وزیراعظم سکھائیں اور رہنمائی کریں
جناب وزیر اعظم! اگر آپ ملک کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لے آئیں، میگا کرپٹ وی آئی پی لٹیروں کو قرار واقعی سزا دلوا دیں۔
پچھلے سنیچر کو لاہور شہرکے ایک پلازہ کہ جسے ہمارا میڈیا ''پلازے'' کہتا ہے میں آگ لگ گئی ۔ اس آگ سے اپنی مدد آپ کے تحت اپنی جان بچانے کی کوشش کرنے والا عمران ولد اکرام جاں بحق ہوگیا۔
عمران کیونکہ ایک عام پاکستانی تھا لہٰذا ہمارے میڈیا نے اس کی جان کو ایک سطر سے زیادہ اہمیت نہ دی، ہمیشہ کی طرح آگ کے اس واقعے میں بھی پتا چلا کہ فائر بریگیڈ کے پاس درکار سہولتیں موجود نہیں تھیں مثلاً مطلوبہ اونچائی تک پہنچنے والی اسنارکل نہیں تھی، وغیرہ وغیرہ۔ مگر فرض کیجیے کہ اگر محکمہ فائر بریگیڈ کے پاس تمام جدید ترین سہولتیں اور صلاحیتیں ہوتیں،اس کے فائر فائٹرز نیویارک کے فائر فائٹرز جیسے تربیت یافتہ ہوتے، ان کے پاس سنگاپورکے فائر بریگیڈ جیسی اسنارکل ہوتیں، ان کے فائر انجن ٹوکیو فائر بریگیڈ کے مقابلے کے ہوتے تو کیا اس اور اس طرح کے دوسرے واقعات میں کم نقصان ہوتا ؟ جی نہیں، شاید نہیں۔
کیونکہ جب علی پلازہ میں لگی آگ بجھانے فائر بریگیڈ پہنچا تو وہاں موجود تماش بینوں کے ہجوم کی وجہ سے اسے اپنا کام کرنے میں سخت مشکل کا سامنا کرنا پڑتا۔ چاہے یہ 8 ستمبر 2018 کو ایم ایم عالم روڈ لاہور کے علی پلازہ سے اپنی جان بچانے کے لیے کودنے والا عمران ہو یا 28 نومبر 2012 کو صدر کراچی میں اسٹیٹ لائف بلڈنگ سے گرنے والا اویس، دونوں کے معاملے میں تماش بینوں کا ہجوم تھا جو ان کے اوپر سے گرنے اور مرنے کا تماشا دیکھنے کے لیے نیچے سڑک کے راستے بند کیے کھڑا تھا۔ اب راستے بند کیے ان تماش بینوں کا کیا کیا جائے؟ یہ لوگ خود سے تو ہٹتے نہیں اور اگر پولیس فائر بریگیڈ اور ریسکیو والوں کے لیے انھیں بزور طاقت ہٹانے کی کوشش کرے گی تو میڈیا ہنگامہ مچا دے گا کہ ان لوگوں پہ تشدد کیا گیا، ان لوگوں کو مجمع لگانے اور راستے بند کرنے کے جمہوری حق سے محروم کیا گیا۔ اب بتائیے آپ کیا کریں گے؟ آپ کی ساری جدید مشینری اور ریسکیو کی تربیت تماش بینوں کے ہجوم کے آگے دھری کی دھری رہ جائے گی۔
اب آپ ذرا اس معاملے کو قومی سطح کے تقریباً ہر معاملے سے منسلک کرکے دیکھیے۔ مثلاً یہ کہ فرض کیجیے کہ موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت ملک میں ایک نہیں پانچ ڈیم بنا لیتی ہے تو کیا ملک پانی کی قلت اور قحط سے بچ جائے گا؟ جی نہیں شاید نہیں۔ کیونکہ گھروں کے باورچی خانوں، غسل خانوں سے لے کرگاڑیوں کے سروس اسٹیشنوں تک، فیکٹریوں، کارخانوں سے لے کر کھیتوں، کھلیانوں تک لوگوں کو پانی ضایع کرنے کی عادت ہے۔ آپ پانی پہ ٹیکس لگائیں گے، پانی کی قیمت بڑھائیں گے تو یہ پانی چوری کرنے لگیں گے مگر پانی ضایع کرنا بند نہیں کریں گے۔ فرض کیجیے کہ پی ٹی آئی حکومت قومی معیشت میں ایک کروڑ ملازمتیں پیدا کرلیتی ہے جن کی اکثریت ظاہر ہے کہ ٹیکنیکل ہوگی تو ان ملازمتوں کے لیے میرٹ پہ لوگ کہاں ملیں گے؟ کیونکہ یہاں تو میٹرک سے لے کر پی ایچ ڈی تک میں نقل کا کلچر ہے۔
اسکولوں میں اساتذہ بچوں کی ذرا جو سرزنش کردیں تو ماں باپ لٹھ لیے لڑنے پہنچ جاتے ہیں، اس قوم کو ڈگریاں چاہئیں تعلیم نہیں، چنانچہ یہ لاکھوں کروڑوں خواندہ جاہل ان ملازمتوں کا وہی حشر کریں گے جو ایک پارٹی کے سیاسی تعلق اور لسانی تعصب پہ بھرتی لوگوں نے پی آئی اے کا کیا، اسٹیل مل کا کیا اور جو دیہی سندھ کی نمایندہ سندھ کی صوبائی حکومت کے تقریباً ہر محکمے کا ہوا ہے۔ مزید فرض کیجیے کہ حکومت پورے ملک میں پچاس لاکھ گھر تعمیرکر دیتی ہے پھر کیا ہوگا؟ یہی کہ لوگ ان گھروں کی حدوں سے باہر تک کی جگہ پہ قبضہ کرلیں گے، گھروں کے باہرکوڑے کے ڈھیر ہوں گے اورگلیوں، سڑکوں پہ لوگوں نے اپنے گھر اور دکانیں بڑھالی ہوں گی۔
