مان لیجیے یہ تیسری جنگ عظیم ہے
چین بھی بے چینی سے عالمی جنگ چھڑجانے کا منتظر ہے۔
یہ میں نہیں کہہ رہی بلکہ وہ کہہ رہے ہیں ، جنہوں نے اس وقت آدھی دنیا کو جنگ کے شعلوں میں دھکیلا ہوا ہے لیکن جانے کون سی پیاس ہے جو خون کی ندیاں بہا کر بھی بجھ نہیں رہی، موت کا کون سا بھیانک رقص ہے جو ابھی دیکھنے سے باقی رہ گیا ہے، وہ کون سا خطہ ہے جو ان طاقتوں کے مفاد کی بھینٹ چڑھنے سے اب بھی بچا ہوا ہے، جسکی تکمیل میں یہ تیسری جنگ عظیم کے سوئے ہوئے دیوکو جگانے کے لیے بیتاب ہیں ۔ ابھی تو پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے کرداروواقعات ہی ذہنوں سے نکل نہیں سکے۔
ابھی تک تو زمین کی آخری تہوں میں پچھلی ایٹمی جنگوں کا لاوا بھی خشک نہ ہوا ہوگا کہ تیسری جنگ عظیم کی باتیں، صرف باتیں ہی نہیں بلکہ تیاریاں اور حفاظتی اقدامات بھی ۔ زیادہ نہیں صرف گزشتہ ایک ماہ کے امریکی و یورپی اخبارات کا مطالعہ کریں تو یقین کیے بنا کوئی چارہ نہ ہوگا کہ دنیا کے کرتا دھرتا ایک بار پھر بڑی تباہی کو دعوت دینے کے لیے بے چین ہیں ۔ ان خبروں کے مطالعے کے بعد آپ ایک ہاتھ سے اپنا چکراتا ہوا سر تھامیں گے اور دوسرے ہاتھ سے خوفزدہ دل کی معدوم ہوتی دھڑکنوں کو۔ لیکن افسوس دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھنے والے اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ وہ اپنی طاقت کا لوہا منوانے کے لیے ہری بھری دنیا کو اجاڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
روس کے صدر ولادی میر پیوٹن تو عقل ودانش کی انتہا کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ اگر تیسری عالمی جنگ چھڑتی ہے تو یہ تہذیبوں کا خاتمہ ہوگا، لیکن جب دنیا میں قیامِ امن کی بات آتی ہے تو وہ عقل وخرد کا دامن چھوڑکر جنگلی بھیڑیے بن جاتے ہیں ، جن کی بھوک شامیوں کا خون پی کر بھی نہیں بجھ رہی ۔
اپنی کھوئی ہوئی طاقت کی بحالی کے لیے موصوف کریمیا پر فوج کشی بھی کرچکے ہیں ۔ نیٹو ممالک کو بھی للکار رہے ہیں ۔ حیرت ہے جنگ کا ماحول تیارکرتے وقت انھیں کیوں نظر نہیں آرہا کہ ممکنہ عالمی جنگ انسانی تہذیب کے خاتمے کا باعث ہوگی ۔ صرف روس ہی کو تنہا مورد الزام کیوں ٹھہرایا جائے ۔ امریکا بھی تیسری عالمی جنگ کی بندوق اپنے کاندھے پر رکھ کر چلانے کو بے چین ہے ۔ چین سے کھلم کھلا مقابلے اور دھمکیوں پر اترے ہوئے ہیں ۔ چین بھی بے چینی سے عالمی جنگ چھڑجانے کا منتظر ہے۔اس نے امریکا کو براہ راست نشانہ بنانے کے لیے ڈی ایف چھبیس میزائل تیارکرلیا ہے جو اٹھارہ سو سے دو ہزارکلو جوہری وارہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چین کا دعویٰ ہے کہ اس سے نہ صرف امریکی جزیرہ گوام متاثر ہوگا بلکہ امریکی بیڑے بھی تباہ ہوجائیں گے۔
گوام میں گزشتہ پچھتر برسوں سے امریکی فوج کی بڑی چھاؤنی موجود ہے جہاں لگ بھگ سات ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں ۔ 1944ء میں جاپان پر بم باری کرنے کے لیے یہ ایئر بیس قائم کی گئی تھی جو چین کے ساتھ ساتھ شمالی کوریا کا بھی آئیڈیل ہدف ہے۔ شمالی کوریا نے بظاہر تو تمام تلخیاں اور دھمکیاں ایک طرف رکھ کر امریکا سے ہاتھ ملا لیا ہے لیکن وہ اب بھی خفا ہے کہ امریکا ہمیشہ سے اس کا جوہری پروگرام بند کروانا چاہتا ہے، بدلے میں اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا ، بلکہ کسی گینگسٹر کی طرح صرف مطالبات کرتا رہتا ہے۔ لہٰذا جوہری مذاکرات پر شمالی کوریا کے مطمئن نہ ہونے سے بھی اس بات کا پورا امکان موجود ہے کہ شمالی کوریا امریکا کے سامنے تن کر پھر کھڑا ہوجائے اور یہیں سے تیسری جنگ عظیم کی شروعات ہو جائے جس کا پہلے بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔
