انحطاط پذیر معاشرہ
سرمایہ داروں کو اب کمیونسٹوں سے لڑنے کی فرصت نہیں،آپس کی لڑائی اتنی شدت اختیارکر گئی ہے کہ سر کھجانے کا بھی موقع نہیں۔
عالمی سرمایہ داری کوگھن کھائے جا رہی ہے۔ یہ نظام اندر سے اتنا کھوکھلا ہو چکا ہے کہ صرف زور دار ایک دھکے کی ضرورت ہے۔ سرمایہ داروں کو اب کمیونسٹوں سے لڑنے کی فرصت نہیں، آپس کی لڑائی اتنی شدت اختیارکر گئی ہے کہ سر کھجانے کا بھی موقع نہیں۔ عالمی سرمایہ داری کا سرغنہ امریکا جو پہلے جمہوریت انسانی حقوق اور آزادی کا سرخیل سمجھا جاتا تھا اب انھیں قدروں کو پامال کرتا جا رہا ہے۔ فلسطین اور پاکستان کو دی جانے والی تین تین سو ملین ڈالرکی امداد روک دی ہے۔
یہ عجیب تضاد ہے کہ فلسطین کی امداد اس لیے روکی ہے کہ فلسطینی دہشتگردی کرتے ہیں جب کہ پاکستان کی امداد اس لیے روکی ہے کہ وہ دہشتگردی کو قابو نہیں کر پائے۔ یہ بھی عجیب وغریب بات ہے کہ فلسطین میں بائیں بازو کی جماعتوں پی ایف ایل پی اور ڈی ایف ایل پی کے مد مقابل امریکی سی آئی اے نے حماس کی تخلیق کی۔ اس وقت حماس تنظیم امریکا کی لاڈ لی تھی۔ اب جب کہ اس کا موقف بدلا ہے یا یوں کہہ لیں کہ سامراجی مفادات سے الگ ہوئی ہے تو اسی امریکا نے فلسطین کی امداد اس لیے بند کردی ہے کہ حماس دہشتگردی کرتی ہے۔ یہی صورتحال پاکستان اور افغانستان میں طالبان کی ہے۔
طالبان کو امریکی ایما پر تربیت دی گئی اور انھیں افغانستان کی بائیں بازوکی حکومت کے خاتمے کا ہدف دیا گیا، جب ڈاکٹر نجیب کی حکومت ختم ہو گئی تو طالبان کی ضرورت نہ رہی۔ اب جب وہ پلٹ کر دہشتگردی کر رہے ہیں تو انھیں مارنے کے لیے امریکا پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے اور امریکی تخلیق کردہ طالبان خود اس کے گلے پڑگئے ہیں۔ اس لیے انھیں مکمل نہ ختم کرنے پر 300 ملین ڈالر کی امداد امریکا نے پاکستان کو دینے سے روک لی ہے۔
ادھر جرمنی میں عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں، عراق کے صوبائی شہر بصرہ میں مہنگائی اور بدامنی سے تنگ آکر مظاہرین نے گورنر ہاؤس کی دیوارکو آتش گیر مادے اور دستی بم مار کر گرا دیا۔ سعودی عرب نے قطرکو جزیرے میں تبدیل کرنے کے لیے اپنے ملک سے متصل زمین کو کھود کر نہر میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس عمل سے قطر کی سرزمین سعودی عرب سے الگ ہوجائے گی اور قطر ایک جزیرے میں تبدیل ہوجائے گا۔ یہ نہر60 کلو میٹر طویل اور 20 میٹر چوڑی ہوگی۔ اس نہرکی کھودائی پر 75 کروڑ ڈالر خرچ آئے گا۔ جب کہ اسی سعودی عرب میں 12.5 فی صد لوگ بیروزگار ہیں اور 10 فی صد لوگ خیراتی کھانوں پہ پلتے ہیں۔
ترکی پر حالیہ امریکی پابندی کی وجہ سے کرنسی کی قدر میں 50 فی صد کی کمی ہوگئی ہے، ادھر انڈونیشیا کی کرنسی کی قدر میں بھی خاصی کمی آئی ہے۔ کل امریکا اور کینیڈا کے تعلقات بہت ہی قریب تر تھے، آج مسلسل تعلقات کے درمیانی فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔
