکنو کریٹ ہوتا ہے جو متعلقہ محکمے کا ماہر ہوتا ہے ہمارے ہاں جسے وزیر لگادیتے ہیں اسے اس محکمے کا کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا۔ ایکسپورٹ ایسا محکمہ ہے جس کو ٹیکس فری ہونا چاہیے مگر اس پر بھی ٹیکس ہے۔ ایکسپورٹ کے حوالے سے حکومت کو تجویز ہے کہ انرجی کرائسس کم کرنے کیلئے ادائیگیاں کی جائیں مگر اس کے ساتھ اپنے وسائل کو بھی بڑھایا جائے جنہیں ایکسپورٹ کے ذریعے ہی بڑھایا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کارگو شپ ہی نہیں ہیں کارگو شپس غیر ملکی کمپنیوں کے ہیں جو ان کا منہ مانگا کرایہ وصول کرتی ہیں، کارگو شپس بڑھانے کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