موجودہ عالمی بحران کا سب سے بڑا مرکز شام ہے۔ ایران عراق اور حزب اللہ کی حمایت کے ساتھ سنی اکثریت کے مقابلے میں قدم جمانا چاہتا ہے اور اس کی حمایت میں روس ہے، جس کا مقصد لگے ہاتھوں اپنے پیر بھی سب طرف پھیلانا ہے۔ شیعہ ممالک کی مخالفت میں سعودی عرب اور قطر اس جنگ کا حصہ بنے اور روس کے مقابل ان کی پشت پناہی کرنے امریکا آپہنچا ۔ ترکی شامی کردوں کے خلاف صف آراء ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے ڈھیروں ممالک اس جنگ میں بالواسطہ یا بلا واسطہ کود پڑے ۔ کسی کے حمایتی بن کر توکسی کے مخالف ۔ شام کی نازک صورتحال یہاں سب ملکوں کو ایک دوسرے کے سامنے صف آرا کرکے کسی بھی وقت اس عالمی جنگ کا باعث بن سکتی ہے، جس کے خوف کا شکار اس وقت پورا یورپ اور امریکا ہے۔ دنیا میںہر طرف نفرت کی آگ بھڑک رہی ہے۔
جنگوں میں جو مارے جانے سے بچ گئے وہ بھوک کا شکار ہیں۔ ایک دوسرے پر فتح حاصل کرنے کے جنون میں دنیا کے وہ سنجیدہ مسائل حل طلب پڑے ہیں جن پر انسانی بقا کا دار ومدار ہے ۔ ان میں سب سے اہم ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں ، لیکن ان مسائل سے سر پھوڑنے کی فرصت کسے ہے۔ پہلے عالمی جنگ کے شعلے بھڑکا دیں پھر بچی کچی دنیا میں توانائیاں صرف کریں گے۔ سب کا ٹھیکا تو نہیں لیا۔ ہاں، لیکن جہاں جہاں جنگی جنون آزمانے کی ضرورت پڑے گی یہ سب ٹھیکیدار بن کر آگے آگے ہوں گے۔ موجودہ بگڑا ہوا منظر نامہ دیکھ کر تو دنیا میں ترقی و تبدیلی کے سارے دعوے ڈھکوسلے لگنے لگے ہیں۔ یہ کیسی ترقی ہے کہ سب ایک دوسرے سے خوفزدہ ہیں۔
اسی خوف میں اگر کسی ایک کو بھی اپنی بقا اور سلامتی کے سامنے بند دیوار آجانے کا خطرہ محسوس ہوا وہی ایٹمی جنگ چھیڑ دے گا۔ سب ایک دوسرے کی طاقت سے خوف کھا کر زیادہ سے زیادہ ایٹمی طاقت حاصل کر رہے ہیں۔ ایسے میں کسی کی ذرا سی لغزش بھی جتنی بڑی تباہی کا باعث بنے گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ماضی میں گھڑ سوار دنیا کا امن تاراج کرتے تھے تو آج یہ فریضہ میزائل اور بم انجام دے رہے ہیں۔ یہ کیسی ترقی ہے جس کو دیکھ دیکھ کر ہم جھومے جا رہے ہیں۔ 1992ء میں امریکی روزنامےHorward Crimson نے لکھا تھا کہ جیسے جیسے ذرایع آمدورفت اور ہتھیار جدید ہوتے جائیں گے دنیا میں جنگ کے خطرات بھی بڑھتے چلے جائیں گے اور ملکوں کے درمیان تنازعات میں اضافہ ہوگا۔ آج ایسا ہی ہوا ہے۔
بے تحاشا ترقی کے ساتھ بے انتہا تباہیاں جھیل کر بھی شاید زمین کے سینے میں ٹھنڈ نہیں پڑی جس کی وجہ سے تیسری عالمی جنگ کے لیے میدان ہموارکرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ تیسری جنگ عظیم کی وارننگ کے طور پر روس نے سرد جنگ کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی جنگی مشقوں واسٹاک2018ء کا آغاز سائبیریا میں کردیا ہے، جس میں تین لاکھ فوجی اور تقریباً چھتیس سو ٹینک اور ایئرکرافٹ حصہ لے رہے ہیں۔ ان مشقوں میں چین بھی شامل ہے۔ دونوں مل کر یورپ اور امریکا کو اپنی جنگی صلاحیت کا اصل چہرہ دکھانا چاہتے ہیں۔
یہ جنگی مشقیں نیٹو ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا چکی ہیں۔ اس سے قبل دو ستمبر کو نیٹو کے تیرہ اتحادی ممالک نے یوکرین میں جنگی مشقیں کرکے روس کو اپنی طاقت دکھائی تھی تاکہ وہ کریمیا کے مسئلے پران سے ٹکرانے کا سوچ بھی نہ سکے، لیکن روس نے اس سے زیادہ طاقت کا اظہار کرکے نیٹو ممالک کو حواس باختہ کردیا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ روس اپنی کھوئی ہوئی طاقت کے حصول کے لیے پاگل ہو رہا ہے، اگر اس مقصد کی تکمیل کے لیے اسے تیسری عالمی جنگ کی طرف جانا پڑا تو وہ موقع گنوائے گا نہیں۔ گویا یہ دوسری سرد جنگ تیسری عالمی جنگ کا طبل بجا رہی ہے۔ مغربی میڈیا میں یہ اس وقت بہت بڑا موضوع بن چکا ہے۔
ایسی تحریروں کی اشاعت ہو رہی ہے جس سے لوگوں میں آگاہی پھیلائی جا رہی ہے کہ کسی بھی عالمی جنگ کی صورت میں وہ خود کوکیسے زیادہ سے زیادہ محفوظ بنا سکتے ہیں ۔ حتیٰ کہ غذائی ماہرین ان غذاؤں کی فہرست بھی مرتب کر چکے ہیں جو تیسری عالمی جنگ کے بعد باقی رہ جائیں گی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں اس وقت جتنے جنگی محاذ گرم ہیں، خدشہ تو یہ ہے کہ آنے والی نسلوں کے نصاب میں جنگی مضامین کے سوا کچھ نہ بچے گا۔