عالمی سرمایہ دری کی انحطاط پذیرائی کی اس صورتحال میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ 1948ء میں 3 روپے کے برابر ایک ڈالر تھا اور اب 124 روپے کا ڈالر ہے۔ بنگلہ دیش اور انڈیا کی کرنسی کی قدریں ہم سے زیادہ ہیں۔ ابھی چند دن ہوئے پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی ہے۔ ایک تو مرکزی حکومت بننے سے قبل سینیٹ کی دھاندلی زدہ انتخابات اتنا بے نقاب ہو گئے تھے کہ ہر ایک کے سامنے عیاں ہے۔ پھر چند ووٹوں سی عمران خان وزیرعظم بنتے بشرطیکہ پی پی شہباز شریف کو ووٹ دیتی شاید زرداری پر مقدمہ اور دیگر پی پی رہنماؤں پرکرپشن کے الزام سے بچنے کے لیے پی پی پی نے شہباز شریف کو ووٹ نہیں دیا۔
ایم پی اے کے شہری کو تھپڑ مارنے کے جرم میں چیف جسٹس نے 30 لاکھ روپے ڈیم فنڈ میں جمع کرانے کا حکم دیا۔ ادھر کچھ درخت لگانے اور پٹرول کی قیمت میں کمی کرنے کے علاوہ اب تک نئی حکومت کچھ نہیں کر پائی۔ وہ بھی ساتھ ساتھ فیصل آباد میں نہروں کے کنارے سیکڑوں درختوں کی کٹائی بجلی کے نرخوں میں 2 فی صد اور گیس کی قیمتوں میں 40 فی صد کا اضافہ کیا گیا، ڈی پی او کی تبدیلی، کبھی مختلف اداروں کے سربراہان کی تبدیلیاں، ہیلی کاپٹروں کا سفر، اسمبلی کی گاڑیوں کی نیلامی اورگورنر ہاؤسوں اور وزیراعظم ہاؤس کو چھوڑنے کے علاوہ کوئی بھی عوامی مفاد کے لیے کام نہیں کیا۔ کم از کم اگر یہ حکومت بجلی کے نرخوں، آٹے کے نرخوں، چاول، دال، دودھ یا چینی کے نرخوں میں چند روپے کی کمی کا اعلان کرتی تو لوگوں کو فائدہ ہوتا بلکہ اس کا الٹ کیا اور کرنے جارہے ہیں۔ 200 اداروں کی نجکاری سے لاکھوں افراد کو روزگار دینے کے بجائے بیروزگاری بڑھے گی۔
کہا جاتا ہے کہ مکانات جب بنیںگے تو لوگوں کو روزگار ملے گا مگر یہ روزگار عارضی ہوگا۔ مکانات بن جانے کے بعد پھر بیروزگاری آجائے گی اور یہ عارضی روزگار بھی چند ہزار لوگوں کو ہی مل سکتا ہے۔ چونکہ عالمی سرمایہ داری انحطاط پذیری کا شکار ہے اس لیے مختلف خطوں اور ملکوں میں مختلف حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
ایک کروڑ تو درکنار ایک لاکھ کو بھی روزگار نہیں دے سکتے ہیں۔ ہاں بیروزگاری سے محنت کشوں کو مالا مال کر سکتے ہیں۔ حکومت جب آئی ایم ایف سے قرض اس شرط پہ نہ لے کہ عوام کو دی گئی رہائشیں واپس لینی پڑیں۔ نجکاری کو روک کر ان اداروں کو بہتر کیا جائے جو خسارے میں چل رہے ہیں۔ پی ٹی سی ایل اور کے الیکٹرک کو از سر نو قومی ملکیت میں لیا جائے، سرکاری اسکولوں کی صورتحال کو بہترکیا جائے اور نجی اسکولوں کا سلسلہ بند کر دیا جائے۔
صحت کو بہتر کرنے کے لیے ہر علاقے میں معقول، مفت اور فوری ادویات کی فراہمی سمیت اسپتال قائم کیے جائیں اور جو سرکاری اسپتال پہلے سے موجود ہیں ان کی صورتحال بہتر کی جائے اور ادویات مفت فراہم کرنے کا بندوبست کیا جائے۔ حکومت اگرکم ازکم اتنا کام بھی کرلے تو غنیمت ہے ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی امداد باہمی والے سماج میں ہی ممکن ہے۔