جناب وزیر اعظم! اگر آپ ملک کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لے آئیں، میگا کرپٹ وی آئی پی لٹیروں کو قرار واقعی سزا دلوا دیں، ملک میں ڈیم بنا دیں، فیکٹریاں لگوا دیں، ادارے مضبوط کر دیں تو یہ آپ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کردیں گے اور یہ بحیثیت ملک کے وزیراعظم آپ کی کامیابی ہوگی ۔ پھر اس مضبوط بنیاد پر ایک مضبوط ملک تعمیرکرنے کے لیے آپ کو ایک باشعور تربیت یافتہ قوم درکار ہوگی جوکہ فی الوقت موجود نہیں۔ چنانچہ بحیثیت پاکستانی لیڈر کے آپ کو اس قوم کی سماجی، شہری اور اخلاقی تربیت بھی کرنی ہوگی۔ میرا آئیڈیا یہ ہے کہ آپ ہر دو ہفتوں میں ایک بار ٹی وی کے ذریعے قوم سے بات چیت کریں۔
جی ہاں، کوئی روایتی خطاب نہیں بلکہ ایک غیر روایتی دوستانہ گفتگو۔ آپ ہر بار قوم سے ایک الگ موضوع پہ بات کیجیے مثلاً یہ کہ حادثے کی جگہ پہ جمع ہوکر مصیبت میں پھنسے لوگوں کے مرنے کا تماشا دیکھنا اور ریسکیو کے کاموں میں رکاوٹ بننا ایک غیر انسانی فعل ہے اور اس مجمع لگانے کی وجہ سے جانے والی جانوں کا قتل کا سا گناہ تماش بینوں کے سر پہ بھی ہوتا ہے۔ مثلاً یہ کہ آپ قوم کو سکھائیں کہ کیسے پانی ضایع نہ کریں، آپ اپنی دو ہفتوں میں ایک بار کی جانے والی گفتگو میں اپنے ساتھ متعلقہ موضوع کے ماہرین اور جہاں ضرورت ہو وہاں چند علمائے کرام کو بھی ساتھ رکھیں، متعلقہ موضوع پہ چھوٹے چھوٹے ویڈیو سے بھی مدد لیں۔ یہ ماہرین اور علما ان گفتگو سیشنز میں آپ کی بات کو سپورٹ کریں مثلاً یہ کہ پانی ضایع کرنے سے ہمارا دین بھی ہمیں روکتا ہے اورکیسے ہمارے گھروں سے کھلیانوں تک روز کروڑوں گیلن پانی ضایع ہونے سے بچ سکتا ہے۔
اسی طرح آپ گفتگو کے ایک پروگرام میں لوگوں کو شعور دیں کہ وہ ہر روز پلاسٹک کی درجنوں تھیلیوں میں سودا سلف لانے کے بجائے کپڑے کا ایک تھیلا یا بان کی ایک ٹوکری خرید لیں اور سودے کی چیزیں اس میں ڈال کر لایا کریں کیونکہ ہمارے ہاں شہری کوڑے کا سب سے بڑا حصہ یہ ماحول اور انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک پولی تھین کی یہ تھیلیاں ہیں۔ اسی طرح جناب وزیر اعظم! آپ انھیں کسی پروگرام میں سمجھائیں کہ جگہ جگہ کوڑا پھیلانا اور تھوکنا ایک انسانی فعل نہیں۔ انھیں کسی پروگرام میں سمجھائیں کہ ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے میں کوئی شان کی بات نہیں۔
انھیں کسی پروگرام میں علمائے کرام کے ساتھ سمجھائیں کہ کرپشن، قبضے، چوری، بے ایمانی سے لے کر ملاوٹ تک حقوق العباد کے گناہ ہیں اور چاہے یہ کتنے ہی حج، عمرے کرلیں، نمازیں پڑھ لیں، روزے رکھ لیں، مذہبی اجتماعات منعقد کردیں، مزاروں، درباروں پہ حاضریاں دے دیں، لنگر بانٹیں، خیرات، زکوٰۃ تقسیم کردیں حقوق العباد کا رتی برابر گناہ بھی رب ذوالجلال معاف نہیں فرمائے گا جب تک جس کا حق مارا گیا وہ بغیر کسی دباؤ کے دل سے معاف نہ کردے۔ یہ ہمارے رب اور رب کریم کے آخری رسولؐ کی تعلیمات ہیں۔
جناب وزیر اعظم! آپ اسی طرح ہر پروگرام میں اس قوم کی سماجی، شہری اور اخلاقی تربیت کے لیے کسی ایک موضوع پہ اس قوم سے بات کریں۔ یہ اس قوم کی روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی نہیں بڑی بڑی باتیں ہیں،اگر اس قوم کی سماجی، شہری اور اخلاقی تربیت ہوگی تو یہ قوم بڑی سے بڑی معاشی، سیاسی اور انتظامی تبدیلیوں کو بھی ناکام بنادے گی۔ اگرکسی ہفتے آپ کے پاس قوم سے گفتگو کے پروگرام کے لیے وقت نہ ہو تو اس دن یہ ذمے داری صدر مملکت عارف علوی نبھا دیں۔ لیڈر قوموں کی تربیت کرتے ہیں جناب وزیر اعظم! ٹیچ اینڈ لیڈ ، ٹیچ اینڈ لیڈ۔